اندھے لوگ| حوزے ساراماگو | احمد مشتاق

کتاب: اندھے لوگ
مصنف: جوزے ساراماگو
مترجم:احمد مشتاق
تبصرہ: علی عمار یاسر

اندھے لوگ حوزے ساراماگو کا ناول ہے۔ سڑک پہ گاڑی چلاتا ایک آدمی اچانک چیختا ہے، اندھا ہو گیا ہوں، میں اندھا ہو گیا ہوں۔ اس کے بعد ایک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے لوگوں کے اندھے ہونے کا۔ ایک وبا پھوٹ پڑی ہے جس سے کوئی محفوظ نہیں۔ ریڈیو پر خبریں پڑھنے والا خبریں پڑھتے اچانک ایک ہذیانی آواز میں اپنے اندھے ہونے کا اعلان کرتا ہے۔ بس ڈرائیور، پائیلٹ، سپاہی، ڈاکٹر، حکمران، دوکاندار سب ایک کےبعد ایک اس وبا کا شکار ہونے لگ جاتے ہیں جس کی وجہ اور علاج کسی کے علم میں نہیں۔ ایک بےرحم وبا ہے جو اچھے، بُرے اور بچے بوڑھے میں کوئی تمیز نہیں کرتی۔

اندھے لوگ، جو شروع میں اپنی بینائی کھوتے ہیں، انہیں نظربندی، یا آئسولیشن میں رکھ دیا جاتاہے، جہاں ایک اور ہی جنگ ہے۔ انہیں اپنے اندھے پن سے سمجھوتا کرتے ہوئے خود کو منظم کرنا ہے۔ راستوں، بستروں، بیت الخلاؤں سے آگاہی حاصل کرنی ہے اور کھانے کی تقسیم کا ایک ایسا نظام وضع کرنا ہے کہ تمام اندھے لوگوں میں برابر تقسیم ہو۔ لیکن یہاں بھی کچھ اندھے ایسے ہیں جو طاقت کے بل بوتے پر محدود وسائل پر قبضہ جما لیتے ہیں۔ کچھ عرصہ بعد یہ نظربندی ختم ہوتی ہے جب اندھوں کو پتہ چلتا ہے کہ ان پر نظر رکھنے والے سپاہی بھی اندھے ہو چکے ہیں اور اب انہیں روکنے والا کوئی نہیں۔

اندھے لوگ کیسے زندہ رہیں گے، کیسے کھائیں پئیں گے جب اناج اگانے والے بھی اندھے ہو چکے ہوں؟ ایک ایسے ملک کا اندازہ کیجیے جہاں سبھی اندھے ہو چکے ہیں۔ لیکن سبھی نہیں، ایک عورت ہے جو دیکھ سکتی ہے۔ پورا ملک اندھا ہے سوائے ایک عورت کے جو سب کچھ دیکھ سکتی ہے۔ لیکن آپ اسے اس کی خوش قسمتی مت سمجھیے، اندھوں کی دنیا میں دیکھنے کی صلاحیت نعمت نہیں، ایک مستقل اذیت ہے۔ انسانی رویوں کا مشاہدہ کرنا جب کہ انسانوں کو لگے کہ انہیں کوئی دیکھنے والا نہیں، کچھ ایسا خوشگوار تجربہ نہیں ہے بلکہ اچھا خاصا امتحان ہے۔

اندھے لوگ جو کچھ کرتے نظر آتے ہیں، اگر ہم غور کریں تو شاید آنکھوں والے بھی یہی کرتے ہیں۔  ناول بہت شاندار ہے، بس اس میں کچھ مناظر نازک مزاج لوگوں پر بہت زیادہ سخت اور شاید گراں گزریں گے۔ انسانی رویوں، مجبوریوں اور جبلتوں کو ایک بےرحم کہانی کار نے بغیر کوئی لگی لپٹی رکھے بیان کر دیا ہے۔

احمد مشتاق ایک بڑا نام ہے، مگر ایک قاری کی حیثیت سے میری ناقص رائے یہ ہے کہ ترجمہ اس سےبہتر ہو سکتا تھا۔ اکثر جگہوں پر دو بولنے والوں کے جملوں میں یہ دیکھنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کون سا فقرہ کس نے کہا ہے۔شاید اس کی وجہ حوزے ساراماگو کامشکل اندازِ تحریر بھی ہو۔ لیکن اس سب کے باوجود،  ناول کی کہانی مسحور کن ہونے کی وجہ سے ترجمے کی کمی کافی حد تک پوری ہو جاتی ہے۔

Related Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *