بھوک | نٹ ہامسن | تبصرہ کتاب

کتاب: بھوک (Hunger)
مصنف: نٹ ہامسن (Knut Hamson)
مترجم: مخمور جالندھری
ناشر: بک کارنر، جہلم
تبصرہ نگار : علی عمار یاسر

جس کتاب کی ابتداء میں ہی ایسا فقرہ ہو کہ صبح جب میری آنکھ کھلی تو میں اس سوچ میں پڑ گیا کہ میرے پاس آج کی خوشی منانے کےلیے کچھ ہے یا نہیں، اس کتاب میں کتنا درد بھرا ہو گا؟ استاد غالب نے قطرے کے گہر ہونے تک کے سفر میں ہر قدم پر درپیش آفات و مصائب کے بارے لکھا کہ؛

دامِ ہر موج میں ہے حلقۂ صد کامِ نہنگ​
دیکھیں کیا گُزرے ہے قطرے پہ گُہر ہونے تک​

لیکن ایسے سونے پر کیا بیتتی ہے جو تپ کر کندن نہیں، جل کر راکھ ہو جاتا ہے؟ ​ صہیب کے الفاظ میں ‘اس رائیگانی کا ہم ایسوں کو شاید رتی برابر بھی اندازہ نہ ہو’ مگر نٹ ہامسن جیسے سفاک کہانی کار کو اس اذیت کا بخوبی ادراک تھا۔ اپنے ہی ملک پر قبضہ کر لینے والے بے رحم ہٹلر کے مداح، ہامسن کو بخوبی علم تھا کہ سب کہانیوں کا انجام ‘اور سب ہنسی خوشی رہنے لگے’ نہیں ہو سکتا۔ وہ خواب دیکھنے والوں کی قدر ضرور کرتا تھا مگر جھوٹے خواب بیچتا نہیں تھا۔

ناول میں ایک فاقہ کش لکھاری کی زندگی کے شب و روز ہماری آنکھوں کے سامنے فلم کی طرح چلتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے ذہن میں گنجلک، اہم اور شاندار مضامین کی الجھی ہوئی ڈور ہے۔ اگر اسے سکون کے چند دن میسر آ جائیں تو وہ ایسا شاہکار لکھے گا کہ جسے پڑھنے والے چوم اٹھیں گے۔ وہ فلسفہ، سماج اور کئی دلچسپ موضوعات پر بہت کچھ انوکھا لکھنے ہی والا ہے کہ اس کا کمبخت پیٹ جسے بھوک لگتی ہے، اور نڈھال بدن جسے ٹھنڈ جکڑتی ہے، اس کی راہ میں حائل ہو جاتے ہیں۔ رہن رکھنے کےلیے کوٹ کے بٹن تک تو اس نے دے دیے ہیں کہ چار نوالے اور قبر نما کمرے کا کچھ دن کا کرایہ ادھار مل جائے مگر ایسا کب تک چلے گا؟ انگریزی کی یہ اصطلاح تو ہم نے سنی ہے کہ Beggers are not choosers مگر جب ایک کنگلا اور قلاش شخص اپنی خودپسندی اور ذاتی عظمت کا خول اتارنے سے انکار کر دے اور Begger ہونے کے باوجود Chooser ہونے کا ناٹک کرے تو اس پر جو بیتتی ہے وہ پڑھنے والے کو بھی رلا دیتی ہے۔ قرض کی مے پینے کے بعد فاقہ کشی رنگ نہ لائی تو کیا ہو گا؟

مخمور جالندھری نے بہت عمدہ ترجمہ کیا ہے، یہ بلکہ ترجمہ معلوم ہی نہیں ہوتا۔ اس ناول میں بہت کچھ ہے، کم سے کم اتنا کچھ تو ضرور ہے کہ سب خواب دیکھنے والوں کو حفظِ ماتقدم کے طور پر ایک دفعہ یہ ناول ضرور پڑھنا چاہیے۔ ناول کا اختتام مجھے اسلم کولسری کی یاد دلا گیا؛

بانسری توڑ دی گڈریے نے
اور اک روز شہر جا کر
کارخانے میں نوکری کر لی

علی عمار یاسر

Related Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *