صفر سے ایک تک | مرزا اطہر بیگ

کچھ دن پہلے میں فیس بک پر ایک بحث پڑھ رہا تھا کہ اردو میں اچھا ادب لکھا جا رہا ہے یا نہیں؟ جو قارئین اردو ادب کے مستقبل سے مایوس ہیں، انہوں نے شاید مرزا اطہر بیگ کو نہیں پڑھا۔ پڑھیں، حظ اٹھائیں اور ناز کریں اپنی زبان پر جس میں ایسے لکھنے والے موجود ہیں۔

کیا انسان کی سماجی و داخلی کیفیات کی کمپیوٹر پروگرامنگ کی جا سکتی ہے؟ موجودہ طبقاتی نظام کو، جس میں ایک طرف محکوم ہیں اور دوسری طرف حاکم، کمپیوٹنگ کی اصطلاح میں Binary system سمجھا جا سکتا ہے؟ محکوم جب حاکم کے خلاف کھڑا ہو جائے، صفر جب اپنے بائنری سسٹم میں ایک کے خلاف بغاوت کھڑی کر دے، تو کیا ہو گا؟ بظاہر یہ آپ کو خشک سوالات لگ رہے ہوں گے، مگر مرزا اطہر بیگ صاحب نے بہت خوبصورتی سے ان بظاہر خشک سوالات کا اپنے ناول ‘صفر سے ایک تک’ میں جواب تلاشنے کی کوشش کی ہے۔

مرزا اطہر بیگ کے قلم پہ واری جاؤں، کیا کچھ نہیں ہے اس ناول میں۔ اور ناول کی تکنیک بھی چونکا دینے والی، اور سسپنس کی رسیوں سے باندھ دینے والی ہے۔ مرکزی کردار کہانی بیان کرتے کرتے کبھی ایک دم مستقبل کے کسی واقعے کی مبہم سی پیشین گوئی کرتاہے جس سے ‘آگے کیا ہو گا’ کا تجسس مزید بڑھ جاتا ہے، کبھی ماضی کی کسی بات کی وضاحت شروع کرتا ہے اور کبھی حال کی طرف آ جاتا ہے۔ ماضی، مستقبل اور حال کا یہ مسلسل سفر قاری کو بےحال نہیں کرتا، اس کے ذوقِ مطالعہ کو اور مہمیز دیتا ہے۔

بظاہر یہ ایک عام سی کہانی لگے گی، ایک ہیرو ہے، دو ہیروئنز ہیں، ایک ظالم سماج ہے اور ایک ہمدرد سماج ہے۔ ہمارے طبقہِ امراء کا ایک نیٹ ورک جو امدادِ باہمی اور مفادِ باہمی کے اصولوں سے منسلک ہے، یہ نیٹ ورک کیسے کام کرتا ہے اور اپنی راہ میں حائل رکاوٹوں کو کیسے دور کرتا ہے، جو کوئی اس نیٹ ورک کی راہ میں مزاحم ہو، اس پر کیا بیتتی ہے؟ ناول کی کہانی ہمارے معاشرے کی مختلف تہہ در تہہ پرتیں بڑی مہارت سے اتارتی جاتی ہے۔ مصنف داد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے جدیدیت کو ٹھکرایا نہیں، بلکہ اپنایا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی اور اس کا آج کے انسان کی ذاتی و سماجی کیفیات پر جو اثر ہے، وہ مرزا اطہر بیگ نے اس ناول میں نہ صرف یہ کہ تسلیم کیا ہے، بلکہ پوری شد و مد سے بیان بھی کیا ہے۔

صفر سے ایک تک پڑھنے کے بعد آپ کو لگے گا کہ ناول میں استعمال کی گئی اصطلاحات، مثلاً ‘کُبا گروپ، سالار نیٹ ورک، وعدہ معاف گروپ، تھڑا کانفرنس، منشی خاندان’ کوئی غیر حقیقی اور افسانوی اصطلاحات نہیں ہیں۔بلکہ آپ کو اپنے اردگرد بہت سے ایسے لوگ مل جائیں گے جو ان کیٹگریز میں کہیں نہ کہیں فٹ بیٹھتے ہیں۔ ناول کا المناک انجام میری توقعات کے برعکس اور دل دکھا دینے والا تھا، مگر مرزا اطہر بیگ کی حقیقت پسندی کا عکاس بھی تھا۔

Related Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *