ایبٹ آباد کے چنار روڈ کا نوحہ

کل سے عجیب سی ایک بےچینی ہے، سمجھ میں نہیں آ رہا کہ ایبٹ آباد کے چنار روڈ کے چناروں کو تسلی کون دے گا؟

بات کم و بیش چار سال پہلے کی ہے، میں نے اپنی زندگی کا ایک بہت بڑا فیصلہ کیا تھا۔ پبلک سروس کمیشن کے امتحان کی تیاری کےلیے ایک ملٹی نیشنل کمپنی سے استعفیٰ دے کر ایبٹ آباد سے جلالپور واپس جانے کی تیاری تھی۔ اس حسین شہر میں، جہاں بلاشبہ میری زندگی کے سب سے یادگار سال گزرے تھے، میرے دن بس اتنے باقی رہ چکے تھے کہ انہیں ایک ہی انگلی کی پوروں پہ گِنا جا سکتا تھا۔ عجیب سی بےکلی اور بےیقینی کی سی کیفیت تھی۔ فیصلہ ٹھیک تھا یا نہیں، اب واپس نہیں لیا جا سکتا تھا۔ ایک نامعلوم مستقبل کا خوف اور ماہانہ آمدن ختم ہو جانے کا احساس تو تباہ کن تھا ہی، یہ خیال بھی کھائے جا رہا تھا کہ اب میں چناروں کے اس شہر میں شاید دوبارہ نہ آ پاؤں اور ان پہاڑوں کو دوبارہ نہ روند سکوں جو ہر ہفتے مہینے مجھے خوش آمدید کہتے تھے۔ گھٹن اتنی بڑھ گئی کہ میں نے سوچا کمرے سےنکل کر ایبٹ آباد کی ہوا آخری مرتبہ اپنے پھیپھڑوں میں بھر لوں۔

باہر ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی۔ اسی بارش میں بھیگتا، اردگرد کے مناظر کو اپنی آنکھ کے کیمرے میں محفوظ کرتا، ٹھنڈی، خوشگوار اور خوشبودار ہوا کو جذب کرتا میں چنار روڈ جا پہنچا۔ شہر کے بیچوں بیچ یہ ایک ایسی خوبصورت پٹی ہے کہ اسلام آباد جیسے خوبصورت اور باقاعدہ منصوبہ بندی سے تعمیر کیے گئے شہر کی کوئی سڑک بھی ایبٹ آباد کے اس چنار روڈ کے ہم پلہ نظر نہیں آتی۔ سڑک کے دونوں طرف بہت طویل قامت چنار کے درخت ہیں جو کم و بیش ڈیڑھ سو سال پرانے ہیں۔ یہ درخت ڈیڑھ سو سال سے اس روڈ پر سردی گرمی میں چھتری لیے کھڑے ہیں اور موسم کی ہر سختی سے گھبرائے راہگیروں کو اپنے دامانِ تحفظ میں پناہ دینے کو ہر وقت تیار کھڑے رہتے ہیں۔ میں چنار روڈ کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک، ہلکی پھلکی بارش میں بھیگتا رہا اور یہاں گزرے اپنے تین سالوں کی یادیں دوہراتا رہا۔ مجھے اس وقت ایسا محسوس ہوا تھا کہ جیسے چنار کے درختوں نے مجھے اپنے حصار میں لے لیا ہو اور میرے تمام تفکرات کو باہر ہی کہیں روک دیا ہو۔ اس وقت میرے پاس صرف خوبصورت یادیں تھیں، صرف یادگار لمحات تھے، پہاڑوں کی ان چوٹیوں کے قصے تھے جنہیں میں نے بارہا سَر کیا تھا۔ جب میری ٹانگیں شل ہونے لگیں تو میں واپس کو مڑا، مگر اب میرے کندھوں پہ کوئی بوجھ نہیں تھا، میری تمام پریشانیوں کو چنار روڈ کے درختوں نے اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔

ملتان کے بعد ایبٹ آباد میرے لیے ہمیشہ دوسرا گھر ہی رہے گا اور چنار روڈ میرے لیے ایبٹ آباد کی آخری یاد ہے۔ کل ایک پوسٹ میری نظر سے گزری جس میں ایبٹ آباد کے لوگ احتجاج کر رہے تھے اور ساتھ میں کچھ تصاویر بھی تھیں جن میں چنار روڈ کے کچھ درخت کٹے نظر آ رہے تھے۔

ہفتہ ایک پہلے ملتان بہاولپور روڈ پر شاید سڑک کی توسیع یا کسی اور مقصد کےلیے کیکر کے کافی درخت کٹے نظر آئے تو بس افسوس ہوا لیکن چنار روڈ کے کٹے درخت دیکھ کر مجھے ایسا لگا جیسے کسی نے میری خوبصورت یادوں پر آرا چلایا ہو۔ کارِ سرکار میں بسا اوقات جذبات نہیں بےحسی سے کام لیا جاتا ہے۔مجھے نہیں معلوم کہ متعلقہ افسران نے کیا کیلکولیشن کرنے کے بعد ان تاریخی درختوں کو کاٹنے کے احکامات جاری کیے، مجھے تو بس یہ دکھ کھائے جا رہا ہے کہ جب چنار کے درختوں پر آرا چلایا جا رہا تھا تو ان درختوں کو تسلی دینے والا ادھر کوئی تھا کہ نہیں۔

Related Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *