Imran Khan aur Pinddat Jawahir Lal Nehru

Imran Khan, chairman of Pakistan Tehreek e Insaf, issued a controversial statement while commenting on PSL-2’s final being conducted in Lahore. Though some well established players also agreed to come to Pakistan amid security concerns, for this final, many unknown, insignificant & less famous foreign players were arranged from all around the world to give an impression of International League. Imran termed them as ‘Phateechar’ and ‘Railo-Kattay’ players. This enraged cricket lovers and his political opponents alike. Following is my take on his comment, published at IBC-Urdu’s blogs.

مولانا ابوالکلام آزاد کا شمار برصغیر کے ان چند سیاستدانوں میں ہوتا ہے جنہوں نے پچھلی صدی میں متحدہ ہندوستان کی تاریخ کا دھارا موڑنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔آپ 1939 سے 1946 تک کانگریس کے صدر رہے اور اس دوران برطانوی راج سے آزادی کی جنگ صف اول میں رہ کر لڑی۔ متحدہ ہندوستان کی تاریخ کی آخری اور ہنگامہ خیز دہائی میں مولانا ، انگریز سامراج سے ہونے والے مذاکرات اور جدوجہد کے ناصرف عینی شاہد رہے بلکہ کانگریس کے صدر کی حیثیت سے ان میں بڑھ چڑھ کر حصہ بھی لیا۔ تقسیم ہندوستان کے تقریباََ بارہ برس بعد مولانا نے آزادیِ ہند کی چشم کشا روداد India Wins Freedom کے نام سے لکھی۔

اس کتاب میں مولانا نے بہت تفصیل سے ذکر کیا ہے کہ مسلم لیگ ہندوستان کے بٹوارے کے حق میں تھی اور متحدہ ہندوستان کی ہر اسکیم کے خلاف تھی جبکہ کانگریس متحدہ ہندوستان کی آزادی کی تحریک چلا رہی تھی اور انگریز ان دونوں بڑی تنظیموں کے درمیان موجود اختلافات کو بنیاد بنا کر برصغیر سے جانے میں لیت و لعل سے کام لے رہے تھے۔

جب بھی انگریزوں اور برصغیر کے سیاسی نمائندوں کے درمیان مذاکرات ہوتے تو کبھی مسلم لیگ اور کبھی کانگریس اپنی بات پر اڑ جاتی اور مذاکرات ایک بند گلی سے آگے نہ نکل سکتے۔بہرحال دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ اور چین نے انگریزوں پر برصغیر چھوڑنے کے لیے دباؤ ڈالا (جی ہاں، پاکستان بنانے میں بھی امریکہ کا ہاتھ تھا، تبھی تو کہا جاتا ہے کہ جو کروا رہا ہے، امریکہ کروا رہا ہے)۔انگریزوں نے کیبنٹ مشن ہندوستان بھیجا اور دونوں متحارب سیاسی پارٹیوں کو کہہ دیا گیا کہ اگر آپ لوگ مل بیٹھ کر کسی بات پر متفق نہیں ہوتے تو انگریز اپنی مرضی سے کوئی بھی لائحہ عمل استعمال کرکے ہندوستان چھوڑ دیں گے۔

قصہ مختصر، بہت بحث مباحثے اور غوروفکر کے بعد یہ دونوں سیاسی جماعتیں ایک ایسے پلان پر راضی ہو گئیں جن سے انگریز ہندوستان تقسیم کیے بغیر چلے جاتے اور یہ دونوں پارٹیاں متحدہ ہندوستان پر حکومت کرتیں۔ یہ کئی دہائیوں کی جدوجہد کے بعد حاصل ہونے والی ایک ایسی کامیابی تھی جس پر کانگریس کے اراکین جشن منا رہے تھے کیونکہ ان کا دیرینہ مطالبہ کہ انگریز ہندوستان تقسیم کیے بغیر چلے جائیں، پورا ہونے جا رہا تھا۔

مسلم لیگ اس پلان پر خوش نہیں تھی مگر اس کے پاس اسے تسلیم کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھاکیونکہ مسلم لیگ کے تمام بنیادی اعتراضات کیبنٹ مشن پلان میں دور کر دیے گئے تھے۔اب متحدہ ہندوستان کی آزادی میں کوئی رکاوٹ درپیش نہیں تھی۔ایسے موقع پر پنڈت جواہر لعل نہرو نے ایک غلطی کی۔ایک پریس کانفرنس میں صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے نہرو نے بیان دیا کہ کیبنٹ مشن پلان کانگریس نے انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنے کے لیے منظور کیا ہے ، ایک دفعہ انگریز چلے گئے تو کانگریس (ہندوستان کی سب سے بڑی پارٹی ہونے کی حیثیت سے )اس پلان میں ترامیم کر سکتی ہے۔مسلم لیگ ، جو کہ اس پلان پر پہلے ہی خوش نہیں تھی، اس بیان کو لے اڑی اور ایک طوفان کھڑا کر دیا کہ ابھی تو ہمارے تمام مطالبات اس پلان میں تسلیم کر دیے گئے ہیں مگر اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ انگریزوں کے جانے کے بعد کانگریس اپنے وعدے پورے کرتی ہے یا نہیں؟

نہرو کے بیان کو کانگریس کی دوغلی ذہنیت کا ثبوت قرار دیتے ہوئے، مسلم لیگ نے کیبنٹ مشن پلان کو مسترد کرتے ہوئے دوبارہ ہندوستان کی آزادی کا مطالبہ کر دیا۔ نہرو کے اس بیان کے بعد کانگریس اور انگریز دونوں بیک فٹ پر چلے گئے کیونکہ مسلم لیگ کو تقسیم ہندوستان کے ایک مطالبے کا اخلاقی جواز مل چکا تھا۔

نہرو کے اس بیان کو جناح اور مسلم لیگ کے دوسرے قائدین نے اخبارات میں اتنا اچھالا کہ انگریزوں اور کانگریس کے پاس تقسیم ہندوستان کو تسلیم کرنے کے علاوہ اور چارہ باقی نہ رہا۔مولانا ابوالکلام آزادبہت مایوسی اور آزردگی سے لکھتے ہیں کہ اس بات کے بہت امکانات ہیں کہ اگر نہرو ایسا غیر ذمہ دارانہ بیان نہ دیتے تو شاید آج ہندوستان کی تاریخ کچھ اور ہوتی۔

تحریک انصاف کے قائد عمران خان اکثر سوچے سمجھے بغیر بیانات دے دیتے ہیں اور بعد میں ان کے حمایتی سوشل میڈیا پر صفائی دیتے ہیں کہ خان کھرا آدمی ہے، سیاست کرنی نہیں آتی اور اس کے جو جی میں آتا ہے، کہہ دیتا ہے۔ عرض یہ ہے کہ ایک مقبول سیاستدان کے بیانات کو دنیا اس ملک کی عمومی سوچ کی عکاسی سمجھتی ہے۔ ہمیں ایک گھاگ اور زیرک سیاستدان کی ضرورت ہے جو سوچ سمجھ کر بولے کیونکہ بعض اوقات ایک غیر ذمہ دارانہ بیان ہی کسی ملک کی تقدیر بگاڑنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔

Click here to read the blog

Related Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *