کینسر وارڈ

کینسر وارڈ | الیگزینڈر سولنسٹین | تبصرہ کتاب

اسٹالن کا سوویت یونین کیسا تھا، اس کے بارے جو کچھ پڑھا ہوا تھا وہ ایک مجموعی تاثر تو بناتا تھا، مثلاً معیشت، سیاست، سماج، سائنس و ٹیکنالوجی اور دوسرے شعبوں میں جو کچھ ہوا، مگر سماج کی بنیادی اکائی، یعنی انسان پر، ایک عام کامریڈ پر کمیونزم کے یہ سال کیسے گزرے، اس بارے کچھ خاص پڑھا نہیں تھا۔ پھر  الیگزینڈر سولنسٹین کا ناول کینسر وارڈ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔یہ صاحب نوبل انعام یافتہ ناول نگار ہیں اور اپنے ناول میں سوویت معاشرے کی اچھی منظر کشی کی ہے۔

یوں سمجھیے کہ کینسر وارڈ سوویت معاشرے کا آئینہ ہے۔ اس میں ہر اہم طبقہ ہائے سماج کے مریض موجود ہیں۔ ایک طرف روسانو ہے جو سوویت یونین کی بیوروکریسی کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس کا کام تھا کہ وہ معاشرے میں ایسے لوگوں کے بارے رپورٹس مرتب کرے جو سوویت یونین کےلیے خطرے کا باعث بن سکتے تھے۔ یوں بہت سے لوگوں کی بَلی دے کر اس نے ترقی کے زینے طے کیے تھے۔ اسے کینسر وارڈ میں اپنے شایانِ شان پروٹوکول چاہیے۔ لیکن وارڈ میں اس کے ساتھ اور بھی لوگ داخل ہیں جن کےلیے وہ بس ایک مریض ہی ہے۔

کینسر وارڈ کا اڑیل مریض پھر کوسٹوگلوٹو ہے۔ شروع میں وہ ایک ولن نظر آتا ہے۔ روس کی طرف سے جنگ میں حصہ لے چکا ہے، لیکن پھر کسی وجہ سے اسے کسی دور دراز علاقے میں جلا وطن کر دیا جاتا ہے (شاید روسانو جیسے کسی بیوروکریٹ کی طرف سے) ۔ اجڈ، بدتمیز اور متجسس کوسٹوگلوٹو کو لگتا ہے کہ ڈاکٹر اس کا علاج ٹھیک نہیں کر رہے۔ پھر اسے طبی عملے کی دو خواتین سے محبت بھی ہو جاتی ہے۔ کوسٹوگلوٹو کو طریقہ علاج کے بارے ایک ایسی بات پتہ چلتی ہے جو میں ابھی آپ کو نہیں بتاؤں گا، کچھ سسپنس بھی رہنا چاہیے۔

کینسر وارڈ میں ایک اور مریض، ایک اہم کردار شلوبن ہے جس کا کام یہ تھا کہ جب بھی عدالتوں میں کسی کا جرم ثابت ہو جاتا، یا کسی پر الزام ہی عائد ہوتا تو وہ اور اس کے ساتھی بآواز بلند اسے عبرتناک سزا دینے، یا مار دینے کی آواز بلند کر دینے پر مامور تھے (دو نمبر انصاف) ۔

پھر ڈاکٹرز اور نرسز ہیں۔ تھکن سے چور، مگر اپنے کام اور اس کام کے ضابطوں سے مخلص۔ اپنی ذاتی زندگیوں میں تنہا، کینسر وارڈ کے مریضوں کی صحتیابی ہی ان کی زندگی کا محور تھا۔ انہیں پرائیویٹ پریکٹس کی اجازت نہیں، اور انہیں غیرضروری مصروفیات میں بھی الجھا کر رکھا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ واڈم، احمد جان سمیت اور بھی کردار ہیں۔

اب یہ سب کردار، اپنے مختلف پسِ منظر کے ساتھ ایک ہی کینسر ہسپتال میں داخل ہیں۔ سب اپنے ماضی کو یاد کرتے ہیں، مستقبل بےیقین نظر آتا ہے، انہی یادداشتوں میں ہمیں سوویت یونین میں رہائش پذیر مختلف طبقات کی سوچ اور طرزِ زندگی کےبارے بھی پڑھنے کو ملتا ہے۔ ان کی آپسی گفتگو میں ہمیں مختلف نظریات کو جانچنے اور سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ اب دیکھیے، کوسٹوگلوٹو جو ایک سزایافتہ ہے، روسانو جس کا کام سزا دینا ہے یا جرم کی رپورٹ کرنا ہے اور شلوبن جس کا کام ہے کہ وہ سزا یافتہ لوگوں کےلیے کڑی سزا کے حق میں نعرہ بازی کرے، یہ سب ایک ہی وارڈ میں اور ایک ہی بیماری کا شکار ہیں تو کیسا دلچسپ منظر اور مکالمہ تشکیل پاتا  ہے۔ خصوصاً شلوبن اور کوسٹوگلوٹو کا مکالمہ جس میں شلوبن اپنی زندگی پر شرمندہ تو ہوتا ہے مگر کہتا ہے میرا سب سے پہلا فرض اپنا سروائیول تھا، مجھ پر پہلی ذمہ داری میری اپنی تھی سو جو کچھ بھی میں نے کیا وہ غلط ہو یا نہ ہو، اس کی وجوہات تو تھیں۔ دونوں تعجب کا شکار ہوتے ہیں کہ لینن کے جانے کے بعد بہت کچھ بڑی تیزی سے بدلا ہے، بیک جنبشِ قلم ہزاروں کی قسمت کے فیصلے ہوتے ہیں۔

روسانو جو بیوروکریسی کا حصہ ہے، اسے ہسپتال میں ہی اطلاع ملتی ہے کہ اب نظام تبدیل ہو رہا ہے اور پرانے لوگ جنہیں روسانو جیسے بیوروکریٹس کی وجہ سے سزائیں ملی تھیں، وہ اب واپس آ رہے ہیں اور انہیں عہدے بھی دیے جا رہے ہیں۔ اسٹالن کے مشہورِ زمانہ چیف ایجنٹ بیریا، جس کے نام پر روسانو نے اپنے بیٹے کا نام رکھا تھا، اب معتوب ہے اور اس کا نام لینا جرم ہے اور روسانو پریشان ہے کہ اس کے بیٹے کو مسئلہ نہ ہو۔ اسٹالن کی موت کا دوسرا سال ہے اور اخبار سے اس کی برسی کی خبر بالکل ہی غائب ہے۔ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔

کینسروارڈ، بہرحال، مجموعی طور پر اچھا ناول ہے، مگر ضخامت کی وجہ سے اور چونکا دینے والے Twist کی غیرموجودگی کی وجہ سے درمیان میں کہیں کہیں بوریت ہوتی ہے۔یہ ناول پڑھ کر سوویت یونین کے بارے بہت کچھ سمجھا جا سکتا ہے اور جانا جا سکتا ہے کہ کیسے پرولتاریہ کے انقلاب کو بیوروکریسی ہائی جیک کر لیتی ہے۔ آخری دو ابواب بہت شاندار ہیں، ایک فلم سی آنکھوں کے سامنے چلتی رہتی ہے، مزہ آتا ہے۔

میں نے فکشن ہاؤس کا شائع کردہ گوپال متل کا ترجمہ پڑھا ہے، اچھا ترجمہ ہے، رواں ہے۔مزہ آیا۔ حواشی کی مدد سے ناول کے بعض پہلوؤں کو سمجھنا مزید آسان کر دیا گیا ہے۔ پروف ریڈنگ کی غلطیاں ضرور ہیں، مگر خیر ہے۔ اتنے بڑے ناول میں کچھ مارجن تو دینا چاہیے، سات سو چالیس صفحے ہیں، کوئی مذاق تو نہیں ہے۔

 

مزید تبصروں کےلیے میری ویب سائٹ وزٹ کریں

Related Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *