ہماری خارجہ پالیسی اور سرائیکی ڈھولا

Commenting on Pakistan’s fragile foreign policy. Published at Hum Sub.

پیرومرشد مشتاق احمد یوسفیؔ صاحب فرماتے ہیں کہ اردو شاعری میں شراب اور مذہب بہت آسانی سے حل ہو جاتے ہیں۔ میری طرف سے اس میں سیاست و کاروبار حکومت کا اضافہ کر لیجیے۔ اب فرازؔ کا یہ شعر ہی ملاحظہ کریں:

آج تک اُن سے رہ و رسم چلی جاتی ہے

جن سے کچھ پہلے توقع تھی نہ اب ہے کوئی

یوں گُماں ہوتا ہے کہ مرحوم نے سیدھی سیدھی ہماری ساٹھ ستر برس کی خارجہ پالیسی و تزویراتی گہرائی پر چوٹ کی تھی۔ یہ شعر یاد آیا جناب سرتاج عزیز کے اس حالیہ بیان کے بعد کہ امریکہ بے وفا ہے اور کام نکالنے کے بعد بھول جاتا ہے۔ یاد رہے کہ آنجناب نے اس سے پہلے شکوہ کیا تھا کہ امریکہ میں مقیم ایک سابق سفیر صاحب پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں بگاڑ کا باعث ہیں (اب اس پر جو جگ ہنسائی ہوئی سو ہوئی، آپ ہنسنے سے پرہیز کریں۔ آخر اس گلوبل ویلج میں سرتاج عزیز ہمارے ’گرائیں‘ یعنی ساتھی ہیں)۔ دنیا کو ہم نے دو پیغام دیے ہیں۔ ایک تو یہ کہ ہمیں بیوقوف بنانا بہت آسان ہے، ہم باآسانی استعمال ہو سکتے ہیں اور دوسرا یہ کہ ہمارے پورے محکمہ خارجہ، تجربہ کار بیوروکریسی، لابنگ اور حکومتی فنڈنگ کو ایک سابق سفیر ، نام جن کا حسین حقانی ہے، تن تنہا مات دے رہے ہیں۔

مسئلہ اس قوم کا یہی ہے کہ عالمی سیاست کو جذبات کی عینک سے دیکھتی ہے اور سمجھتی ہے کہ باقی دنیا بھی دماغ کی بجائے دل سے سوچتی ہے۔ یوسفی صاحب نے ہی کہا تھا کہ محبت اندھی ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ عورت بھی اندھی ہوتی ہے۔جنابِ والا، آپ اپنے تئیں عالمِ اسلام کے قلعہ بنے بیٹھے ہیں اور جس بھارت کو ہم اپنا ازلی دشمن سمجھتے ہیں، اُس نے پورے عالم اسلام کے ساتھ تجارتی اور دفاعی معاہدوں کی قطار لگا رکھی ہے۔ کیا خادم الحرمین الشریفین، کیا دوبئی کے شیخ، کیا افغان پٹھان اور کیا ایران! ہم ہوئے، تُم ہوئے کہ میرؔ ہوئے، مودی کی زلفوں کے سبھی اسیر ہوئے۔

اُمت مسلمہ کا تو یہ ہے کہ باہمی جنگوں سے فرصت نہیں ہے، ایک دوسرے کے خلاف عسکری و غیر عسکری محاذ آرائیاں ہو رہی ہیں، ہم کسی کھاتے میں نہیں آتے اور مفت میں ٹھیکے دار بنے ہوئے ہیں ۔بھائی صاحب، کیا خادم الحرمین الشریفین نے، کیا دوبئی کے سلطان نے، کیا افغانستان نے یا ایران نے بھارت سے مطالبہ کیا کہ جناب آپ کے ہمسائے میں جو ہمارا اسلام کا قلعہ ہے، اس کے ساتھ آپ کا کشمیر کا تنازعہ چل رہا ہے، پلیز پہلے اسے حل کریں پھر ہم آپ کے ساتھ معاہدے کریں گے؟ نہیں ناں؟ کیوں کہ یہ سب جانتے ہیں کہ اول خویش بعد درویش۔ پہلے اپنے گھر کی خبر لو پھر باقیوں کا ذمہ اٹھائو۔

حقیقت پسندی یہ ہے کہ مرگ بر امریکہ کا نعرہ لگانے والا ایران اب امریکہ کے ساتھ مذاکراتی میز پر بیٹھ گیا ہے۔ روسی طیارہ مار گرانے کے بعد چھاتی چوڑی کرنے والے ترکی کے اردگان نے زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے معافی مانگ لی ہے۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی اس وقت دنیا کے سرمایہ دارانہ نظام پر حکومت کر رہی ہے۔ تقریباََ ایک صدی بعد کسی امریکی صدر نے کیوبا کا دورہ کیا ہے۔ مودی دورے پہ دورے کر رہا ہے، معاہدوں پہ معاہدے ہو رہے ہیں۔ کشمیر اور دہشت گردی جیسے مسائل پر بھارتی بیانیہ دنیا کو متاثر کر رہا ہے اور اس تیزی سے بدلتے منظرنامے میں ہمارا کوئی مستقل وزیر خارجہ نہیں، ہماری کوئی خارجہ پالیسی ہی نہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ہماری حکومت اور پالیسی ساز اداروں نے یہ سوچ کر خارجہ پالیسی کو بے یارومددگار چھوڑا ہوا ہے کہ نہ ڈھولا ہوسی نہ رولا ہوسی (نہ محبوب ہوگا، نہ کوئی مسئلہ ہوگا)۔

 

Click here to read this blog at Hum Sab

Related Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *