گبریل گارشیا مارکیز

میں یہاں نہیں ہوں، گبریل گارشیا مارکیز

کچھ دن پہلے گبریل گارشیا مارکیز کے لیکچرز اور انٹرویوز کا اردو ترجمہ پڑھنے کا اتفاق ہوا جس پر میرا تبصرہ حسبِ ذیل ہے۔

میں یہاں نہیں ہوں: گبریل گارشیا مارکیز (کتاب کا تعارف)

گارشیا مارکیز خطبات و مکالمات

گبریل گارشیا مارکیز کے خطبات اور مکالمات کا ترجمہ “میں یہاں نہیں ہوں” کے نام سے منور آکاش نے کیا ہے۔ گارشیا مارکیز کے ناولز تنہائی کے سو سال اور وبا کے دنوں میں محبت کو دنیا بھر کے پڑھنے والوں میں ایک بےمثال مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ مترجم کا نام میں نے پہلی بار پڑھا تھا مگر جب میرے، بلکہ جنوبی پنجاب کی کئی نسلوں کے استاد، نفسیات دان اور ادیب خالد سعید کے نام کتاب کا انتساب دیکھا تو کتاب لے لی۔ کتاب میں مارکیز کے اہم خطبات اور دلچسپ انٹرویوز کا اردو ترجمہ کیا گیا ہے اور منور آکاش نے پیش لفظ میں قارئین کو بتایا ہے کہ ان خطبات کے ذریعے ہمیں مارکیز کی زندگی کے مختلف پہلوؤں، سیاسی و ادبی نظریات کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔

گبریل گارشیا مارکیز نے لکھنا کیسے شروع کیا؟

مارکیز نے بچپن میں ایک ڈائجسٹ / رسالے میں ایڈیٹر کا نوٹ پڑھا جس میں ایڈیٹر نے گلہ کیا تھا کہ ہمارے پاس صرف عمر رسیدہ ادیبوں کی تحاریر ہی چھپنے کےلیے آتی ہیں، کیا نئی نسل کے پاس ایک بھی ایک ایسا لکھنے والا نہیں جو کچھ لکھ سکے۔ یہ نئی نسل کےلیے ایک قسم کا چیلنج تھا۔ اس کے ردعمل میں مارکیز نے ایک کہانی / افسانہ لکھ کر بھیجا جو ایڈیٹر نے بخوشی چھاپا اور اس نوخیز لکھنے والے کےلیے توصیفی کلمات بھی ادا کیے جس نے آگے چل کر لاطینی امریکہ کے ایک نمائندہ ادیب کے طور پر خود کو منوانا تھا۔

گبریل گارشیا مارکیز لاطینی امریکہ کے ایک عہد ساز ادیب تو ہیں ہی، مگر انہیں اپنی اس شناخت پر فخر بھی ہے۔ نوبل پرائز وصول کرتے وقت ان کا لیکچر ہو، یا کسی عالمی کانفرنس میں ان کا خطاب ہو، انہوں نے مغربی دنیا کو اس بات پر آڑے ہاتھوں لیا کہ دنیا لاطینی امریکہ کو اپنے ہی وضع کردہ معیارات پر پرکھتی ہے جو کہ غلط ہے۔ مارکیز کا نوبل انعام وصول کرنے کے موقع پر دیا گیا لیکچر بہت اہم ہے جس میں انہوں نے مغربی فیصلہ سازوں کو یہ کہتے ہوئے آڑے ہاتھوں لیا کہ مغربی دنیا ہمیں ادب میں تو ایک اپنا مختلف طرز رکھنے کی اجازت دیتی ہے مگر ہمیں اپنے معاشرے میں سماجی تبدیلی اپنے مختلف انداز میں لے کر آنے کی اجازت نہیں دیتی۔

گبریل گارشیا مارکیز کے سیاسی نظریات اور امریکی ردِ عمل

گبریل گارشیا مارکیز اور فیدل کاسترو
گبریل گارشیا مارکیز اور فیدل کاسترو

یہ پڑھ کر مجھے بہت حیرت ہوئی کہ نوبل انعام یافتہ ادیب گبریل گارشیا مارکیز، جن کی کتب کے تراجم دنیا بھر کی زبانوں میں ہو چکے ہیں، ان کا ایک وقت میں امریکہ میں داخلہ منع تھا کیونکہ مارکیز اور کیوبا کے لیڈر فیدل کاسترو ایک دوسرے کے بہت اچھے دوست تھے، اور مارکیز امریکی پالیسیز پر بےلاگ تنقید سو آپ تصور کریں کہ مارکیز کے امریکی پڑھنے والے انہیں امریکہ کسی تقریب میں مدعو نہیں کر سکتے کیونکہ امریکہ میں مارکیز کا داخلہ بند ہے۔

گبریل گارشیا مارکیز اپنے مداح بل کلنٹن کے ساتھ
گارشیا مارکیز اپنے مداح بل کلنٹن کے ساتھ

نوبل انعام ملنے کے بہت سالوں بعد مارکیز کو امریکہ میں داخلے کی اس وقت اجازت ملی جب ان کے مداح بل کلنٹن امریکہ کے صدر بنے۔ خیال رہے کہ یہ آزادی اظہار رائے کے علمبردار امریکہ کی بات ہو رہی ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اپنے آپ کو مہذب ملک کہنے والے اور دوسری اور تیسری دنیا کو سماجی اقدار کے لیکچر دینے والوں کے دکھانے کے دانت اور ہوتے ہیں، کھانے کے اور۔

گارشیا مارکیز کے خطبات اور انٹرویوز کے ترجمے کا تنقیدی جائزہ

کتاب پر خالد سعید کا نام پڑھ کر کچھ اچھی توقعات وابستہ ہو گئی تھیں، مگر ایماندارانہ تجزیہ حسبِ ذہل ہے؛

  • ترجمہ رواں نہیں تھا۔ بہت سے فقرے ایسے تھے جن کا کوئی واضح مفہوم نہیں بن رہا تھا۔ شاید مترجم کے ذہن میں وہ مفہوم واضح ہو مگر ترجمے میں وہ اس کو بخوبی قاری کو سمجھا نہیں سکے۔
  • خطبات کی تاریخ اور عنوان تو درج تھا مگر خطبات کا اگر ہلکا پھلکا تعارف کروا دیا جاتا کہ یہ خطاب کس موقع پر کیا گیا اور اس کا پس منظر بھی اگر دیا گیا ہوتا تو پڑھنے والوں کےلیے سیاق و سباق کے ساتھ لیکچر سمجھنا آسان رہتا۔ مثلاََ نوبل انعام وصول کرتے وقت گارشیا مارکیز کے لیکچر کا بس عنوان درج تھا۔ میں نے بعد میں گوگل سے سرچ کیا تو معلوم ہوا کہ اچھا یہ خطبہ وہ ہے جو مارکیز نے نوبل انعام وصول کرتے وقت دیا تھا۔
  • تقاریر میں گارشیا مارکیز نے جن واقعات، شخصیات اور نظریات کا تذکرہ کیا، اگر حاشیے میں ان کا یک سطری تعارف بھی ہوتا تو بھی کتاب ذیادہ سود مند ثابت ہوتی۔
  • کتاب میں لکھا تھا کہ مارکیز کو بل کلنٹن کے دور میں بھی امریکہ میں داخلے کی اجازت نہیں ملی، مگر گول سرچ نے اس بات کی بھی تردید کی۔
  • مجموعی طور پر ایک اس قسم کی کتاب ہے جسے آپ شاید صرف اس وقت پڑھنا چاہیں جب آپ گارشیا مارکیز پر لکھی گئی اردو کی ہر کتاب پڑھنے کا جذبہ رکھتے ہوں۔ لیکن پھر بھی، اگر آپ مارکیز کی ابتدائی زندگی اور اس کے سیاسی و ادبی نظریات سے آگاہی حاصل کرنا چاہتے ہوں تو کتاب تھوڑا بہت تعاون تو کرے گی۔

مزید تبصروں کےلیے ہماری ویب سائٹ ، فیس بک پیج اور یوٹیوب چینل وزٹ کریں

Related Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *