شیر دریا از رضا علی عابدی | تبصرہ کتاب

کتاب: شیر دریا
مصنف: رضا علی عابدی
پبلشر: سنگ میل پبلیکیشنز
تبصرہ: علی عمار یاسر

میری عادت ہے کہ کتاب پڑھتے ہوئے کچھ دلچسپ اقتباسات کتاب زندگی فیس بک پیج پر پوسٹ کرتا رہتا ہوں۔ رضا علی عابدی صاحب کے سفرنامے ‘شیر دریا’  سے بھی جب کچھ تبرکات پوسٹ کیے تو مجھ سے ان باکس میں پوچھا گیا کہ دریائے سندھ کے کنارے چالیس سالہ پرانا سفرنامہ، جو لداخ سے شروع ہوتا ہے اور بحیرہ عرب تک چلا جاتا ہے، آج کے دور میں پڑھنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس وقت تو جواب نہ دیا، اب جواب دے دیتا ہوں۔

اس سفرنامے کو پڑھنے کی ایک بڑی وجہ عابدی صاحب کی آواز سے محبت تو ہے ہی، لیکن یہ جاننے کی خواہش بھی تھی کہ سندھ کے کنارےبسنے والی جنتا چالیس سال پہلے کیا سوچتی تھی اور کیا اب اس سوچ میں بہتری /تنزلی آئی ہے؟ اس حوالے سے یہ کتاب پڑھی جائے تو یہ آج کے پاکستان کی ذہنی پژمردگی کی ایف آئی آر ہے۔ اس کتاب میں اس دقیانوسی سوچ کے فنگرپرنٹس چھپے ہیں جو آج بھی ملکِ عزیز کے ایک وسیع طبقے کو متاثر کیے ہوئے ہے۔

ملاحظہ کیجیے کہ لداخ سے صوبہ سندھ تک کے لوگوں کے مشترکہ مسائل میں تعلیم کے بعد نوکری نہ ملنے کے بعد سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ وی سی آر آنے کے بعد نوجوان نسل خراب ہو جائے گی۔ (اسی وی سی آر والی نسل نے، جو اپنے بزرگوں کی رائے میں بگڑ چکی تھی، آگے آنے والی موبائل اور انٹرنیٹ والی جنریشن کو بگڑا ہوا کہا) ۔

اچھا ایک عجیب بات یہ نظر آئی کہ لداخ سے ڈیرہ غازی خان تک، سبھی اس دریا سے شاکی نظر آئے۔ ایک تو یہ دریا ان کے کام کا نہیں، دوسرا یہ جب طیش میں آتا ہے تو ان کی بستیاں اور کھیت اجاڑ دیتا ہے۔ اسی دریا کی وجہ سے ڈیرہ غازی خان شہر کو اپنے اصل مقام سے کئی کلومیٹر دور بسانا پڑا تھا۔ اگر یہ کسی کام کا ہے تو یہ کہ ڈیم کے ذریعے اس سے بجلی بنائی جا رہی تھی۔ دریا کی اصل قدر سکھر کے آس پاس کے علاقے سے شروع ہوتی ہے جہاں اس سے براہ راست آبپاشی کی جا رہی تھی۔ ایک بڑا مسئلہ یہ بھی تھا کہ انگریزوں کے دور میں سندھ کا پانی باقاعدہ منصوبہ بندی سے تقسیم کیا جاتا تھا، اب آزادی کےبعد پانی کی تقسیم کے حوالے سے پلاننگ نہ ہونے کی شکایات آ رہی تھیں۔ زیادہ افسوسناک صورتحال زیریں سندھ میں نظر آئی جہاں ایک وقت میں سندھ پورے زور و شور سے بحیرہ عرب کو گلے لگاتا تھا، اب وہاں پانی کی ایک لکیر سی ہے اور بس۔ پانی کی کمی کی وجہ سے اس علاقے کے کسانوں کی حالتِ زار بھی ترس آمیز ہے۔

مجموعی طور پر دلچسپ کتاب ہے، عابدی صاحب کا اندازِ بیاں تو خوبصورت ہے ہی، سندھ کے کنارے بسنے والوں کی کہانیاں بھی پڑھنے لائق ہیں۔

#رضا_علی_عابدی #شیردریا #بی_بی_سی_اردو #اردوسفرنامے #دریائےسندھ #sherdarya #KitabZindagi #razaaliabidi #bookreview

Related Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *