Homo Deus by Yuval Noah Harari

Book Review : Homo Deus by Yuval Noah Harari

Book Review : Homo Deus by Yuval Noah Harari ہومو ڈیوس، ہراری

تقریباَ ہر اچھے بک اسٹور پرYuval Noah Harari کی کتاب Sapiens دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ ابھی تک اس کمبخت کی کتاب پر پابندی کیوں نہیں لگی؟ اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں؛ ایک تو یہ کہ کسی مومن صفت اعلیٰ سرکاری عہدہ دار کی نظر سے شاید یہ کتاب اب تک نہ گزری ہو، دوسری یہ کہ شاید ہمارے معاشرے میں کتاب پڑھنے والے طبقے میں اپنے وراثتی نقطہ نظر سے ہٹ کر کچھ اور پڑھنے کی برداشت ابھی تک موجود ہے۔ Sapiens انسان کے لاکھوں سالہ سفر کو بہت خوبصورتی سے بیان کرتے ہوئے زمانہ حال تک کا قصہ بیان کرتی ہے۔ لیکن کتاب کے اختتام پر قاری کو اپنے ماضی سے آگاہی ہونے کے ساتھ ساتھ مستقبل کے بارے میں ایک تشنگی سی برقرار رہتی ہے۔ اس تشنگی کے تدارک کےلیے اسی مصنف کی دوسری کتاب Homo Deus پڑھی جا سکتی ہے۔ اسی کتاب پر مختصر تبصرہ پیشِ خدمت ہے۔

حراری کتاب کے آغاز میں کہتا ہے کہ پچھلے کئی ہزار سال سے زمانہ حال تک انسانیت کے ایجنڈے پر، اپنی بقا کو یقینی بنانے کےلیے، تین مسائل تھے۔ بیماری، قحط اور جنگ۔ ان تینوں عفریتوں نے تاریخ کے مختلف عرصوں میں کروڑوں انسانی جانوں پر ہاتھ صاف کیا۔ لیکن اب انسانیت نے ان تینوں پر قابو پا لیا ہے۔ اب انسانیت کے ایجنڈے پر موت کو شکست دینا ہے۔ بظاہر یہ ایک ناممکن امر لگتا ہے لیکن آج کے انسان کے پاس وہ صلاحیتیں ہیں جو پہلے زمانوں میں صرف دیوتائوں کی صفت سمجھی جاتی تھیں۔

“Certain traditional abilities that were considered divine for many millennia have today become so commonplace that we hardly think about them. The average person now moves and communicates across distances much more easily than the Greek, Hindu or African gods of old.”

کیا انسان موت کو شکست دے سکتا ہے اور انسان کا مستقبل کیا ہے، اس معمہ کو حل کرنے کےلیے مصنف نے انسانیت کی تاریخ کو تین حصوں میں تقسیم کیا۔

ا۔ Sapiens یعنی انسانوں کا دنیا پر اختیار حاصل کرنا۔ اس مرحلے میں انسان نے پیداوری وسائل بشمول چرند پرند و درند کو تسخیر کیا اور اپنی بقاء کی جنگ میں جانوروں کو بےرحمی سے نہ صرف یہ کہ قتل کیا بلکہ اپنا مطیع و فرماںبردار بننے پر مجبور کیا۔ اسی طرح نباتات و حیوانات کو اپنے مقاصد کے حسول کےلیے اپنے حسبِ منشاء استعمال کیا۔

ب۔ دنیا کو تسخیر کر لینے کے بعد انسانیت کو ضرورت پیش آئی کہ اپنی زندگی کو کوئی معنی دیا جائے۔ اس مقصد کےلیے انسان نے مختلف کہانیاں گھڑیں۔ ان کہانیوں کا فائدہ یہ ہوا کہ انسانیت نے اپنی بقاء کےلیے ایک مشترکہ جدوجہد کی، زندہ رہنے کے کچھ اصول و ضوابط مقرر کیے۔

“As long as all Sapiens living in a particular locality believe in the same stories, they all follow the same rules, making it easy to predict the behaviour of strangers and to organise mass-cooperation networks. Sapiens often use visual marks such as a turban, a beard or a business suit to signal ‘you can trust me, I believe in the same story as you’. Our chimpanzee cousins cannot invent and spread such stories, which is why they cannot cooperate in large numbers.”
لیکن وقت گزرنے کے ساتھ جب ایک کہانی کی افادیت ختم ہوئی اور لوگوں کو اس پر اعتبار کم ہونا شروع ہوا تو انسانیت نے کوئی اور کہانی گھڑ لی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اپنی ہی گھڑی ہوئی کہانی کو انسانیت نے سچ تسلیم کرنا شروع کر دیا، بلکہ اس کے تحفظ کےلیے لاکھوں انسانوں نے ایک دوسرے کا بیہمانہ قتل بھی کیا۔
“Corporations, money and nations exist only in our imagination. We invented them to serve us; how come we find ourselves sacrificing our lives in their service?”
دلچسپ امر یہ ہے کہ حراری نے ان ‘کہانیوں’ کے تذکرہ میں مذہب، فلسفہ، وطنیت اور بادشاہت کے ساتھ ساتھ کمیونزم اور لبرل ازم کو بھی شامل کیا ہے۔

ج۔ اب ہم جس عہد میں جی رہے ہیں، انسانیت دنیا پر سے اپنا کنٹرول کھو رہی ہے اور رفتہ رفتہ مشینیں یا روبوٹ انسانوں کی جگہ لیتے جا رہے ہیں۔

“True, at present there are numerous things that organic algorithms do better than non-organic ones, and experts have repeatedly declared that something will ‘for ever’ remain beyond the reach of non-organic algorithms. But it turns out that ‘for ever’ often means no more than a decade or two.”

مثال کے طور پر گاڑیاں تو رہیں ایک طرف، اب بغیر پائلٹ اُڑنے والے ڈرون دستیاب ہیں۔ کمپیوٹرائزڈ ٹیسٹ ڈاکٹر کو بتاتے ہیں کہ اس مریض کو دوائی کونسی دینی ہے۔ حتیٰ کے اسٹاک مارکیٹ میں اربوں ڈالر مالیت کے تجارتی سودے بھی اب روبوٹس کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں حراری نے ایک بہت دلچسپ مثال دی ہے۔ تیئس اپریل سنہ دو ہزار تیرہ دوپہر ایک بج کر سات منٹ پر شامی ہیکرز نے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ کا آفیشل ٹویٹر اکائونٹ ہیک کر کے ٹویٹ کیا کہ وائٹ ہائوس پر حملہ ہوا ہے اور صدر اوباما زخمی ہیں۔ تجارتی کمپنیوں کے الگورتھمز، جنہیں آسانی کےلیے روبوٹ کہا جا سکتا ہے، ٹویٹس پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ جب ایک معتبر ادارے نے وائٹ ہائوس پر حملہ کی خبر دی تو ان روبوٹس نے اندھادھند شیئرز بیچنا شروع کر دیے۔ کمپنیوں کو تین منٹ میں ایک سو چھتیس بلین ڈالر کا خسارہ ہو گیا۔ ایک بج کر دس منٹ پر ایسوسی ایٹڈ پریس نے وضاحت کی کہ اکائونٹ ہیک ہو گیا تھا، روبوٹس نے خود بخود دوبارہ شیئرز خریدنے شروع کر دیے اور صرف تین منٹ میں مارکیٹ دوبارہ پہلے والی پوزیشن پر آ گئی۔

ایک ایسی دنیا میں جہاں علاج معالجہ، تجارت، کھیتی باڑی، پیغامات کی ترسیل اور آمدورفت اور ان جیسے بےشمار کام مشینیں کر رہی ہوں، سب سے قیمتی چیز انسان کا ڈیٹا ہے جسے پڑھ کر کمپیوٹر انسان کو سمجھتا اور اس حساب سے ردِعمل دیتا ہے۔ لیکن یہ سب سے قیمتی چیز انسان مفت میں بانٹے جا رہا ہے۔

In the high days of European imperialism, conquistadors and merchants bought entire islands and countries in exchange for coloured beads. In the twenty-first century our personal data is probably the most valuable resource most humans still have to offer, and we are giving it to the tech giants in exchange for email services and funny cat videos.

بہت سے لوگ اب اس امر کی حمایت کر رہے ہیں کہ دنیا پر مشینیں حکومت کریں، یہ مشینیں انسان کو ویسے ہی اپنا مطیع بنا کر رکھیں جیسے انسان نے مویشیوں، پرندوں کو اپنے کنٹرول میں رکھا ہے۔ یہ مشینیں فیصلہ کریں کہ کون سا انسان سسٹم کےلیے فائدہ مند ہے اور سسٹم کے وسیع تر مفاد میں کس کی زندگی کی قربانی دی جا سکتی ہے۔ کونسی خواہش انسان کے دل میں پیدا ہونی چاہے، انسان کیا کھائے، کیا پیے اور کیسے سوئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ کاہل، بددیانت اور بےفائدہ انسان تلف کر دیے جائیں گے اور صرف سپر ہیومنز باقی بچیں گے جو مشینوں کی مدد موت کو شکست دے دیں گے۔ خیر، کافی حد تک ابھی بھی مشینیں ہی ہماری زندگی کے بیشتر فیصلے کر رہی ہیں۔

بہرحال یہ ایک عمدہ کتاب ہے۔ اندازِبیان بہت پرکشش ہے۔ دلائل کو ایک روانی کے ساتھ دلچسپ انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ پڑھنی چاہیے۔

اسی کتاب میں سے ایک مضمون کا ترجمہ پڑھیں

Follow us on Facebook

Related Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *