ذوالفقار علی بھٹو اور سقوط ڈھاکہ Zulfiqar Ali Bhutto and the Fall of Dhaka

ذوالفقار علی بھٹو اور سقوط ڈھاکہ Zulfiqar Ali Bhutto and the Fall of Dhaka

ذوالفقار علی بھٹو اور سقوط ڈھاکہ Zulfiqar Ali Bhutto and the Fall of Dhaka

تاشقند معاہدے نے بھٹو صاحب اور ایوب خان کے درمیان اختلافات کے بیج بو دیے تھے۔ جنرل ایوب اور اُن کے مشیر مغربی پاکستان میں بھٹو کی بڑھتی مقبولیت سے خوفزدہ تھے۔ تاشقند معاہدے کے فوراََ بعد بھٹو صاحب کا ایوب کی کابینہ سے نکلنا عوام میں بہت سے شکوک و شبہات کا باعث بن سکتا تھا۔ چنانچہ باہمی رضامندی سے اس پر اتفاق کیا گیا کہ بھٹو صاحب سرکاری خرچ پر کچھ عرصہ بیرون ملک رہیں گے۔ ان کی آمدورفت اور باقی اخراجات حکومتِ پاکستان ادا کرے گی اور اس کے بدلے بھٹو صاحب ایوب خان کے خلاف کوئی بیان نہیں دیں گے۔ بیس جون انیس سے چھیاسٹھ کی شب بھٹو صاحب پنڈی سے لاہور بذریعہ ٹرین روانہ ہوئے۔ ان کے لاہور پہنچنے سے قبل ہی ان کے کابینہ چھوڑنے کی افواہیں لاہور پہنچ چکی تھیں۔ جب بھٹو صاحب لاہور پہنچے تو سارا لاہور ہی ان کے استقبال کے لیے ریلوے اسٹیشن پر پہنچ چکا تھا۔ بھٹو صاحب کی آنکھوں میں یہ والہانہ استقبال دیکھ کر آنسو آ گئے۔ جس رومال سے انہوں نے اپنے آنسو پونچھے بعد میں وہ دس ہزار روپے میں بکا جو کہ اس وقت کے حساب سے بہت بڑی رقم تھی۔ لیکن جنرل ایوب سے اپنے معاہدے کی وجہ سے بھٹو صاحب نے تقریر کرنے سے گریز کیا۔ اگلے کئی مہینے بھٹو صاحب نے سرکاری خرچہ پر بیرونِ ملک گھومتے، غور و خوض کرتے اور اپنی سیاسی پارٹی بنانے کی منصوبہ بندی کرنے میں گزار دی۔ اس دوران انہوں نے ایوب خان کے خلاف کوئی بیان جاری کرنے سے گریز کیا۔ اسی دوران مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمان کی مقبولیت اپنی بلندیوں کو پہنچ چکی تھی۔ فروری انیس سو چھیاسٹھ میں مجیب نے جیسے ہی اپنا چھ نکاتی ایجنڈا دیا، ایوب نے مجیب الرحمان کو غدار قرار دیتے ہوئے، اسے گرفتار کر لیا، پولیس نے عوامی لیگ کے دفاتر پر چھاپے مارے اور ان کے کارکنوں کو گرفتار کر لیا۔ اس سے ڈھاکہ کی گلیوں میں احتجاج اور دنگا فساد کی لہر پھیل گئی۔

یکم دسمبر سنہ انیس سو سڑسٹھ کو پاکستان پیپلز پارٹی کی باقاعدہ بنیاد رکھ دی گئی۔ بھٹو صاحب نے عوامی جلسوں میں ایوب خان پر بڑھ چڑھ کر حملے کرنا شروع کر دیے۔ ایک زمانے میں بھٹو صاحب نے ایک بنگالی حسینہ کے سحر میں مبتلا ہونے کے بعد بیگم نصرت بھٹو کو گھر سے نکال دیا تھا تو اسُ وقت ایوب خان نے بھٹو کو بیگم نصرت سے صلح کے لیے مجبور کیا تھا۔ اب بنگال جل رہا تھا اور بھٹو نے ایوب کو ہی ایوانِ اقتدار سے بیدخل کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اپنی شعلہ فشاں تقریروں میں تاشقند معاہدے کو ایوب کی بزدلی پر محمول کرتے ہوئے بھٹو صاحب نے کروڑوں پاکستانیوں کو یقین دلایا کہ معاہدہٗ تاشقند پاکستانی اور کشمیری عوام کے مفادات کے خلاف تھا۔ ان کا یقین تھا کہ پاکستان کو جنگ جاری رکھنی چاہیے تھی۔ اپنی تقریروں، بیانات اور مضامین میں بھٹو صاحب نے ہمیشہ بھارت کو جارح قرار دیا اور قوم کو بتایا کہ پاکستان تو محض اپنا دفاع کر رہا تھا۔ ایوب خان کا تاشقند اعلامیہ پر دستخط کرنا اس کے اندر ”شرمناک حد تک ایمان کی کمی“ اور ”عالمی طاقتوں کے پاؤں پر گرنا“ قرار پایا۔ یہاں یہ تضاد قابلِ غور ہے کہ بھٹو صاحب نے اپنا سیاسی منشور اس مہارت سے ترتیب دیا کہ ایک طرف تو وہ پڑھے لکھے طبقے کو سوشلزم کے نعرے سے اوردوسرے طرف ان پڑھ عوام کو مذہب کا ہتھیار استعمال کر کے اپنے ساتھ ملانا چاہتے تھے۔ حالات اب ایوب خان کے بس سے باہر ہوتے جا رہے تھے۔ مغربی پاکستان میں بھٹو اور مشرقی حصہ میں مجیب الرحمان کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ انہی دنوں ایوب خان بیمار پڑگئے۔ مجیب جیل میں اور ایوب بسترِ علالت پر تھے۔ بھٹو صاحب لیکن دھڑادھڑ جلسے اور تقاریر کر رہے تھے جن میں ایوب خان کو کرپٹ، نااہل، غدار اور اس کے علاوہ دیگر بہت سے القابات دیتے تھے۔ ایوب خان نے اقتدار یحییٰ خان کے حوالے کر دیا۔

یحییٰ اور بھٹو ایک ساتھ لاڑکانہ میں شکارکھیلتے رہے تھے، دونوں ہم مسلک و ہم مشرب تھے اور دونوں ہی بنگالیوں کو غدار سے تھوڑا ہی بہتر سمجھتے تھے۔ایوب کے ایوانِ اقتدار سے رخصت ہونے کے بعد بھٹو نے اپنے حملوں میں مزید شدت پیدا کر دی اور کابینہ و حکومت کی خفیہ باتیں اب کھلے عام بے نقاب شروع کر دیں۔بقول ذوالفقار علی بھٹو انیس سو باسٹھ میں چین اور بھارت کی محدود جنگ کے دوران پاکستان کے پاس موقع تھا کہ وہ کشمیر پر قبضہ کر لے کیونکہ بھارت نے اپنی فوجیں کشمیر سے نکال لی تھیں۔ لیکن ایوب خان نے ایسا نہیں کیا جسے بھٹو صاحب نے ایوب کی بزدلی پر محمول کیا۔ (دلچسپ امر یہ ہے کہ قدرت اللہ شہاب نے بھی شہاب نامہ میں اس امر پر تعجب کا اظہار کیا ہے کہ ایوب نے اس دوران کشمیر پر قبضہ کیوں نہیں کیا؟) مغربی پاکستان کی سیاسی و فوجی اشرافیہ کا یہ خوف کہ بھارت سے جنگ کی صورت میں مشرقی پاکستان کا دفاع ممکن نہیں ہوگا، بھٹو صاحب نے مسترد کر دیا۔ ایوب خان کے وزیرِ معاشیات نے آرمی کے دو ڈویژن نئے بھرتی کرنے کی بجائے بجٹ صنعتوں کے لیے مختص کر دیا تھا، اب بھٹو صاحب وزیر معاشیات کو عوامی جلسوں میں آڑے ہاتھوں لینے لگے۔

یحییٰ خان نے الیکشن کی ممکنہ تاریخ کا اعلان کر دیا۔ اکتوبر انیس سو ستر میں الیکشن ہونے تھے۔ ایک مسئلہ تھا کہ بنگالی ووٹرز کی تعداد تین کروڑ دس لاکھ جبکہ مغربی پاکستان میں ڈھائی کروڑ ووٹرز رجسٹرڈ تھے۔ بھٹو کو اقتدار کے ایوانوں میں پہنچنے سے روکنے کے لیے تمام اپوزیشن پارٹیز سے زیادہ خطرہ بنگالی ووٹرز سے تھا جو تعداد میں زیادہ اور مجیب الرحمٰن کی حمایت میں متحد تھے۔ مغربی پاکستان کے ووٹرز تعداد میں کم اور مختلف پارٹیوں میں بٹے ہوئے تھے۔ دسمبر سنہ انیس سو ستر میں الیکشنز ہوئے، پیپلز پارٹی نے اکیاسی اور عوامی لیگ نے ایک سو ساٹھ سیٹیں حاصل کیں۔ مجیب الرحمٰن کے پاس بھٹو صاحب سے دوگنا نشستیں تھیں۔ بھٹو صاحب نے پنجاب اسمبلی کے باہر ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم مرکز میں حکومت بنائیں یا نہ بنائیں لیکن میری ایک جیب میں پنجاب اور دوسری جیب میں سندھ کی چابیاں ہیں، میرے تعاون کے بغیر کوئی مرکزی حکومت نہیں چل سکتی۔

لیکن مجیب الرحمٰن کو بھٹو کی مدد کی کوئی ضرورت نہیں تھی، عوامی لیگ کے پاس ایک واضح اکثریت تھی اور یحییٰ خان نے مجیب کو ’پاکستان کا اگلا وزیرِ اعظم‘ کہنا شروع کر دیا تھا۔ پندرہ فروری 1971ء کو اسمبلی کا اجلاس ڈھاکہ میں ہونا تھا لیکن بھٹو صاحب کو ڈر تھا کہ اسمبلی کا اجلاس ہوا تو عوامی لیگ اپنی اکثریت کے بل بوتے پر اپنا اسپیکر منتخب کروا لے گی اور اپنے چھ نکاتی ایجنڈے پر عمل شروع کر دے گی۔ بھٹو کے اصرار پر یحییٰ خان نے اسمبلی کا اجلاس تین مارچ تک موخر کر دیا۔

بھٹو صاحب نے اسمبلی کے اجلاس میں شرکت سے صاف انکار کر دیا اور پیپلز پارٹی کے منتخب نمائندوں کو ڈھاکہ جانے کی صورت میں ٹانگیں توڑ دینے کی دھمکی دی، مزید برآں سب ممبرانِ اسمبلی کو ہدایت کی گئی کہ اپنے تحریری استعفے بھٹو صاحب کو جمع کروا دیے جائیں۔ مختلف جلسوں میں بھٹو نے ملفوف انداز میں مجیب کو مشرقی پاکستان دینے اور خود مغربی پاکستان کا کنٹرول سنبھالنے کا مشورہ دیا۔ مجیب نے جلسوں میں اقتدار کی منتقلی کا مطالبہ شروع کر دیا اور بھٹو صاحب کو اس منتقلی میں رکاوٹ قرار دیا۔ ایک ڈیڈ لاک کی صورتحال بن گئی تھی۔ بھٹو صاحب نے اس ڈیڈ لاک سے نکلنے کے لیے دو آپشن دیے۔ پہلا یہ کہ اسمبلی کا اجلاس مزید موخر کر دیا جائے، دوسرا یہ کہ اگر اسمبلی کا اجلاس بلانا ہی ہے تو ایک سو بیس دن کے اندر اندر آئین بنانے کی شرط ختم کر دی جائے۔ بھٹو صاحب کے دباؤ میں آ کر، یحییٰ خان نے اسمبلی کا اجلاس ایک غیر معینہ مدت کے لیے موخر کر دیا۔

مجیب الرحمٰن آگ بگولا ہو گئے اور یکم مارچ کو سات روزہ ہڑتال کا اعلان کر دیا۔ ڈھاکہ کی گلیاں لوگوں سے بھر گئیں، مظاہرے ہوئے اور بے گناہ لوگ فائرنگ سے مارے گئے۔ مجیب نے عوام، بشمول سرکاری اہلکاروں کو ’عوام دشمن قوتوں‘ کا ساتھ نہ دینے کا پیغام جاری کیا۔ سب سرکاری و ذیلی دفاتر پورا ہفتہ بند رہے۔ صرف ملٹری کے طیارے تھے جو مغربی پاکستان سے پنجابی و پٹھان فوجی بھر بھر کر مشرقی پاکستان پہنچا رہے تھے۔

ایڈمرل احسن، جو کہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے سٹاف میں اور قائداعظم محمد علی جناح کے ملٹری سیکرٹری رہ چکے تھے، اس وقت مشرقی پاکستان کے گورنر تھے۔ انہوں نے ہڑتالی بنگالیوں پر فائرنگ کے احکامات جاری کرنے سے انکار کر دیا تو ان کو ہٹا دیا گیا۔ چھ مارچ کو یحییٰ خان نے پچیس مارچ کو ڈھاکہ میں اسمبلی کا اجلاس بلانے کا اعلان کر دیا۔ اگلے دن ڈھاکہ کے ریس کورس میدان میں دس لاکھ بنگالیوں کے جمِ غفیر سے خطاب کرتے ہوئے مجیب نے کہا کہ ابھی بھی وقت ہے کہ ہم اپنے معاملات پُر امن انداز میں حل کریں اور بھائیوں کی طرح رہیں۔مارچ کا پورا مہینہ مجیب اور بھٹو عوامی جلسوں میں ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے رہے۔ اکبر بگٹی اُن دنوں ڈھاکہ میں تھے اور ان کے اصرار پر یحییٰ خان مجیب سے ملنے ڈھاکہ چلے گئے۔ بگٹی صاحب کا خیال تھا کہ مجیب الرحمٰن متحدہ پاکستان پر حکومت کرنے کو تیار ہیں لیکن بھٹو صاحب جنرل ایوب سے بھی زیادہ بے رحم واقع ہوئے ہیں۔ مغربی پاکستان کی باقی چھوٹی سیاسی جماعتیں بھی بھٹو صاحب کی مذمت کر رہی تھیں۔انہی دنوں بھٹو صاحب نے یحییٰ خان سے مطالبہ کیا کہ ملک کے دونوں حصوں میں دونوں اکثریتی پارٹیوں کو اقتدار منتقل کر دیا جائے۔ کیا بھٹو صاحب ایک ملک میں دو حکومتیں چاہتے تھے؟

اکیس مارچ سنہ انیس سو اکہتر کو بھٹو صاحب اپنے قریبی مشیرانِ کرام کے ساتھ ڈھاکہ پہنچ گئے تا کہ یحییٰ اور مجیب کے ساتھ مذاکرات کیے جا سکیں۔ ملٹری سیکیورٹی میں بھٹو صاحب انٹرکونٹینینٹل ہوٹل پہنچے تو وہاں مشتعل بنگالیوں کے ایک مجمع نے ان پر طعن و تشنیع کی۔ شام میں بھٹو کی یحییٰ خان سے ملاقات ہوئی جس میں یحییٰ نے مجیب کی تجاویز کے بارے میں بتایا کہ مارشل لاء اٹھا لیا جائے، اسمبلی کا سیشن بلایا جائے اور مغربی و مشرقی پاکستان کی دو مختلف کمیٹیاں آئین کی تشکیل کے لیے بنائی جائیں اور ایک متفقہ آئین کی منظوری تک بنگلہ دیش (مشرقی پاکستان) کو چھ نکات کی بنیاد پر خودمختاری دی جائے، یحییٰ خان بطور صدر ملک کے دونوں حصوں کی سربراہی جاری رکھیں۔ بھٹو صاحب نے یہ مطالبات ماننے سے انکار کر دیا۔ کچھ مورخین کے خیال میں یحییٰ نے بھٹو کی ضد کی آڑ میں اقتدار کی منتقلی روکے رکھی، کچھ کہتے ہیں کہ بھٹو نے شدید پریشر ڈال کر یحییٰ کو اقتدار منتقل نہیں کرنے دیا کیونکہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ مغربی پاکستان کے اکثریتی لیڈر کو ناراض نہیں کر سکتی تھی. شاید دونوں کسی نہ کسی حد تک ایک دوسرے کو اپنے مقاصد کے حصول میں استعمال کر رہے تھے۔

بائیس مارچ کو بھٹو، یحییٰ اور مجیب مذاکرات کے لیے مل بیٹھے تو مجیب نے اپنے مطالبات کی منظوری تک مذاکرات شروع کرنے سے انکار کر دیا۔ پاکستان کا مستقبل ان تینوں کے ہاتھ میں تھا۔بغیر کسی نتیجہ پر پہنچے، یہ تینوں اٹھ کھڑے ہوئے۔ صدارتی محل سے باہر نکلتے ہی مجیب کا لہجہ ایک دم سے بدل گیا۔ بھٹو صاحب کا بازو پکڑ کر مجیب نے ملتجیانہ انداز میں کہا،”بھٹو صاحب حالات بہت خراب ہیں۔ اس سے پہلے کہ کوئی بہت بڑا سانحہ ہو جائے آپ مغربی پاکستان سنبھالیں، میں مشرقی پاکستان دیکھ لیتا ہوں۔ مجیب نے بھٹو کو آرمی سے محتاط رہنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ آج یہ لوگ میرے پیچھے پڑے ہیں، کل یہ آپ کو بھی نہیں چھوڑیں گے۔“ مجیب کے جانے کے بعد بھٹو صاحب یحییٰ سے دوبارہ ملے مگر دونوں کا کسی تجویز پر اتفاق نہ ہو سکا.

تیئس مارچ سنہ انیس سو اکہتر کی صبح جب مغربی پاکستان میں قراردادِ پاکستان کی منظوری کا جشن منایا جا رہا تھا، ڈھاکہ کے اخبارات نے بنگلہ دیش کے قیام کے عنوان سے خصوصی ضمیمے نکالے۔ مجیب الرحمٰن نے بنگلہ دیش بنانے کا اعلان کر دیا تھا۔ چوبیس مارچ کی صبح عوامی لیگ کے کارکنوں کی گمشدگی اور اموات کی خبریں پہنچنا شروع ہو گئیں۔مجیب کی خفیہ درخواست پر بھٹو اپنے چند ساتھیوں سمیت ڈھاکہ میں رک گئے۔ شام میں غلام مصطفیٰ کھر نے مجیب سے ملاقات کی اور بھٹو کو رپورٹ دی کہ مجیب چٹاگانگ میں فائرنگ کے واقعات پر پریشان تھے۔ اسی رات مجیب نے اپنے حقوق کے حصول کے لیے مردانہ وار لڑنے کا بیان جاری کیا۔

پچیس مارچ کی شب آپریشن سرچ لائٹ کا آغاز ہو گیا، ملٹری ٹینک ڈھاکہ کی سڑکوں پر نکل آئے اور ایک ایسی جنگ کا آغاز ہو گیا جو بالآخر پاکستان کی تقسیم پر منتج ہوا۔لیکن چھبیس مارچ کو جب بھٹو اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کراچی ایرپورٹ پہنچے تو عوام کے جمِ غفیر سے بس اتنا ہی کہا کہ: اللہ کے کرم سے، بالآخر پاکستان بچا لیا گیا ہے۔ مجیب کو گرفتار کر کے کوٹ لکھپت جیل میں قید کر دیا گیا۔ آپریشن سرچ لائٹ کو بھٹو کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ بلکہ مشرقی پاکستان میں جاری خانہ جنگی میں تعاون کے لیے بھٹو نے تہران میں شاہِ ایران سے ملاقات بھی کی۔

خانہ جنگی جاری تھی، لاکھوں بنگالی بارڈر پار انڈیا میں چلے گئے جہاں اندرا گاندھی کو ان بنگالی مہاجرین کی دیکھ بھال پر ماہانہ کروڑوں روپے خرچ کرنے پڑ رہے تھے۔ یہ اخراجات سنہ پینسٹھ کی جنگ کے تمام تر اخراجات سے بھی زیادہ تھے۔ اندرا گاندھی کو یحییٰ، بھٹو اور امریکی صدر نکسن تینوں ناپسند کرتے تھے اور اپنی نجی محفلوں میں اسے ’بھینس، کتیا‘ جیسے نازیبا القابات سے نوازا کرتے تھے۔بھارت نے اپنی فوجیں بارڈر کے قریب لانا شروع کر دی تھیں کیونکہ اس وقت تک اندرا گاندھی کو سوویت یونین کی طرف سے تعاون کی یقین دہانی کرا دی گئی تھی۔ بنگال میں جاری خانہ جنگی کے ساتھ ساتھ بھارت کے ساتھ ایک نئی جنگ کے امکان نے یحییٰ خان کو ڈرا دیا اور اس نے بھارتی سفیر کے ذریعہ اندرا کو پیغام بھجوایا کہ ہم مجیب کے چھ نکات کو فوری طور پر نافذ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ بھٹو صاحب چین گئے جہاں چو این لائی اور ماؤزے تنگ نے بھارت سے جنگ کی صورت میں پاکستان کو مکمل تعاون کا یقین دلایا۔

نومبر میں بھارتی افواج نے مشرقی پاکستان کا بارڈر کراس کر لیا۔ پاکستان کی طرف سے مدد کی تمام تر درخواستوں کے باوجود چین نے کوئی مدد نہ کی۔ بائیس نومبر کی صبح بھارتی ٹینک کلکتہ کا بارڈرد کراس کر کے جیسور کی طرف بڑھنے لگے۔ دو دن بعد بھٹو صاحب کو صدارتی سیکرٹریٹ سے ایک ٹاپ سیکرٹ پیغام ملا کہ کچھ ہی دن میں ہم آپ کو وزیرِاعظم بنا دیں گے، مشرقی پاکستان میں بھارتی حملہ کی کمر توڑنے کے بعد آپ کو چاہیے کہ مشرقی انڈیا پر قبضہ کر لیں جس سے ہمیں چین اور کشمیر تک رسائی حاصل ہو جائے گی بلکہ سکھ بھی خالصتان بنا لیں گے (حیرت ہے کہ آٹھ مہینوں سے جاری خانہ جنگی ختم کرنے میں ناکامی کے باوجود پاکستان کے مقتدر حلقے مشرقی بھارت پر قبضے کے بارے میں پر امید تھے)۔

پچیس نومبر کو یحییٰ اور بھٹو کی ملاقات ہوئی جس میں یحییٰ نے بھٹو کو وزیرِ اعظم بننے اور خود صدر رہنے کی تجویز دی جو کہ بعد میں بھٹو نے مسترد کر دی۔ مشترکہ معاہدے کے تحت ایک حکومت تشکیل پائی جس میں وزیراعظم بنگالی نورالامین اور ڈپٹی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو تھے۔

جنگ عروج پر تھی، دونوں ملکوں کے جنگی طیارے ایک دوسرے کے ایرپورٹس، ریلوے لائنوں اور فوجی تنصیبات کو نشانہ بنا رہے تھے۔ سات دسمبر کو جیسور پر قبضے کے بعد بھارتی افواج ڈھاکہ کی طرف بڑھ گئیں۔ آٹھ دسمبر کو بھٹو صاحب سفارتی سطح پر پاکستان کے لیے مدد لینے نیویارک روانہ ہوئے اور روانگی سے قبل کراچی ایرپورٹ پر اپنے چاہنے والوں کے جم غفیر سے وعدہ کیا کہ بھارتی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے ہم ہزار سال تک جنگ لڑیں گے۔ نیویارک میں بھٹو کی ملاقات ہنری کسنجر سے ہوئی، یہ ملاقات اقوامِ متحدہ میں امریکہ کے سفیر جارج بش کے ہاں ہوئی۔ ہنری کسنجر نے اس ملاقات کے بارے میں لکھا ہے کہ ادھر میرے سامنے ایک شائستہ اور حاضر جواب شخص بیٹھا تھا جو بلاشبہ ایک عالمی معیار کا لیڈر تھا۔ بالآخر پاکستان کے پاس ایک ایسی قیادت تھی جو عالمی محاذ پر پاکستان کی بھرپور نمائندگی کر سکے۔کسنجر نے بھٹو کو مشورہ دیا کہ وقت بہت کم ہے، پاکستان صرف بیان بازی سے جنگ نہیں جیت سکتا، اگلے دو دن بہت اہم ہیں۔

اگلے دن بھٹو صاحب نے اقوامِ متحدہ میں ایک طویل، مدلل اور جذباتی تقریر کی جس کا لب لباب یہ تھا کہ پاکستان ایک نظریہ ہے، اگر اسے جسمانی طور پر نقصان پہنچا تو بھی یہ قائم رہے گا، ریاستوں سے بھی انسانوں کی طرح غلطیاں ہوتی ہیں، اگر ہم سے کچھ غلطیاں ہوئی ہیں تو ہم ان کا سدباب کرنے کو تیار ہیں۔بھٹو صاحب نے دہاڑتے ہوئے کہا کہ یقین کیجیے میکسیکو امریکہ پر قبضہ کر سکتا ہے، ڈنمارک جرمنی پر قبضہ کر سکتا ہے، فن لینڈ سوویت یونین پر قبضہ کر سکتا ہے لیکن بھارت کسی بھی صورت پاکستان پر قبضہ نہیں کر سکتا۔ پھر بھارتی وزیر خارجہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جناب آپ مشرقی پاکستان پانچ دس سال کے لیے لے بھی لیں تو بھی ہم دوبارہ اسے آپ سے چھین لیں گے۔

کہا جاتا ہے کہ نکسن نے اپنا ساتواں بحری بیڑہ بنگال کی طرف بھیجا تو اس کا مقصد وہاں موجود امریکیوں کو بحفاظت نکالنا تھا۔ کسنجر نے بھٹو کو یقین دہانی کروائی کہ مغربی پاکستان پر حملہ کی صورت میں امریکہ پاکستان کا ہر ممکن دفاع کرے گا۔ اب تک اقوامِ متحدہ میں موجود پوری دنیا کے سفیر جان چکے تھے کہ سقوطِ ڈھاکہ بس چند دنوں کی بات ہے۔

پندرہ دسمبر کو بھٹو نے اقوامِ متحدہ میں اپنا تیسرا اور آخری خطاب کیا، یہ ایک بہت جذباتی تقریر تھی: کیا ہو گا اگر ڈھاکہ پر قبضہ ہو جائے؟ کیا ہو گا اگر پورے مشرقی پاکستان پر قبضہ ہو جائے؟ میں کہتا ہوں کہ کیا ہو گا چاہے پوری مغربی پاکستان پر قبضہ ہو جائے۔ ہم ایک نیا اور بہتر پاکستان بنائیں گے۔ ہم ایک ہزار سال تک جنگ لڑیں گے۔میں بزدل نہیں ہوں، میں نے پوری زندگی میں بزدلی نہیں دکھائی، مجھ پر حملے ہوتے رہے ہیں۔ لیکن میں آج سیکیورٹی کونسل سے جا رہا ہوں، میں اس لیے جا رہا ہوں کہ یہاں بیٹھنا میری اور میری قوم کی توہین ہے۔آپ جارحیت کو قانون بنائیں، میں اس کا حصہ نہیں بنوں گا۔ ہم جنگ لڑیں گے، ہم واپس جائیں گے اور جنگ لڑیں گے۔ میری قوم میرا انتظار کر رہی ہے،آپ اپنی سیکورٹی کونسل اپنے پاس رکھیں۔ بھٹو نے اپنے نوٹس پھاڑے اور اٹھ کر چل دیے۔

بھٹو نے شیخ مجیب الرحمٰن کے چھ نکات ماننے سے اس بنیاد پر انکار کر دیا تھا کہ اس سے پاکستان ٹوٹ جائے گا۔ ووٹ کو عزت دیتے ہوئے اگر اقتدار مجیب کے حوالے کر دیا جاتا تو پاکستان ٹوٹتا یا نہیں، یہ ایک بحث طلب موضوع ہے۔ لیکن مجیب کو اقتدار نہ دے کر بہرحال پاکستان متحد نہ رہ سکا۔ سولہ دسمبر کو جنرل نیازی نے ہتھیار ڈال دیے۔

Follow us on Facebook

Related Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *