سرخاب از عرفان جاوید

سرخاب از عرفان جاوید

سرخاب عرفان جاوید کی خاکوں کی ایک کتاب ہے جس میں ادیبوں، شاعروں کے قصے ہیں اور مختلف واقعات سے ان نامور لوگوں کی ذات کے مختلف پہلوؤں کو بیان کیا گیا ہے، لیکن اس میں اور دوسرے خاکوں میں فرق یہ ہے کہ عرفان جاوید نے سرخاب میں ان نامور ادیبوں کی ذات کے مثبت پہلوؤں کو ہی بیان کیا ہے۔ آسمانِ ادب کے ستارے بھی باقی انسانوں کی طرح خطا کے پتلے ہوتے ہیں مگر بسا اوقات اپنے پسندیدہ ادیب کے بارے کوئی کڑوا سچ پڑھنا طبیعت پر گراں بھی گزرتا ہے۔ منیر نیازی نے کہا بھی تو ہے ناں کہ کچھ باتیں ان کہی رہنے دو، کچھ باتیں ان سنی رہنے دو۔ اس لحاظ سے عرفان جاوید داد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے ممدوحین کی زندگیوں کے وہ واقعات ان کہے اور ان سنے رہنے دیے جو شاید ان کے مداحین کا دل دکھاتے۔ سرخاب پڑھ کر آپ اپنے محبوب فنکاروں سے مزید محبت کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

خالد حسن

پہلا خاکہ خالد حسن کا ہے جو بھٹو کے شیدا ہیں، قرۃ العین حیدر اور نور جہاں سے قریبی تعلقات ہیں اور بقول عرفان جاوید، ان چند لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے ملتان میں ایک شامیانے کے نیچے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کا عزم کیا تھا۔ (ویسے ایک ملتانی ہونے کے ناطے مجھے اس بات پر حیرت اور مسرت ہوئی کہ یہ فیصلے مدینۃ الاولیاء میں ہوا)۔ خاکے کا اختتام عرفان جاوید نے خالد حسن کی زندگی کے آخری دنوں پر کیا اور جس انداز میں کیا وہ واقعی افسردہ کر دینے والا تھا۔

پروین شاکر پارو
پارو، پروین شاکر

سرخاب کا دوسرا پَر، یعنی دوسرا خاکہ پروین شاکر پر ہے جسے عرفان جاوید نے پارو کا نام دیا ہے۔ اگر مجھ سے پوچھا جائے تو یہ خاکہ اس کتاب سے میرے پسندیدہ خاکوں میں شمار ہوگا اور پڑھتے وقت میرا دل بھی کر رہا تھا کہ میں اس خاکے کو ریکارڈ کر کے اپ لوڈ کروں، کیونکہ پروین شاکر کو ہم ایک شاعرہ کے طور پر تو جانتے ہیں مگر پارو کی نجی زندگی کے مسائل کو جس انداز میں عرفان جاوید نے بیان کیا ہے، اس سے ان حالات اور مشکلات کا صحیح معنوں میں اندازہ ہوتا ہے جن کا ایک بظاہر کامیاب بیروکریٹ اور معروف و مقبول شاعرہ پروین شاکر کو سامنا تھا۔ پروین شاکر اور ان کے شوہر کے درمیان مسائل، جو کچھ ان کے بالکل مختلف مزاج کی وجہ سے اور کچھ ان کے سماجی مقام کے مختلف ہونے کی وجہ سے پیدا ہوئے، پڑھنا اس لیے بھی ضروری ہیں کہ پڑھنے والے کو اندازہ ہو کہ میاں بیوی کے مزاج، عزائم اور مستقبل کے بارے خوابوں کا مشترکہ ہونا کتنا اہم ہے۔ پروین شاکر کے بارے ایک اور دلچسپ بات یہ پتہ چلی کہ وہ جب سی ایس ایس کا امتحان دینے لگیں تو ان کی عمر مقررہ حد سے زیادہ ہو چکی تھی۔ پھر بریگیڈیر صدیق سالک کی سفارش پر صدر پاکستان جنرل ضیاءالحق نے ان کےلیے عمر کی حد میں خصوصی نرمی کی۔ ویسے، کیا اسے صرف ایک حسین اتفاق کہنا چاہیے کہ پروین شاکر کو سی ایس ایس کے امتحان میں اپنی ہی شاعری پر تنقیدی تجزیہ کرنے کا کہا گیا تھا؟ سرخاب میں درج یہ خاکہ ایک اداس سا تاثر لیے ہوئے تھا، پروین شاکر کا اتنی مقبول ہونے کے باوجود تنہا رہنا، یہ تنہائی کی کیفیت اور ازدواجی زندگی کی مشکلات پر وہ سوچتی ہو گی تو کیا سوچتی ہو گی؟ خاکے کا اختتام پروین شاکر کی المناک پر ہوتا ہے، اور حقیقتاََ اس خاکے کے بعد عرفان جاوید کو قلم توڑ دینا چاہیے تھا۔

دم دم دامن استاد دامن
دم دم دامن

سرخاب میں تیسرا خاکہ دم دم دامن کے نام سے استاد دامن کا ہے جو پنجابی کے ایک عہد ساز شاعر گزرے ہیں۔ استاد دامن کے بارے سب سے پہلے میں نے معروف صحافی نصرت جاوید کے کالمز میں پڑھا اور اس وقت سے ہی استاد دامن کا ایک درویش منش اور عوامی نبض پر ہاتھ رکھنے والے شاعر کا تاثر میرے ذہن میں تھا جو عرفان جاوید کی کتاب میں ان کا خاکہ پڑھ کر اور مستحکم ہوا۔ استاد دامن کے خاکے میں سب سے اہم قصہ جس نے ان کی بعد کی زندگی پر بھی اثرات مرتب کیے وہ ان کی زوجہ کے اغوا کا ہے۔ استاد دامن کی زوجہ کو تقسیم کے فسادات میں اغوا کر لیا گیا تھا اور بعد میں جب وہ انہیں واپس ملیں تو اپنے ہواس کھو بیٹھی تھیں، اور کینسر کی وجہ سے فوت بھی ہو گئیں۔ آپ اندازہ کریں کہ یہ اس آدمی کی بیوی ہے جو کانگریس کے جلسوں میں نظمیں پڑھتا تھا اور جسے ہندوستان میں روکنے کےلیے پنڈت جواہر لعل نہرو نے منت کی تھی مگر استاد دامن نے پاکستان میں رہنا منظور کیا۔ اتنے نامی گرامی بندے کی بیوی اغوا ہو اور کئی سال بعد واپس ملے تو اس پر کیا گزرتی ہو گی۔

استاد دامن اپنی انقلابی و سیاسی شاعری کی وجہ سے تمام حکمرانوں کے عتاب کا شکار رہے۔ ایوب کے دور میں ان کی نظم کا یہ ٹکڑا زبان زد عام ہوا کہ اتوں رولا پائی جاؤ وچوں وچوں کھائی جاؤ، بھٹو کے زمانے میں انہوں نے کہا کدی شملے جانا ایں، کدی مری جانا ایں، کی کری جانا ایں، کی کری جانا ایں۔ بھٹو صاحب نے استاد دامن کے حجرے سے بم برآمدگی کا جھوٹا مقدمہ بھی بنوایا۔ ضیاءالحق کے خلاف بھی استاد دامن نے اپنی باغیانہ شاعری کی روش برقرار رکھی۔ ایک موقعہ پر جنرل ضیاءالحق اور استاد دامن ایک محفل میں اکٹھے ہوئے تو جنرل ضیاءالحق نے استاد سے فرمائش کی کہ اپنا کچھ کلام سنائیں، استاد دامن نے حاضر جوابی سے جواب دیا کہ یہ موقع محل نہیں، کسی جلسے میں سنا دوں گا۔

استاد دامن کا خاکہ پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک کثیرالمطالعہ شخص اور قدیم ادیبوں اور تاریخی واقعات سے سبق آموز نتائج اخذ کرنے والے انسان تھے۔ دیکھیے، جو شخص اپنے حجرے میں چوہوں کو اس لیے کھانا کھلائے کہ مبادا وہ اس کی کتابیں نہ کھا جائیں، اس کا علم سے محبت کرنے کا عالم کیا ہو گا۔ سماج کے ہر طبقے کےلیے استاد دامن کے دل میں بہت جگہ تھی۔ ایک خاتون ہیرا منڈی کی طوائفوں پر کوئی تحقیق کر رہی تھیں تو ان کے سوالات کے جواب میں ایک طوائف کا یہ کہنا کہ بی بی ہم سے کیا پوچھتی ہو، وہ ادھر حجرے میں ہمارا بابا دامن بیٹھا ہے، اس سے جا کر پوچھ لو، یہی جواب بتاتا ہے کہ استاد دامن کو کیسی ہمہ گیر مقبولیت حاصل تھی۔

اس کتاب کے بقیہ خاکوں پر اگلی قسط میں بات ہو گی، انشاءاللہ

ہمارے فیس بک پیج پر مختلف کتب سے اقتباسات اور تبصرے باقاعدگی سے شیئر ہوتے رہتے ہیں۔ اس لنک پر کلک کر کے ہمارا پیج فالو کریں۔ یا ہمارا یوٹیوب چینل سبسکرائب کریں جہاں آپ کو کتب پر ویڈیو کی صورت میں تبصرے سننے کو ملیں گے

Related Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *