خفیف مخفی کی خواب بیتی

خفیف مخفی کی خواب بیتی، مرزا اطہر بیگ کا ایک خواب آور ناول

مرزا اطہر بیگ کا نیا ناول خفیف مخفی کی خواب بیتی مارکیٹ میں آیا تو ہر طرف ایک شور سا مچ گیا کہ جدید اردو ادب کے سب سے بڑۓ ناول نگار کا نیا شاہکار شائع ہو چکا ہے۔ اس وقت تک کیونکہ میں مرزا اطہر بیگ کا ناول صفر سے ایک تک نہ صرف پڑھ چکا تھا بلکہ مرزا صاحب کے قلم کا اچھا بھلا قائل بھی ہو چکا تھا اس لیے فوراََ یہ ناول بھی منگوا لیا۔ اور قسم بخدا، ایسا واہیات ناول میں نے آج تک نہیں پڑھا۔ پڑھنے کے بعد میں اب کچھ کچھ علی اکبر ناطق کی مرزا صاحب کے بارے قائم کردہ رائے سے متفق ہوتا جا رہا ہوں۔ ابھی حسن کی صورتحال اور غلام باغ پڑھنا ہے ، لیکن فی الحال اس ناول پر میری رائے پیشِ خدمت ہے۔

خفیف مخفی کی خواب بیتی: کرداروں کا تعارف

ناول کا مرکزی کردار جو مونگ پھلی کے کاروبار سے وابستہ ہے مگر ماورائے حقیقی واقعات کا خود ساختہ محقق ہےخفیف مخفی
ماورائے حقیقی واقعات کا فرانسیسی محقق جس سے ناول کا مرکزی کردار راہنمائی لیتا ہےموسیو لافاں
ماورائے حقیقی واقعات کی تحقیق میں خفیف مخفی کا اسسٹنٹ جو اسسٹنٹ کم بےتکف دوست زیادہ لگتا ہےمحکم
ایک خوبصورت دوشیزہ جو ماورائے حقیقی واقعات کی تحقیق میں دلچسپی رکھتی ہے اور مرکزی کردار سے متاثر ہےگلوریا گلزار
ایڈیٹر اسرار جس میں ناول کا مرکزی کردار ماورائے حقیقی واقعات پر اپنی تحقیق شائع کرواتا ہےنجف جبلی
ناول کے مرکزی کردار

یہ تو وہ کردار ہیں جن کا ناول میں ایک اہم کردار رہا ہے لیکن ان میں سے ایک بھی کردار ایسا نہیں جس کے بارے میں کہوں کہ یہ بہت دلچسپ کردار تھا۔ سبھی کردار بے انتہا اکتا دینے والے، غیر دلچسپ اور غیر حقیقی ہیں۔ لیکن ان کی اکتاہٹ، غیر دلچسپ ہونے میں کرداروں کا قصور کم اور مصنف کا قصور زیادہ ہے۔ جس کی وجہ آگے بتاؤں گا۔ ان کرداروں کے علاوہ بھی کچھ کردار ہیں مثلاََ محکم کا بھائی حاکم، مرکزی کردار کا ہم جنس پرست ڈرائیور اکرم وغیرہ۔

خفیف مخفی کی خواب بیتی: کہانی کیا ہے؟

ناول کا اصل مسئلہ کہانی نہیں ہے بلکہ ایک غیر ضروری طوالت ہے جو ایک دلچسپ کہانی کو بورنگ بنا دیتی ہے۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ خفیف مخفی کے قلمی نام سے مقامی رسائل میں ماورائے حقیقی واقعات پر گنجلک مضامین لکھنے والے ایک صاحب کو لگتا ہے کہ ماورائے حقیقی واقعات کی کھوج میں گزری ان کی زندگی میں بہت کچھ ایسا ہے جو کہ ان کی خودنوشت کی صورت میں شائع ہونا چاہیے چنانچہ وہ ایک دن اپنے اسسٹنٹ کم دوست محکم کے ساتھ بیٹھے ان واقعات کو یاد کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

مرزا اطہر بیگ ناول کے مرکزی کردادر کے توسط سے ایک ایسے انسان کی نفسیاتی کجی کا مشاہدہ کرتے ہیں جو بزعم خود ماورائے حقیقی واقعات کا ماہر ہے۔ اس کے گرد رہنے والے کچھ لوگ اس سے جینوین متاثر ہوتے ہیں، کچھ اس کی نفسیاتی کجی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمیں نظر آتے ہیں۔

سچی پوچھیں تو بس یہی کہانی مجھے سمجھ آئی ہے۔ میں چاہے جتنا مرضی دودھ میں مدھانی ماروں، نتیجہ لسی کے علاوہ کچھ نہیں نکلے گا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ مرزا اطہر بیگ نے اس ناول کے ذریعے ہمارے معاشرے میں پھیلے اعتقادات اور اوہام پرستی کا تیاپانچہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے تعلیمی اداروں کی اندرونی سیاست، ہمارے معاشرے کی سماجی تنزلی اور محقیقین کے جھوٹے احساسِ برتری کو بےنقاب کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔ یہ سب تو ٹھیک ہے، مگر کہانی؟ یار سچی بات ہے مزہ نہیں آیا۔

خفیف مخفی کی خواب بیتی از مرزا اطہر بیگ
خفیف مخفی کی خواب بیتی، ایک خواب آور ناول

غیر ضروری تفصیلات، مزاح کے نام پر پھکڑ پن اور ایک غیر واضح کہانی نے خفیف مخفی کی خواب بیتی کو درحقیقت ایک خواب آور ناول بنا دیا ہے۔ ٹھیک ہے کہ مرزا اطہر بیگ نے اردو ناول نگاری کے فن میں بہت سے تجربات کیے ہیں اور ان کے کچھ ناول بہت ہی زیادہ مقبول بھی ہوئے، مگر وہ جتنی جلدی اس ناول سے برات کا اعلان کریں، ان کے حق میں یہی بہتر ہے۔

خفیف مخفی کی خواب بیتی: ایک مجموعی تاثر

ناول میں نئے تجربات ہونے چاہیی، لیکن تجربات کا یہ ہے کہ بسا اوقات ایک شاندار چیز سامنے آ جاتی ہے اور بعض اوقات تجریدی آرٹ کے مانند ایک ایسی چیز سامنے آتی ہے جس سے ہر کوئی لطف اندوز نہیں ہو سکتا۔ میں نے تو یہ ناول تقریباََ چالیس فیصد پڑھنے کے بعد بند کر کے رکھ دیا ہے، اگر آپ تجربہ کرنا چاہتے ہیں تو بسم اللہ۔

Related Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *