شاہراہِ شوق از عاصم بخشی | تبصرہ و منتخب کلام

اگر آپ نے تین آٹھ اچھی کتابیں شعر و شاعری کی پڑھ لی ہوں، کلاسیکی و غیر کلاسیکی شعراء کے دیوان سے خوشہ چینی کر چکے ہوں تو عموماً ہوتا یہی ہےکہ پھر نیا شعر آپ کو کم ہی پسند آتا ہے، کیونکہ وہ ایک شعر کا مفہوم بھی تو ہے ناں کہ بات تو اندازِ بیاں کی ہے، ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں ہے۔ اب اسی اندازِ بیاں کو مختلف بنا دینے کےلیے بہت سے تجربے بھی کیے گئے مگر کم ہی کسی کی دال گَلی۔ ایسے میں اگرکوئی شعر آپ کو چونکا دے، تو اس کا مطلب ہے کہ شاعری میں دم تو ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اس کا بہت سا کریڈٹ ذہنی کیفیت کو بھی جاتا ہے۔ میں ایک نقاد تو ہوں نہیں کہ استعارات، اوزان، تلازموں اور بحور کو مدنظر رکھ کر شاعری کا تجزیہ کروں، سو بس یہ ہےکہ جس شعر کے تار ذہنی کیفیت کو compliment کریں، تو میں سمجھتا ہوں کہ ہاں بات بن گئی۔

عاصم بخشی کا کمال یہ ہے کہ اپنی تمام تر علمیت، مطالعہ اور فہم کو پیچیدہ زبان و بیان میں ڈھالنے کے بجائے سادہ تراکیب استعمال کی ہیں اور وہ بات کی ہے جو آج کے قاری کو اپنے سےمتعلقہ لگتی ہے۔ بخشی صاحب لکیر پہ لکیر مارنے کے قائل نہیں بلکہ انسانی تجسس و تحیر کو ہی علم اور عرفانِ ذات کا زینہ سمجھتے ہیں۔ مجھے تو لگتا ہے کہ ان کی شاعری / تجسس کا محور سچ کی تلاش ہے۔ کبھی وہ ‘منبعِ بحرِ معانی’ سے مراد ابھارنے کی بات کرتے ہیں، کبھی ‘حرف و معنی کی بندشوں’ اور ‘ناگ سیڑھیوں’ سے بچ بچا کر ‘خیال زمینوں’ کو ڈھونڈنے کی جستجو کرتے ہیں، اور کبھی زباں کے پھندوں سے بچ کر معانی کے سمندر تک رسائی کی خواہش کرتے ہیں۔ اہالیانِ تشکیک کی یہ بات اب مکھی مار ناصحوں کے تلوے جلاتی ہے تو جلاتی رہے۔ ابھی میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں تو سوچا کہ میں کون سا ایسا شارح ہوں کہ بخشی صاحب کے کلام پر بات کروں۔ کیوں ناں ان کی کتاب راہِ شوق سے کچھ تبرکات آپ کی خدمت میں پیش کر دوں، پھر آپ جانیں، آپ کا فہم جانے اور منبعِ بحرِ معانی جانے۔

زوال شام ہے، نوحہ یہی ہے
کہ اہل شوق کا کوفہ یہی ہے
اجل کب کا ہمیں لے جا چکی ہے
جو کچھ باقی بچا لاشہ یہی ہے
مجھے معلوم ہے تم تھک چکے ہو
مگر اب کیا کریں، رستہ یہی ہے
جو نوکِ تیغ قاتل کند ہو تو
مجھے مارے، مگر خدشہ یہی ہے
تحير علم ہے، اور علم حیرت
یہی عرفان ہے، زینہ یہی ہے
یہی شور وفغاں، کچھ خواب، آنسو
ہماری نسل کا قصہ یہی ہے
مجھے عاصم زباں بخشی گئی ہے
روایت میں مراحصہ یہی ہے
————
دست گردوں میں چمکتا سا وہ کچھ
کبھی خنجر، کبھی نشتر ہی تو تھا
——–
تلاش کر لو تم اپنے ورثے کے واسطے کچھ محافظوں کو
یہ یاد رکھنا اگر ہے خطرہ امانتوں کو، تو بس امیں سے
——
نکال لیتا میں چاہ یوسف سے بھاگنے کی سبیل کوئی
مگر مجھے کچھ اداس خوابوں سے عہد الفت نباہنا ہے
——
پس اس قبیلے کا یہ قرض مجھ پہ واجب ہے
کہ ایک فرد نے اس کے مرے خلا کو سیا
—–
یہ حرف ومعنی کی بندشیں بھی ہیں سانپ سیڑھی کے کھیل جیسی
کہ ناگ لفظوں سے بچ کے ہم نے ،خیال زمینوں کو ڈھونڈتا ہے
خرد مہم کے قلیل توشے پر اپنی منزل بہت کٹھن ہے
گمان خندق کو پار کرنا، یقین رستوں کو ڈھونڈنا ہے
—-
عجیب تھا یہ سانحہ، جہانِ دل دہل گیا
وہ شخص خود کو دیکھتے ہی دیکھتے نگل گیا
—–
یاد کے دشت سے لشکر کی صدا آتی ہے
فیلِ بدمست سر ِشام ہمیں روندتے ہیں
——
بقا کی جنگ میں خود سے، فلک سے، دنیا سے
میں لڑ رہا ہوں تمنا کی ڈھال تھامے ہوۓ
—–
‏صداے شورشِ محشر تو جب آئے سو آئے
ابھی تو نوحۂ جاں ہر فغاں سے ماورا ہے
میں تیری آنکھ میں سنگِ مسافت دیکھتا ہوں
تجھے کیسے کہوں منزل مکاں سے ماورا ہے
—–
‏مرا گمان ہے شاید یہ واقعہ ہو جائے
کہ شام مجھ میں ڈھلے اور سب فنا ہو جائے
ہو بات اس سے کچھ ایسے کہ وقت ساکت ہو
کلام اپنا تکلم سے ماورا ہو جائے
—-
‏دشتِ امکاں سے پرے، وقت کے در پر پہنچوں
ایک لمحے کو جکڑ لوں، اسے پل پل دیکھوں
نبض رک جائے؟ نہیں! یہ نہیں، لیکن اے کاش
حضرتِ دل میں کبھی میر سا دنگل دیکھوں
—–
‏چاکرِ اہلِ تماشا ہیں، یہ عادت ٹھہری
ہم خریدار کو خاکوں میں پھنسا لیتے ہیں
—–
‏صوت پیمائیِ لہجہ سے، گماں سے آگے
اک معانی کا سمندر ہے زباں سے آگے
دشتِ امکاں کی گماں گرد، وہ گدلا سا یقیں
کیا کوئی اور بھی منزل ہے وہاں سے آگے
ایک مجہول مقادیر سے اٹھا ہے خمیر
جانچ لوں چال تو پھر حال بیاں سے آگے
جانئے جبر کہ بس مضحکہ خیزی کہیے
آفتِ وسعتِ امکاں ہے یہاں سے آگے
—-
‏پہنچ آیا ہوں قصرِ شوق کی آکاش منزل تک
اب اس اونچائی سے کچھ ڈگمگانا چاہتا ہوں میں
بہت کم سِن تھا جب تشکیک کی عادت پڑی عاصم
معمر ہوں تو اب ایمان لانا چاہتا ہوں میں
——
‏منبعِ بحرِ معانی سے ابھرتی ہے مراد
خانۂ فہم کے سامان عجب ہوتے ہیں
نرگسیت کے سمندر میں ہیں پیہم مدہوش
ذات کی قید میں انسان عجب ہوتے ہیں
—–
‏میری خلوت گہِ خوابیدہ میں ظلمت ہے بہت
ایک سورج مجھے بیدار نہیں کر سکتا
—–
‏(دو مظلوم انسانوں کے زندہ جلائے جانے پر)

اے شمشان کے ٹھیکے دارو کیا دیکھا ہے، کچھ تو کہو
کیا انسان بھی مر جاتا ہے تن کے آگ میں جلنے سے
—–
‏رات جاگتے رہے اور دل اداس تھا
دن گزارتے رہے اور دل اداس تھا
کم سنی کی بات ہے، زندگی مذاق تھی
لمحے بھاگتے رہے اور دل اداس تھا
ذات اک خلیج تھی جو بہت عمیق تھی
اس کو پاٹتے رہے اور دل اداس تھا
روزگار، فکر و فن، شوق، جستجو، لگن
خود کو بانٹتے رہے اور دل اداس تھا
‏ہندسہ، سپہ گری، فلسفہ، سخن وری
روگ پالتے رہے اور دل اداس تھا
دوستوں کے درمیاں، ذکر جب چھڑا ترا
بات ٹالتے رہے اور دل اداس تھا
طعنۂ ستم گری تم نے جو دیا کبھی
خود میں جھانکتے رہے اور دل اداس تھا
شہرِ جاں میں چار سُو، قلبِ شب کی گونج تھی
دل سنبھالتے رہے اور دل اداس تھا
—–
‏جانتا ہوں کہ یہ حسرت ہی مری منزل ہے
شوق کی تشنہ زمینوں میں جو بویا ہوا ہوں
—–
‏ہم لوگ اپنے اپنے بدن کے حصار میں
حیران ہیں کہ خود کو چھڑا لیں تو کیا کریں
—–
‏کیا تمہیں یاد ہے انسان ہوا کرتے تھے
یہ بیاباں کبھی گنجان ہوا کرتے تھے
وقت تھم جاتا تھا، دھڑکن کی صدا سنتے ہوۓ
جب ترے آنے کے امکان ہوا کرتے تھے
سانس رک جاتی تھی، لہجے میں کسک ہوتی تھی
جس سمے کوچ کے اعلان ہوا کرتے تھے
‏نامہ بر آتا تھا رستے بھی تکے جاتے تھے
کیا جواں وقت تھا، رومان ہوا کرتے تھے
جانے والوں کو کبھی لوٹنا ہوتا ہی نہ تھا
ملتوی تب بھی یوں پیمان ہوا کرتے تھے
چشم و ابرو، شب مہتاب، جمال ساقی
کیا تمنا بھرے عنوان ہوا کرتے تھے
‏بحرِ آتش میں رواں شوق کی ناؤ رہتی
عشق دشوار تھا بحران ہوا کرتے تھے
دل جلے کوچۂ جاناں کے فسوں زینوں پہ
ابر آتا تھا تو مہمان ہوا کرتے تھے
سنگ سہہ لیتے تھے صحرا میں نکل جاتے تھے
قیس اس وقت کے نادان ہوا کرتے تھے
یہ گماں تھا کہ سوالوں کے جواب آئیں گے
ہم تھے فہام، بس ارمان ہوا کرتے تھے
‏ان دنوں چاند پہ اک بڑھیا رہا کرتی تھی
طفل کیا سادہ تھے حیران ہوا کرتے تھے
لوگ جب طیش میں آتے تھے تو چھپ جاتےتھے
کیا عجب تند وہ ہیجان ہوا کرتے تھے
کان سن لیتے تھے جذبوں کی زباں کو اکثر
فاصلے تھے مگر آسان ہوا کرتے تھے
یاد ایام بڑی تلخ زمیں ہےعاصم
اس زمیں میں کبھی دیوان ہوا کرتے تھے
—–
‏نہیں ہوں پیرِ مے خانہ، پر اتنا جانتا ہوں میں
کہ امشب مےکدے میں اک نئی صہبا کی خوشبو ہے
—–
‏یہ جو یا اخی کی پکار ہے، یہ گماں ہے کوئی صدا نہیں
یہاں کوئی جاےمفر نہیں، یہاں کوئی کوہِ ندا نہیں
میں ہوا میں اپنی ہتھیلیوں کو دبوچتا ہوں کچھ اس طرح
کہ پڑی ہوئی مرے سامنے کوئی سخت شے ہے خلا نہیں

Related Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *