غبارِخاطر خطیب الہند مولانا ابوالکلام آزاد

غبارِخاطر – خطیب الہند مولانا ابوالکلام آزاد

اپنی سوانح حیات میں شورش کاشمیری نے مولانا ابوالکلام آزاد اور قائداعظم کے مابین ہوئی خط و کتابت کو یوں بیاں کیا ہے

جناح مقبولیت کے اس مقام تک پہنچ چکے تھے جہاں انہوں نے خطیب الہند مولانا ابولکلام پہ فقرہ بازی شروع کر دی تھی. مولانا ابولکلام آزاد نے قائد_اعظم کو خط لکھا کہ انہیں اپنے مطالبات و شکایات سے آگاہ کریں. قائد_ اعظم نے جواب دیا کہ ان کی حیثیت کانگریس کے شو بوائے کی سی ہے سو ان سے کوئی بات نہیں کی جا سکتی. اس فقرے کو مسلم لیگ کے لیڈر لے اڑے اور ابولکلام پہ تبری’ شروع کر دیا. اردو زبان میں کوئی ایسی گالی نہیں ہوگی جو اپنے عہد کے اس سب سے بڑے مدبر، خطیب اور ادیب کو نہ دی گئی ہو

ابوالکلام آزاد کو ہمارے ہاں کانگریس کے صدر اور قیام پاکستان کے مخالف کے طور پر ہی جانا جاتا ہے اور اس حوالہ سے ان کو شدید طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جاتا ہے حالانکہ اس عہد کے کئی دوسرے مسلمان اکابرین تقسیم_ہند کے شدید مخالف تھے جن میں مولانا مودودی اور اید عطاءاللہ شاہ بخاری بھی شامل تھے۔ قائداعظم کو کافر_اعظم کا خطاب پہلی دفعہ مجلس احرار کے ہی ایک جلسہ میں دیا گیا۔ مولانا مودودی، عطاءاللہ شاہ بخاری و دیگر علماء کو تو ہمارے مورخین نے دستار_فضیلت پہنا کر علمیت کا چوغہ اوڑھا دیا ہے لیکن ایک مذہبی پیشوا کے گھر پیدا ہونے والا ایک عرب ماں کا بیٹا ابوالکلام آزاد جسے قلعہ احمدنگر میں عرب موسیقیت کا تذکرہ کرتے ہوئے حرم کعبہ میں ایک ترتیب سے دی جانے والی اذانیں یاد آ جاتی ہیں اور جو اپنی کتاب میں ہر ڈھائی پونے تین سطر بعد قرآنی آیات، عربی، فارسی و اردو اشعار اور ضرب الامثال ٹانک دیتا ہے، ابھی تک راندہ_درگاہ ہے۔ سرکاری مورخین کی اس بےاعتنائی کا سبب آزاد کا یہ خدشہ رہا ہو گا کہ اگر سب مسلمان اکابرین پاکستان چلے گئے تو پیچھے رہ جانے والے کروڑوں مسلمانوں کی دلجوئی و دل تشفی کےلیے کوئی نہیں بچے گا۔ ابوالکلام آزاد کے نظریات سے اختلافات ضرور ہو سکتے ہیں لیکن ان کے علم، خطابت و ذہانت سے انکار کرنا گویا اپنی کم علمی و کوتاہ بینی کا اعتراف ہے۔

غبار خاطر ان خطوں کا مجموعہ ہے جو قلعہ احمد نگر میں انگریز سرکار کی قید کے دوران (1942-45) آزاد نے اپنے ایک قریبی عزیز کو لکھے، قید و بند کی سختیوں کی وجہ سے یہ خطوط اس وقت تو پوسٹ نہ سکے لیکن بعد میں ایک مجموعہ کی صورت میں چھاپ دیے گئے۔ یہ عرصہ سیاسی طور پر بہت ہنگامہ خیز تھا۔ دوسری جنگ_عظیم عروج پر تھی، ‘ہندوستان چھوڑ دو’ تحریک زوروں پر تھی۔ اس انتہائی مصروف زندگی سے آزاد کو، بمع نہرو و دیگر کانگریسی زعماء، اٹھا کر ایک ایسے قلعہ میں قید کر دیا گیا جہاں قیدی کی باہر کی دنیا سے خط و کتابت نہ ہونے کے برابر تھی۔ اس قید میں قیدی کے شب و روز کیسے گزرتے ہیں، وہ خود کو مصروف کیسے رکھتا ہے اور زندگی کے بارے میں کیا سوچتا ہے، یہ جاننا ایک دلچسپ تجربہ ہے۔

خطوط غیر سیاسی اور دلچسپ ہیں، موضوعات دلچسپ تر۔ آزاد ہمیشہ صبح چار بجے اٹھ کر چائے نوش کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ چینی چائے کی توصیف میں آنجناب رطب اللسان ہیں اور ہندوستان کی چائے کو تحقیر آمیز انداز میں ایک گرم اور میٹھے شربت سے تشبیح دیتے ہیں۔

مذہب کے بارے میں آزاد کا فلسفہ میں نے بغور پڑھا۔ اس بات کا انہوں نے اعتراف کیا کہ ایک مذہبی بلکہ پیری فقیری والے گھرانے سے تعلق ہونے کے باوجود وہ تشکیک سے گزرے۔ کہتے ہیں

یہ راہ ہمیشہ شک سے شروع ہوتی ہے اور انکار پر ختم ہوتی ہے، اور اگر قدم اسی پر رک جائیں تو پھر مایوسی کے سوا اور کچھ ہاتھ نہیں آتا:

تھک تھک کے ہر مقام پہ دو چار گر گئے

تیرا پتہ نہ پائیں تو ناچار کیا کریں

مولانا نے یہ طویل بحث، تقلیدی مذہب کی ہجو اور تحقیقی مذہب کی ثناء کے بعد، اس نکتہ پہ ختم کی ہے کہ مذہب و خدا کا مادی ثبوت ہونا ضروری نہیں، یہ انسانی زندگی کے خلاء کو پر کرتے ہیں، مقصدیت دیتے ہیں اور اس خلاء کا پر کرنا ہی ان کی صداقت کی دلیل ہے۔

ایک اور خط میں مولانا نے حسن بن صباح کا تذکرہ کیا جسے مسلمان اور عیسائی بادشاہ خراج دیا کرتے تھے اور جس کا دھمکی آمیز و علامتی خنجر ہر بادشاہ کی خواب گاہ میں ایک پراسرار طریقہ سے پہنچا دیا جاتا تھا تاکہ بادشاہ کو پیغام دیا جا سکے کہ وہ حسن بن صباح کے فدائین سےکہیں محفوظ نہیں۔ اس خط کے پڑھنے کے بعد میں ایک ایسی مستند کتاب کی تلاش میں ہوں جو حسن بن صباح، اس کے قلعہ الموت اور اس کے فدائیوں کی تفصیل دے۔

مسلمانوں اور عیسائیوں کی سابقہ و موجودہ کیفیات کے بارے میں آزاد نے لکھا ہے کہ صلیبی جنگوں کے دوران جب مسلمانوں نے منجنیق کے ذریعے آگ کے گولے پھینکے تو ان کی ہیبت ناک آواز سن کر عیسائی بادشاہ لوئیس اپنے بستر سے اٹھ کھڑا ہوتا اور گرگڑا کر اپنی اور اپنی فوج کی سلامتی کی دعائیں مانگنے لگ جاتا۔ یہ لیکن تیرہویں صدی کا قصہ ہے۔ اٹھارہویں صدی میں معاملہ الٹ ہے۔ نپولین نے جب مصر پر حملہ کیا تو

مرادبک نے جامع ازہر کے علماء کو اکٹھا کر کے مشورہ کیا کہ اب کیا کرنا چاہیے؟ علماء نے بالاتفاق یہ رائے دی کہ جامع ازہر میں بخاری شریف کا ختم شروع کر دینا چاہیے۔۔۔ لیکن ابھی صحیح بخاری کا ختم، ختم نہیں ہوا تھا کہ اہرام کی لڑائی نے مصری حکومت کا خاتمہ کر دیا

آزاد نے لکھا ہے کہ انیسویں صدی میں جب روسیوں نے بخارہ کا محاصرہ کیا تو امیر بخارہ نے حکم دیا کہ تمام مسجدوں اور مدرسوں میں ختم خواجگان پڑھایا جائے۔

ادھر روسیوں کی قلعہ شکن توپیں شہر کا حصار منہدم کر رہی تھیں ادھر لوگ ختم خواجگان کے حلقوں میں بیٹھے یا مقلب القلوب، یا محول الاحوال کے نعرے بلند کر رہے تھے۔ بالآخر وہی نتیجہ نکلا جو ایک ایسے مقابلے کا نکلنا تھا جہاں ایک طرف گولہ بارود ہو اور ایک طرف ختم خواجگان

ایک دلچسپ واقعہ مولانا نے اپنے بچپن کا لکھا ہے جس میں ایک قوال کا ذکر ہے جو مولانا آزاد کے والد سے بیعت ہونا چاہتا تھا لیکن ایک طویل عرصہ تک بیعت کی اجازت نہ ملی۔ اخر کافی وقت بعد جب اس کی بیعت قبول ہوئی تو اس نے گانا بجانے سے مکمل توبہ کر لی۔ شومئی_قسمت کہ جس کی بیعت مولانا صاحب کے والد نے ایک طویل عرصہ تک اس لیے موخر رکھی کہ وہ لونڈیوں کے ہمراہ گانا وغیرہ بجایا کرتا تھا، بعد میں اسی قوال سے مولانا نے ستار بجانا سیکھا اور موسیقی کے دیگر رموز سے آگاہی حاصل کی۔ اسی خط میں مولانا نے لکھا ہے کہ اسلام موسیقی کے بالکل خلاف نہیں ہے بلکہ برصغیر، عرب و عجم کے بیشتر اکابرین_مسلمان موسیقی کی گہرائیوں سے بخوبی واقف تھے۔ ان کے نزدیک موسیقی میں بذات خود کوئی عیب نہیں بلکہ فرق اس بات سے پڑتا ہے کہ موسیقی دوسرے دنیوی امور کے سرانجام دینے میں حائل ہو رہی ہے کہ نہیں؟

موسیقی کا ایک شوق تو اکبر کو تھا کہ اپنی یلغاروں کے بعد جب کمر کھولتا تو مجلس_سماع و نشاط سے ان کی تھکن مٹاتا اور پھر ایک شوق محمد شاہ رنگیلے کو تھا کہ جب تک محل کی عورتیں اسے دھکیل دھکیل کر پردہ سے باہر نہ کر دیتیں، دیوان خانے میں قدم نہیں رکھتا تھا۔ صفدرجنگ جب دیوان کی مہمات سے تھک جاتا تو موسیقی کے باکمالوں کو باریاب کرتا۔ اسی کی نسل میں واجد علی شاہ کا یہ حال تھا کہ جب طبلہ بجاتے بجاتے تھک جاتا تو اپنے وزیر علی نقی کو باریابی کا شرف دیتا

خود ان کے نزدیک وہ دنیا کی ہر چیز کے بغیر رہ سکتے ہیں سوائے موسیقی کے۔ فن و ادب کو اپنی تنگ نظری کی بھینٹ چڑھانے والوں کے بارے میں مولانا کہتے ہیں

حسن آواز میں ہو یا چہرے میں، تاج محل میں ہو یا نشاط _باغ میں، حسن ہے اور حسن اپنا فطری مطالبہ رکھتا ہے۔ افسوس اس محروم_ازلی پر جس کے بے حس دل نے اس مطالبہ کا جواب دینا نہ سیکھا ہو۔

ان مضامین کے علاوہ بھی آزاد نے کئی دلچسپ مضامین کو چھیڑا ہے۔ اپنے دو پسندیدہ اقتباسات لکھتا ہوں

اس میکدہ_ہزار شیوہ و رنگ میں ہر گرفتار_دام_تخیل نے اپنی خود فراموشیوں کےلیے کوئی نہ کوئی جام_سرشاری سامنے رکھ لیا ہے اور اسی میں بیخود رہتا ہے۔ جب لوگ کامجوئیوں اور خوش وقتیوں کے پھول چن رہے تھے، تو ہمارے حصے میں تمنائوں اور حسرتوں کے کانٹے آئے۔ انہوں نے پھول چن لیے اور کانٹے چھوڑ دیے، ہم نے کانٹے چن لیے اور پھول چھوڑ دیے۔

اپنی زوجہ کے بارے میں لکھے گئے خط میں ایک جگہ کیا ہی اثر انگیز فقرہ لکھا ہے

اس کی آنکھیں خشک لیکن چہرہ اشکبار تھا

لیکن اس کتاب میں ایک قباحت یہ ہے کہ جابجا فارسی و عربی اشعار کا بےدریغ استعمال کیا گیا ہے۔ اگر کوئی ایسا ایڈیشن مل جائے جس میں ہر فارسی و عربی شعر کا ترجمہ بھی ساتھ میں ہو تو اس سے قاری کو آسانی رہے گی، ورنہ میری طرح یہ سوچ کر بھی کام چلایا جا سکتا ہے کہ عربی / فارسی میں لکھا ہے تو ٹھیک ہی لکھا ہو ۔

Click here to read more book reviews

Click here to WATCH book reviews

Follow us on Facebook

Related Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *