بہاؤ از مستنصر حسین تارڑ

بہاؤ – مستنصر حسین تارڑ کا ایک حیران کن ناول

مجھے اعتراف ہے کہ مستنصر حسین تارڑ کا ناول بہاؤ پڑھنے سے پہلے میں تارڑ کو ایک شاندار سفرنامہ نگار کے طور پر ہی جانتا تھا۔ سنی سنائی خبریں تو تھیں کہ بابا جی ناول بھی بہت شاندار لکھتے ہیں مگر یہ نہیں جانتا تھا کہ مستنصر حسین تارڑ ایک عظیم ناول نگار ہے جس کے نقوش اردو اردب پر تو ہیں ہی، بہاؤ جیسا ناول لکھ کر تارڑ نے عالمی ادب کو بھی ایک گراں قدر تحفہ دیا ہے۔

بہاؤ مستنصر حسین تارڑ

بہاؤ کی کہانی

تارڑ نے خود ہی شاید کہیں کہا ہے کہ انہوں نے کسی جگہ ایک ایسے دریا کے بارے سنا جو اب صفحہِ ہستی سے مٹ چکا ہے۔ یہیں سے اس ناول کا خیال بابا جی کے ذہن میں آیا۔ سو، کہانی ہزاروں سال قبل ایک ایسی بستی کی ہے جو ایک قدیم دریا گھاگرا کے کنارے بستی ہے۔ اس بستی سے کافی پرے موہنجو اور ہری یوپیا (ہڑپہ) جیسی متمدن آبادیاں بھی ہیں مگر یہ بستی ابھی تک ہزاروں سال پرانے ریت رواج پر ہی چل رہی ہے۔ یہاں کے باسی تو کہیں نہیں جاتے مگر بستی کے پاس سے گزرتے قافلوں(تپڑ واسی) سے باقی ماندہ دنیا کی ٹوٹی پھوٹی خبریں انہیں ملتی رہتی ہیں۔

گھاگرا کے بہاؤ کے ساتھ ہی بستی کا نظام چلتا ہے، کنووں میں پانی کا آنا ہو، کھیتوں میں کاشت ہو، جنگل اور ڈوبو مٹی (دلدل) کی سب ضروریات اسی دریا گھاگرا کے بہاؤ کے گرد ہی گھومتی ہیں۔ ہزاروں سال سے یہ دریا یونہی بہے چلا آ رہا ہے۔ مگر آہستہ آہستہ بستی کی زندگی کے محور گھاگرا دریا کا بہاؤ کم ہوتا جاتا ہے اور بالآخر دریا بالکل خشک ہو جاتا ہے۔ بستی کے سبھی باسی دریا کنارے بڑۓ پانیوں کے انتظار میں سوکھتے رہتے ہیں مگر بڑے پانی نہیں آتے۔ مستنصر حسین تارڑ کا یہ ناول گھاگرا دریا کے اسی بہاؤ کی شدت اور پھر خشک سالی پر منتج ہوتا ہے۔

بہاؤ میں مستنصر حسین تارڑ کی کردار نگاری

بھئی ماننا پڑے گا کہ تارڑ صاحب نے ایک ایک کردار کو بہت محنت سے گوندھا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ناول کی مرکزی کردار پاروشنی نامی ایک دور اندیش عورت ہے۔ پاروشنی جو سالوں سے ورچن کے انتظار میں سوکھتی ہے۔ وہی پاروشنی جس کے انتظار میں سمرو سوکھتا ہے اور مہریں بناتا رہتا ہے۔

ورچن اسی بستی کا مکین ہے مگر عادات تپڑ واسیوں سے ملتی ہیں، اکثر نئی بستیوں کے سفر میں رہتا ہے۔

پکلی جس کا آوا ہے اور جس آوے میں وہ برتن بناتی رہتی ہے اور ان مٹی کے برتنوں پر پھول بوٹے الیکتی رہتی ہے۔

گھاگری جس کے بارے مشہور ہے کہ وہ بھوکڑ (شاید چیل) کا شکار کرنے کو نکلتی ہے تو شکار کر کے ہی آتی ہے مگر ایک دن بھوکڑ نے اسے ایسی نظروں سے دیکھا کہ گھاگری پھر کبھی بھوکڑ کا شکار نہیں کر سکی۔

ڈورگا جو موہنجو میں اینٹوں کے کسی بٹھے پر اینٹیں بناتے بناتے کبا ہو جاتا ہے اور اسی جھکی کمر کے ساتھ ورچن کے پیچھے پیچھے موہنجو سے گھاگرا کنارے اس بستی میں پہنچ جاتا ہے۔

مامن ماسا اور چیوا دو ایسے کردار ہیں جو درویش ٹائپ ہیں۔ مامن ماسا تو شروع سے رکھوں(جنگل) میں رہتا ہے، بعد میں چیوا بھی اس سے جا ملتا ہے۔

دھروا جس کا کام مقدس بیلوں کے چارے وغیرہ کا بندوبست کرنا ہے۔

بہاؤ اور ہزاروں سال قبل کی تہذیب

مجھے یہ کہنے میں کسی طور جھجک نہیں کہ مستنصر حسین تارڑ نے اپنے ناول بہاؤ میں ناممکن کو ممکن کر دکھایا ہے۔ ہزاروں سال قبل کی تہذیب کو انہی الفاظ اور اسی ماحول میں بیان کرنا اور وہ بھی ایسے جیسے تارڑ کو اس زمانے کا لکھا کوئی مخطوطہ ملا ہو جسے بابا جی نے چھاپ دیا ہو (ظاہر ہے ایسا نہیں ہوا، لیکن ناول پڑھتے وقت انسان حیرت زدہ ضرور رہ جاتا ہے کہ اسے لکھنے کےلیے، ہزاروں سال قبل کی تہذیب سمجھنے اور اس تہذیب کو بیان کرنے کےلیے تارڑ کو کتنی محنت کرنی پڑی ہو گی)۔

بہاؤ میں مدرسری معاشرے کا عکس ہمارے سامنے آتا ہے جس میں عورت ایک سے زیادہ مردوں کے ساتھ اپنی مرضی سے تعلق قائم رکھ سکتی ہے۔ عورت کا کردار مرد پر حاوی ہے اور مرد اس تہذیب میں ایک معاون اداکار کے طور پر نظر آتا ہے۔

یہ مستنصر حسین تارڑ کا کمال ہے کہ ڈورگا جیسے کردار کو تخلیق کر کے بتایا ہے کہ کیسے اس کے آباؤ اجداد ہزاروں سال قبل کسی اینٹیں بنانے والے مالک کے کہنے میں آ کر اپنی زمینیں چھوڑ کر بھٹہ میں اینٹیں بنانے کے کام پر لگ جاتے ہیں اور ہزاروں سال تک پھر اس بھٹے سے باہر نہیں نکل سکتے۔ بنیادی طور پر یہ ایک استحصالی نظام کی طرف اشارہ ہے جو اس وقت بھی کسی نہ کسی طور رائج تھا۔

موہنجو میں ورچن اور وہاں کے ایک باشندے سے اس کی بحث کے ذریعے ہمیں مہاجر اور مقامی کے نظریات کا تصادم نظر آتا ہے۔ یہ بحث آج بھی شاید کہیں نہ کہیں ریلیونٹ ہے۔

گھاگرا کنارے بسنے والوں کی زندگیوں کا محور اور دار و مدار ہی کیونکہ پانی ہے تو یہی پانی ان کا خدا ہے۔ جب پانی نہیں آتا تو توہم پرستی وجود میں آتی ہے، شاید اس طرح ہمیں اکثر مذاہب کی ابتداء کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ خوف کے عالم میں خود وجود میں لائے جاتے ہیں۔

مستنصر حسین تارڑ کا ایک اور کمال بہاؤ میں قدیم زبان کا استعمال ہے۔ ہمیں نہیں معلوم ہزاروں سال قبل کون سی زبان بولی جاتی ہو گی مگر تارڑ نے بہاؤ میں ایسی زبان استعمال کی ہے جو اردو ہونے کے باوجود قدیم لگتی ہے اور پورا ایک منظرنامہ ہمارے سامنے آ جاتا ہے کہ قدیم تہذیب کے لوگ کیسے رہتے تھے اور کیا باتیں کرتے تھے۔ یوں لگتا ہے کہ شاید یہ ناول اسی وقت میں کہیں لکھا گیا تھا اور ہم اسی عہد میں بیٹھے اسے پڑھ رہے ہیں۔

بہرحال، یہ تو تھا مستنصر حسین تارڑ کے ناول بہاؤ کا ایک تجزیہ۔ مزید تبصروں اور تجزیوں کےلیے آپ ہماری ویب سائٹ کتاب زندگی اور فیس بک پیج کا چکر لگاتے رہا کریں۔

Related Posts

5 thoughts on “بہاؤ – مستنصر حسین تارڑ کا ایک حیران کن ناول

  1. جناب ہم چاچا مستنصر حسین کے بھی فین ہیں۔ اور یقیننا آپ کے تبصرہ نے اس بات پہ سند لگا دی یے کہ آپ اردو ادب کے ایک ایسے تارے ہیں جو اپنی تاب دکھانے کے لئے حکم خدا کے منتظر ہیں۔ یقینا ناول پڑھنا اور اس کے سبھی کرداروں کو یاد رکھتے اور تبصرے میں اس انداز سے ہمیں جکڑ لیتے ہیں کہ ہمیں کتاب پڑھنے کا ذوق دوبالا ہو جاتا یے۔ اللہ کریم اپنی حبیب کے طفیل آپ کے اس سفر کو قبول کرے اور مستقبل قریب میں آپ کی کئی ایک جاندار اور شاندار کتب تصنیف کرنے کو موقع دے جنہیں پڑھ کر ہم سر دھنتے رہیں۔ جزاک اللہ خیرا کثیرا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *