باپ اور بیٹے

باپ اور بیٹے | ایوان ترگنیف

جس زمانے اکبر الہ آبادی نے اپنا یہ مشہورِ زمانہ شعر لکھا؛
ہم ایسی کُل کتابیں قابلِ ضبطی سمجھتے ہیں
کہ جن کو پڑھ کے لڑکے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں

کم و بیش اسی زمانے ایوان ترگنیف نے اپنا شاہکار ناول باپ اور بیٹے لکھا۔ لگتا یہ ہے کہ روس میں بھی ان دنوں لڑکے دو کتابیں پڑھ کر باپ کو خبطی سمجھتے تھے۔ (یا شاید یہ ہمیشہ سے ہر دور کا قصہ رہا ہے) ۔ دو بیٹے ہیں، بازاروف اور ارکادی۔ دونوں نہلسٹ ہیں، نہلزم کو آپ مذہبِ انکار کہہ سکتے ہیں اور نہلسٹ تمام مروجہ عقائد کا انکار کرتے ہیں۔اس زمانے میں نہلزم فیشن تھا اور نوجوان صرف سائنسی طور پر قابلِ اعتبار چیزیں مانتے تھے۔یعنی مروجہ اخلاقیات، مذہبیات اور رومانویت کے بالکل الٹ چلتے تھے۔ ان کے برعکس، دونوں کے باپ قدامت پرست تھے اور مذہبی و سماجی رسوم کو سماجی بنت کا اہم دھاگہ سمجھتے تھے۔ باپ اور بیٹے آپس میں نظریاتی اختلافات رکھتے تھے۔ دونوں بیٹے، بالخصوص بازاروف، سائنس کی پیروی میں شفقتِ پدری کے بھی منکر تھے۔بازاروف تو بےرحمی کی حد تک والدین کی محبت کا مخول اڑاتا تھا یہ کہتے ہوئے کہ محبت آخر ہے کیا؟ ناول کا وہ حصہ جس میں بازاروف کی ماں اس خوف سے اسے پیار کرنے سے بھی ڈرتی ہے کہ کہیں بازاروف بُرا نہ مان جائے، کافی دُکھا دینے والا ہے۔

خیر، دونوں افلاطونوں کا جب ایک مسحور کن دوشیزہ سے واسطہ پڑتا ہے تو دونوں اپنے نظریات کی بنا پہ محبت کا رد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس غیرفطری جدوجہد کے نتیجے میں بازاروف جیسا بےرحم بندہ بھی، بظاہر مضبوطی کی ایکٹنگ کرنے اور عورتوں کی تحقیر کرنے کے باوجود، ٹوٹ جاتا ہے، اس کا ٹوٹنا کافی دردناک ہے۔ ترگنیف نے باپ اور بیٹے میں جاری اس جدوجہد اور باپ کی شفقت کو بہت خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔

مجموعی طور پر اچھا اور دل دکھا دینے والا ناول ہے۔ جدیدیت اور قدامت کی بحث، اور جسے ہم جنریشن گیپ کہتے ہیں، اس بارے بہت اچھی کہانی ہے۔ مترجم انور عظیم ہیں، اور ترجمہ مناسب ہے۔ بک کارنر جہلم نے چھاپا ہے اور کافی اچھا چھاپا ہے۔

 

کتاب زندگی ویب سائٹ اور فیس بک پیج کے ذریعے آپ ایسی دلچسپ کتب کے مزید تبصرے پڑھ سکتے ہیں۔

Related Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *