A Tale of Two Cities by Charles Dickens| دو شہروں کی کہانی | Book Review

Book Review: A Tale of two cities by Charles Dickens

چارلس ڈکنز کا ناول ‘دو شہروں کی کہانی’ اپنے انجام کو پہنچا اور مجھے اداس کر گیا۔ ابھی پچھلے دنوں ملتان میں ہوئی بارش کے دوران میں نے خانہ بدوشوں کو اپنی جھونپڑی کا مختصر ساز و سامان سمیٹ کر ایک قریبی دیوار کے ناکافی سائے میں پناہ لیتے دیکھا تو سوچ میں پڑ گیا کہ اس وقت یہ جھونپڑی والے کیا سوچ رہے ہوں گے۔ ناول کے ایک دم توڑتے، غریب الحال اور مجروح کردار نے جب اپنے باپ کی اس بات کو دوہرایا کہ دعا کرو ہماری عورتیں بانجھ ہوں اور ہماری نسل معدوم ہو جائے کیونکہ اس ذلیل دنیا میں بچے پیدا کرنے کی خواہش بذاتِ خود ایک ہولناک خواہش ہے، تو میں جان گیا کہ وہ جھونپڑی والے بھی اپنی عورتوں کے بانجھ ہونے کی دعا مانگتے ہوں گے۔

انقلابِ فرانس کے گرد گھومتی، لندن اور پیرس دو شہروں کی کہانی دراصل دو طبقوں کی کہانی ہے۔ ایک وہ طبقہ ہے جس کے تیز رفتار چھکڑے تلے مفلوک الحال ماں باپ کا بچہ مرتا ہے تو وہ چھکڑے سے اترنے کی زحمت کیے بغیر، اس نقصان کی تلافی کی غرض سے کچھ سکے باہر اچھال دیتے ہیں۔ دوسرا طبقہ ان ماں باپ کا ہے جن کے لختِ جگر کی بےوقت اور بےرحمانہ موت کی تعزیت چند سِکوں کی بھیک سے کی جاتی ہے۔ لیکن کتابوں میں لکھا ہے اور عرب سپرنگ میں ہم نے دیکھا ہے کہ ظلم برداشت کرنے کی ایک حد ہوتی ہے اور جب ناآسودہ عوام ہجوم در ہجوم ایک دریا کے مانند جھوم کر نکلتے ہیں تو اشرافیہ کے حفاظتی بند تنکوں سے بھی کمزور ثابت ہوتے ہیں اور مست دریاؤں کا قہر ٹالنے میں ناکام رہتے ہیں۔ وہ سکہ جو چھکڑے سے باہر اچھالا گیا تھا، باہر سے کوئی بدمست اس خیرات کو توہین آمیز انداز میں دوبارہ چھکڑے کے اندر اچھال کر قاری کو بتاتا ہے کہ فرانس کے عوام کی برداشت اپنی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔

ڈکنز، لیکن اس خونی انقلاب کا حامی نہیں۔ جہاں وہ اشرافیہ کے ظلم و ستم بتا کر انقلاب کی وجوہات بیان کرتا ہے، وہیں وہ انقلابیوں کی بربریت اور وحشت کی کہانیاں سنا کر اس بے رحم انقلاب کے ‘ثمرات’ بھی عیاں کرتا ہے۔ وہی بربریت اور وحشت جس کا شکار فرانس کے ایک متکبر اور ظالم خاندان کا شریف النفس وارث چارلس ڈارنے(Charles Darney) ہوتا ہے، جس نے انقلاب سے پہلے ہی اپنی متعفن وراثت، دولت اور خاندانی نام و القابات کو لات مار کر لندن میں اپنی محنت کے بل بوتے پر رہنے کو ترجیح دی لیکن انقلابیوں کی نظر میں وہ اب بھی اسی اشرافیہ کا نمائندہ ہے جس کے خلاف وہ یہ خونی انقلاب لائے تھے۔

ڈاکٹر منیٹ (Dr Mennette) کا کردار اپنی جگہ ایک بھرپور اور توانا کردار ہے۔ اٹھارہ سال تک فرانسیسی اشرافیہ کی قید میں رہنے کی وجہ سے وہ اپنے حواس تو کھو بیٹھتا ہےمگر انقلابیوں کےلیے ایک ہیرو کی حیثیت بھی اختیار کر جاتا ہے۔ کیا انقلابیوں پر اس کا اثر اس کے خاندان کی حفاظت کےلیے کافی رہے گا؟ اور انقلابی بھی وہ جو اسے کہتے ہیں کہ اپنی ایک عزیز ہستی کو ریاست کے خوں آلود چرنوں میں دان کر دو، یہ وہ سوال ہے جو قاری کو ناول کے آخری نصف میں بہت پریشان کرتا ہے۔

وفادار دوست مسٹر لاری (Mr Lorry) ، اور ڈاکٹر منیٹ کی بلند حوصلہ بیٹی لوسی، کے بعد ایک اور اہم کردار سڈنی کارٹن کا بھی ہے۔ ایک ناکام اور تباہ حال شخص، جس کا اس دنیا میں کوئی چاہنے والانہیں، جس کا مستقبل کوئی نہیں، مگر جس کی ذہانت و قابلیت کسی قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ مگر یہ بظاہر ناکام شخص جس جوانمردی و دلیری سے موت کو گلے لگاتا ہے، اس کا چرچا ایک طویل عرصے تک پیرس کی گلیوں میں گونجتا رہا۔

ڈیفارج اور میڈم ڈیفارج (Madame Defarge) کے کردار انقلابیوں کی بےرحمانہ صفات سے پُر ہیں۔ مگر، ان کے ظالمانہ اور نفرت انگیز اعمال کے پسِ پردہ بھی ایک کہانی ہے جو ڈکنز نے اپنے قاری کو ورطہ حیرت میں مبتلا کرنے کی غرض سے آخر کےلیے بچا رکھی ہے۔ یہ تو خیر ڈکنز کا کمال ہے کہ وہ قاری کو یا تو کردار سے شدید نفرت یا شدید محبت کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔

مجموعی طور پر ایک شاندار ناول۔ کئی ہم وطنوں کو ایک خونی انقلاب کی بہت شدید خواہش رہتی ہے لیکن وہ اس قسم کے انقلابات کے مضمرات سے ناواقف نظر آتے ہیں۔ انارکی، تشدد، انسانی جانوں کی ناقدری کے علاوہ اس قسم کے انقلابات کا ایک نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ گیہوں کے ساتھ گھن بھی انقلابیوں کی خونی چکی میں پس جاتا ہے۔

ناول پڑھنے کے بعد مجھے اخبارات کی زینت بننے والے ایسے بےشمار واقعات یاد آ گئے جن میں مقتول کے ورثاء، طاقتور قاتل کو دیت کے عوض اپنے مقتول کا خون معاف کر دیتے ہیں۔ لیکن مقتدر اشرافیہ، اس بات سے بےخبر ہے کہ جس دن کسی لاچار نے ان کا سکہ واپس ان کے چھکڑے میں اچھال دیا، اس کے بعد کیا ہو گا!

Read this post on Face Book

Related Posts

One thought on “A Tale of Two Cities by Charles Dickens| دو شہروں کی کہانی | Book Review

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *