خارجہ پالیسی

کیا مذہب کی بنیاد پر خارجہ پالیسی بنائی جا ساکتی ہے؟

خارجہ پالیسی ایک بہت ایک اور متنوع موضوع ہے، اسے محض ایک پہلو سے نہیں دیکھنا چاہیے!

علامہ اقبال نے سوال کیا کہ سیدوں، مرزاؤں، افغانیوں اور اس طرح کی دوسری بیشمار شناختوں میں بٹی ہوئی قومیتیں کیا مسلمانیت کی ایک چھتری تلے سما سکتی ہیں ؟ اگر اسی سوال کو میں عالمی سیاست کے پس منظر میں پوچھوں کہ عربی، افغانی، یورپی اور ایشیائی جغرافیوں میں محدود اور اپنے اپنے علاقائی مسائل سے دوچار مسلمان ریاستیں کیا صرف مذہب کی بنیاد پر اپنی خارجہ پالیسی مرتب کر سکتی ہیں؟ اچھا اس سوال کاسکوپ محدود کرتے ہوئے اگر پوچھا جائے کہ کیا پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی محض مذہب کی بنیاد پر مرتب کرنی چاہیے تو اس کا کیا جواب ہوگا؟ کیوں نہ ایک نظر تاریخی حقائق اور عالمی سیاست پر ڈالی جائے؟
پہلی جنگ عظیم میں ترکی کی مسلمان خلافت عثمانیہ اتحادی فوجوں کے خلاف جرمنی کے شانہ بشانہ جنگ لڑ رہی تھی۔ جب کہ نجد کے مسلمان جرمنی کے خلاف اتحادی کیمپ کا حصہ تھے۔ اسی جنگ میں خلافت عثمانیہ کے خلاف مسلمان شریف مکہ حسین بن علی نے انگریزوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لیا اور عین دوران جنگ، ترکی کے خلاف بغاوت کھڑی کر دی۔ یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں کہ پہلی اور دوسری دونوں عظیم جنگوں میں متحارب عیسائی ملکوں نے اپنے ہی ہم مذہب بھائیوں کو کروڑوں کی تعداد میں قتل کیا۔
1947 میں جب اسلام کے نام پر ایک ملک پاکستان وجود میں آیا تو اسے اسی کے ایک برادر اسلامی ملک افغانستان نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ افغانستان نے آج تک پاکستان کے ساتھ اپنے بارڈر کو سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا۔ کمبخت یہ بھی نہیں سوچتا کہ تھوڑا بہت رقبہ چلا بھی گیا تو اسلامی بھائی کو ہی جائے گا ناں؟
ہمارے بھائی عراق اور ایران آپس میں کتنا عرصہ لڑتے رہے؟ کچھ دن، مہینے، سال یا دو سال؟ جی نہیں، ہمارے یہ ہونہار سپوت پورے آٹھ سال تک ایک دوسرے سے جنگ کرتے رہے، یہ بھی نہ سوچا کہ ایک ہی مذہب کے پیروکار ہیں۔ عراقی بھائی 1988 میں ایران جنگ سے فارغ ہوئے تو دو سال بعد کویت پر ہلہ بول دیا۔ امریکیوں کو مجبوراً مداخلت کر کے کویت کو ان کے مسلمان عراقی بھائیوں سے نجات دلانی پڑی۔
ارے 1990 تک پہنچ گئے اور 1970 کا ذکر ہی نہیں کیا؟ مذہب کے نام پر قائم ہونے والے ملک کے ایک حصے نے صرف مذہب کے نام پر قائم رہنے سے انکار کرتے ہوئے روٹی کپڑے اور مکان سے اپنا حصہ مانگنا شروع کر دیا۔ بلکہ ازلی دشمن کی مدد سے لڑ بھڑ کر اپنا ملک ہی علیحدہ بنا لیا۔
ایران سے ہمارے تعلقات بس رسمی ہی کیوں ہیں؟ مصر اور اسرائیل کا آپس میں یارانہ کیوں ہے؟ سعودیہ کی یمن سے لڑائی کی وجہ تسمیہ؟ شام میں کیا دو مختلف مذاہب کے لوگ آپس میں قتل و غارت گری کر رہے ہیں؟ افغانستان کے ہمارے بجائے بھارت سے دوستانہ تعلقات کیوں ہیں؟ عرب ریاستوں میں مسلمان بھائیوں کو شہریت کیوں نہیں دی جاتی؟ مرگ بر امریکہ کا نعرہ لگانے والوں نے امریکہ سے صلح کیوں کر لی ہے؟ اور ہاں، دورِ حاضر کے سلطان، جناب رجب طیب اردگان نے گجرات کے قصائی نریندرمودی کی تصویر والا یادگاری ٹکٹ کیوں جاری کروایا؟
دنیا بھر میں خارجہ پالیسی اپنے اپنے علاقائی مفادات کو پیشِ نظر رکھ کر بنائی جاتی ہے۔ برطانیہ کا اپنی ہم مذہب یورپی یونین سے نکلنا، کینیڈا کا اپنے ہم مذہب امریکہ پر معاشی انحصار کم سے کم کرنے کی کوششیں، سرمایہ دارانہ معیشت امریکہ کے کمیونسٹ چین کے ساتھ معاشی تعلقات اور دوسرے کمیونسٹ ملک روس کے ساتھ ناخوشگوار تعلقات کیا مذہب کی بنیاد پر ہیں؟ ذاتی طور پر میں شاید یہ چاہوں کہ تمام مسلم ممالک یک جان پچاس قالب ہوں، ایک ہی ہماری معیشت ہو، ایک ہی ہماری فوج ہو۔ لیکن کیا موجودہ حالات میں، جب سب ممالک صرف اپنے مفادات کا سوچ رہے ہیں، ایسا ممکن ہے؟ جواب آپ دے دیجیے!

Read this blog at Hum Sub

Click here to WATCH book reviews

Click here to read more blogs

Follow us on Facebook

Related Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *