سندھ ساگر اور قیام پاکستانAn excellent book – Indus Saga by Aitzaz Ahsan

قیامِ پاکستان کے حوالہ سے مورخین میں کئی نظریاتی اختلافات ہمیشہ سے موجود رہے ہیں ۔ کچھ کی نظر میں پاکستان انگریزوں نے سوویت یونین اور انڈیا کے درمیان ایک بفر سٹیٹ کے طور پر بنایا، کچھ کے خیال میں یہ جناح کی ہٹ دھرمی کا نتیجہ ہے اور کچھ کی رائے ہے کہ نہیں یہ دراصل تاجِ برطانیہ کی تقسیم کرو اور حکومت کرو پالیسی کا ہی شاخسانہ ہے۔ بھلا ایک ہزار سال سے اکٹھے رہنے والے ہندو مسلمانوں کو اب اچانک ایسا کیا مسئلہ درپیش ہوا کہ انہوں نے علیحدہ ملک بنانے کی ٹھان لی؟ ان مفروضوں کا جواب ہمارے دانشور اور ہی طرح کے مفروضوں سے دیتے ہیں، کچھ دو قومی نظریے کا حوالہ دیتے ہیں، کچھ جہادِ ہندوستان کی طرف اشارہ کرتے ہیں ، مولانا ابوالکلام آزاد اور کچھ دوسرے مورخین اس تقسیم کی ذمہ داری سردار پٹیل اور نہرو کی تنگ نظری پر ڈالتے ہیں۔ غرضیکہ جتنے منہ کم و بیش اتنی ہی باتیں ہیں۔

مشہور قلم کار، قانون دان اور سیاستدان اعتزاز احسن نے اپنی کتاب انڈس ساگا میں اس مسئلہ کی وضاحت ایک بالکل مختلف نقطہ نظر سے کی ہے۔

Indus Saga کا اردو ترجمہ ْسندھ ساگر اور قیامِ پاکستان ٗ کے نام سے دوست پبلیکیشنز نے شائع کیا ہے۔ کتاب کو بنیادی طور پر تین حصوں اور پھر ہر حصہ کو مختلف ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے، لیکن یہ تقسیم برصغیر کی تقسیم کی بہ نسبت منظم اور مربوط ہے۔ ہندوستان کو اعتزاز احسن نے دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ وادی سندھ اور گنگا جمنا تہذیب۔ وادیِ سندھ کا علاقہ کم وبیش وہی ہے جو آج کے پاکستان کا ہے۔ اور اس علاقہ کے رہنے والوں کو اعتزاز احسن نے سندھ واسی کا نام دیا ہے۔

دو خطے

اعتزاز احسن کے بقول چھ ہزار سال کی معلوم تاریخ میں سے ساڑھے پانچ ہزار سال وادیِ سندھ بقیہ ہندوستان سے الگ رہی ہے۔ اس حقیقت کو عربوں نے بھی تسلیم کیا چنانچہ ہندوستان کو السندھ اور الہند دو حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ شنکر اچاریہ (آٹھویں صدی ) اور ویوک نند (انیسویں صدی) کی تعلیمات اور انگریز دور کی جبری وحدت کے زیرِ اثر موجودہ دانشور ہندوستان کی اٹوٹ ایکتا کے قائل ہیں اور اسے ایک جزیرے کی طرح متحد سمجھتے ہیں ۔اپنے ساڑھے پانچ ہزار سالہ تہذیبی ورثہ سے لاعلم سیاستدان اور دانشور وادیِ سندھ کی تہذیبی وحدت عربوں سے گردانتے ہیں ، اس خوف کے زیرِ اثر کہ وادی سندھ کے باسی کہیں پھر سے ہندوستان کے ساتھ نہ رہنا چاہیں۔ حالانکہ عربوں کے ساتھ صوبہ ِ سندھ کا براہ راست تعلق711ء سے 854ء تک ، یعنی محض 144 سال رہا۔ وادی سندھ ہمیشہ سے مرکز گریز رہی ہے، یہ بقیہ ہندوستان سے نہ یکسر مختلف رہی نہ مکمل ادغام ہوا۔ پاکستان کا قیام اس 5500 سالہ تاریخی حقیقت کا ہی اعادہ ہے۔
وادیِ سندھ ثقافتی و تجارتی لحاظ سے عربوں کی بجائے وسطی ایشیائی ریاستوں سے زیادہ منسلک رہی ہے۔ مقبولِ عام سوچ یہ ہے کہ وادی سندھ نے ہر حملہ آور کو خوش آمدید کہا اور مزاحمت نہیں کی۔ در حقیقت، بابر، سکندر اور انگریز سمیت ہر حملہ آور کو سب سے زیادہ مزاحمت کا سامنا وادیِ سندھ میں ہی کرنا پڑا۔ انگریزوں نے ایک نئی اشرافیہ کی تشکیل کی تو ان کے ذریعہ وادیِ سندھ کے خلاف ایک پروپیگنڈہ کیا گیا، نصاب سے مقابی زبانوں اور ہیروز کو نکال دیا گیا، لوک داستانوں کو عوامی یادداشت سے حذف کر دیا گیا۔ ہڑپہ اور موہنجوداڑو وادی سندھ کی تہذیبی عظمت کا نقطہ عروج تھے۔ یہ ایک معمہ ہے کہ یہ شہر تباہ کیسے ہوئے؟ مشاہدہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان شہروں میں کوئی مرکزی بادشاہت وجود نہیں رکھتی تھی، شاید مذہبی اشرافیہ حکمران تھی۔ قرین قیاس یہی ہے کہ اس قدامت پرست مذہبی طبقے نے وادی سندھ کی تہذیب کو جمود کا شکار کر دیا، اسی جمود نے نئی ٹیکنالوجی کے آنے میں مزاحمت کی۔ البتہ آج کے سندھ واسی نے مذہبی اشرافیہ کی سیاسی عملداری کو جھٹلا دیا ہے۔

اس خطہ میں لوہے کی کمیابی کے سبب سندھ واسی کو کنٹرول کرنے کےلیے مذہب کا سہارا لیا گیا۔ یہ علاقہ ایران کی بخامشی سلطنت کی عملداری میں تھا۔ ایران فتح کرنے کے بعد سکندر نے وادیِ سندھ کی شہرت سن کر اس پر حملہ کرنے کا سوچا۔ ٹیکسلا کے حکمران امبھی نے سکندر کویہ کہتے ہوئے خوش آمدید کہا کہ یہاں ایک نہیں دو بادشاہوں کے لیے بھی دولت کے ابار ہیں تو پھر لڑنے کا فائدہ؟ البتہ سکندر اور جہلم کے راجہ پورس کی بابت اعتزاز کا کہنا ہے کہ پورس کی شکست کا تذکرہ صرف یونانی یونی درباری وقائع نگار آریانہ اور ایسے ہی دوسرے مورخین کے علاوہ کہیں نہیں ملتا۔ اعتزاز احسن نے راجہ پورس کی ممکنہ فتح کےلیے تین تاریخی حقائق کا سہارا لیا ہے۔ 1، راجہ پورس کی طرف سے سکندر کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ 2، جنگ کے بعد بھی پورس کی سلطنت برقرار رہی۔ 3، سکندر نے یہاں سے ایکدم راستہ بدل کر جنوب کی طرف رخ کر لیا۔ قرین قیاس یہ ہے کہ پورس نے سکندر کو اس حد تک زچ کر دیا ہو گا کہ دونوں میں باعزت صلح ہو گئی۔ آج کے سندھ واسی حملہ آور سکندر کے نام پر بیٹوں کے نام لکھتے ہیں لیکن اپنے مقامی سورما پورس کے نام پر نہیں۔

موریائی توسیع پسندی اور پہلی ہمہ گیر سلطنت: چندرگپت اور چانکیا ٹیکسلا کی یونیورسٹی میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے جب چانکیہ نے پنجاب کی ایک عورت کو اپنے بچے کو ڈانٹتے سنا کہ چاول کی پلیٹ درمیان سے گرم اور کناروں سے ٹھنڈی ہوتی ہے۔ یہاں سے چانکیہ نے سبق سیکھا کہ براہ ِ راست ریاست کے مرکز پر حملہ کرنے کی بجائے مرکز کے دورافتادہ اور نواحی علاقوں کو بتدریج اپنے قبضے میں لیا جائے۔ اسی پالیسی کے تحت چندرگپت نے برصغیر کے ایک وسیع رقبہ کو اپنا مطیع بنا لیا۔ چندرگپت کا جھکاؤ بدھ مت کی طرف تھاجس کی وجہ سے ریاست میں عدم تشدد کو فروغ دیا گیا۔معیشت کو استحکام ملا ور بدھ بھکشوؤں نے دور دراز کے سفر کر کے نئے تجارتی راستے دریافت کیے ۔ پوری ریاست کی پراپرٹی کا مالک بادشاہ ہوا کرتا تھا ور ایک مائل بہ مرکز مگر مستعد ریاستی مشینری امورِ ریاست سر اجام دیتی تھی۔ تجارتی و ذات پات کے تحفظ کے لیے گلڈ تھے جو تاجروں اور اپنی ذات کے مفادات کا تحفظ کیا کرتے تھے۔
جس دوران وادیِ سندھ مغرب سے آنے والی فوجوں سے برسرِ پیکار تھی، مشرقی ہندوستان نے اپنی تہذیب کو فروغ دیا، انہوں نے دنیا کو صفر اور ہندسوں کا تحفہ دیا۔ چندرگپت اور اس کے جانشینوں نے قبائلی نظام ختم کر کے ذات پات کے نظام کی ترویج کی اور تجارت کو فروغ دیا۔ برہمنیت سے چھٹکارا پانے کےلیے تاجر نے بدھ مت کو فروغ دیا، بعد میں جب تاجر کو ذات پات کے نظام سے زیادہ فائدہ ملنا شروع ہوا تو فوراََ اسے اپنا لیا، لیکن اسی ذات پات کے نظام نے گاؤں کو جامد کر دیا جس کا بعد میں تاجر کو بہت نقصان ہوا۔ وادیِ سندھ، گنگا جمنی تہذیب کی نسبت زیادہ جمہوری تھی، یہاں چھوٹی چھوٹی مختار ریاستیں تھیں جبکہ مشرقی ہندوستان میں بڑی بادشاہتیں۔ عرب ملاحوں اور تاجروں نے تاریخ کے زیادہ ترحصہ میں وادیِ سندھ کو نظر انداز کیے رکھا۔

جاگیرداری نظام:گپتا سلطنت نے جاگردارانہ نظام کو مستحکم کیا مگر یہ یورپی نظام سے یوں مختلف تھا کہ سب سے بڑی جاگیر خود ریاست ہوا کرتی تھی، جاگیروراثت سے منتقل نہیں ہوتی تھی۔ ہن قبائل نے وادیِ سدنھ پر حملے شروع کیے تو گپت سلطنت کی گرفت کچھ ڈھیلی ہوئی، مزاحمت کےلیے ویش کھشتری اتحاد تشکیل پایا۔ شروع میں امن کے فروغ کےلیے تاجر بدھ مت کی طرف تھا مگر بڑی منڈیوں تک رسائی اور کنٹرول کےلیے تلوار کی ضرورت تھی چنانچہ دوبارہ برہمنیت کی طرف مائل ہوا۔ برہمن کھشتری اتحاد مضبوط ہوا، پروہتوں نے کھشتریوں کے اقتدار میں رہنے کے جواز گھڑے۔ بالآخر بدھ مت کو سرحدی علاقوں میں دھکیل دیا گیا، وادی سندھ نے بدھ مت اور اسلامی صوفیاء دونوں کو پناہ دی جو اس کے امن پسند ہونے کا ثبوت ہے۔

پہلےبھی مسلمان خلفاء نے سندھ پر فوج کشی کی تھی مگر فتح محمد بن قاسم کے حصہ میں آئی۔ اس حملہ پر چھ کروڑ دینار خرچ ہوئے اور کچھ ہی عرصہ میں شاہی خزانہ میں اس سے دوگنی رقم جمع کرا دی گئی۔ عربوں کے ہاں قبائلی پدرسرانہ نظام رائج تھا، جبکہ وادیِ سندھ میں زراعت کی بدولت مدرسرانہ نظام تھا۔ چنانچہ وادی سندھ عربوں کی نسبت، فارس و عراق سے آنے والے صوفیاء سے زیادہ متاثر ہوئی
جہاں زراعت مسحکم تھی۔

محمود کے حملہ کے بعد گنگا جمنی تہذیب کو ایک طویل عرصہ تک بیرونی حملہ آوروں کا سامنا نہیں کرنا پڑا، یہاں کے راجے آپس میں ہی برسرِ پیکار رہے جبکہ وادیِ سندھ غزنوی خاندان کے ہی ماتحت رہی۔ بالآخر، غوری نے ستلج پار کرنے کی ٹھانی، 1191ء میں پرتھوی راج سے شکست کھانے کے اگلے سال پانی پت کے میدان میں فتح پائی۔ دہلی کی حکومت مستحکم نہ تھی نہ کسی ایک خاندان کی مستقل حکومت رہی۔ خلجی، تغلق، خاندانِ غلاماں یہ سب حکمران وادیِ سندھ کی باغی فطرت سے خائف رہے۔ سلاطینِ دہلی کو کئی بار لاہور مقیم ہونا پڑا تا کہ وادیِ سندھ پر وسط ایشیائی حکمرانوں کے دعویٰ کو جھٹلا سکیںَ وادیِ سندھ میں طوائف الملوکی کے باوجود گکھڑ، جسرت اور چاکر نے حملہ آوروں کو بہت زچ کیا۔ سلطان خوارزم شاہ کو بھی پناہ وادیِ سندھ ہی میں ملی۔

محمد بن قاسم اور غوری کے درمیان کے پانچ سو سالوں میں وادیِ سندھ اور مشرقی ہندوستان میں خلیج پیدا ہو چکی تھی۔ سندھ واسی مغرب سے آنے والے حملہ آوروں کا مقابلہ کرتے کرتے نڈھال ہو چکا تھا، جبکہ مشرقی ہندوستان میں امن کے باعث خوشحالی تھی۔سندھ سے ہمیشہ مزاحمت ہوا کرتی تھی مگر جو بھی حملہ آور ستلج پار کرتا تھا، اسے پورا ہندوستان خوش آمدید کہنے کو منتظر ملتا تھا۔

مغلوں کو ہمیشہ پنجاب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، بابرجب افغانستان سے ہندوستان پر حملہ آور ہوا تو تین دفعہ وادیِ سندھ سے واپس لوٹا۔ مغل دور میں اکثر باغی یا تو پنجاب سے ہوتے تھے یا پنجاب میں تعینات ہوتے تھے۔ ان بغاوتوں کو فرو کرنے کے لیے مغلوں کو لاہور دربار لگانا پڑتا تھا۔ اکبر نے جاگیریں ضبط کر کے کسانوں کو تنخواہ دار بنانا چاہا مگر دلا بھٹی کی قیادت میں کسان اٹھ کھڑے ہوئے اور کئی مغل مہمات کو نقصان پہنچایا۔ بالآخر دلا بھٹی قید ہو کر ایک ہیرو کی طرح وفات پا گیا۔ میگنا کارٹا کی طرز پر پنجاب کے کسانوں کی زمین موروثی قرار دے گئی جو دلا بھٹی اور کسانوں کی بہت بڑی جیت تھی۔

ہندوستان کی طوائف الملوکی کے پیش نظر نادر شاہ حملہ آور ہوا تو اسے وادیِ سندھ میں جگہ جگہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ محمد شاہ رنگیلا کو لگتا تھا کہ وادیِ سندھ نادر شاہ کو روک لے گی چنانچہ بار بار کہتا تھا ہنو ز دلی دور است۔ یہی نادر شاہ جب دہلی کے دروازوں پہ پہنچا تو محمد شاہ رنگیلا کو قید کرنے میں اسے کوئی وقت نہ لگا۔ احمد شاہد ابدالی کے حملہ کے وقت عالمگیر ثانی نے بغیر لڑے ہتھیار ڈال دیے، یہ پنجاب اور سرحد کے جنگجو تھے جنہوں نے ہمیشہ ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ ان پے در پے حملوں نے وادیِ سندھ کے عوام میں چار خصائص پیدا کیے۔1، فضول خرچی۔2، بیرونی سازشوں کا خوف۔ 3، وفاداریاں تبدیل کرنا۔4، ظلم برداشت کرنا

دو دنیائیں

کتاب کے اس حصہ میں اعتزاز احسن نے برصغیر اور یورپ میں دو مختلف نظام ہائے سیاست، سماج و معیشت کا موازنہ کیا ہے۔ مغلوں نے کبھی یورپ کی سیاسی و سائنسی پیش رفت میں دلچسپی ظاہر نہ کی تھی۔ ہندوستان میں وہی قدیم باشاہی نظام رائج تھا۔ ادھر یورپ میں تاجر کو سپلائی و رسد کی پوری لائن پر سیاسی استحکام چاہیے تھا اس لیے تاجر نے یورپ میں پوپ اور بادشاہ کے اختیارات کم کرنے کی کوشش کی۔ سیاسی استحکام کے بعد یورپی تاجر صحیح معنوں میں پوری دنیا فتح کرنے نکلے۔ خام مال کے لیے ایشیائ اور افریقہ کے قدرتی وسائل کی لوٹ مار کرنا تھی۔ 1498 ء میں ہندوستان کے جنوب مغربی ساحل پر لوٹ مار کرنے والا واسکوڈے گاما انہی تاجروں کا ہراول دستہ تھا۔

برصغیر کے بادشاہ جدت سے پہلو تہی کرتے تھے، دقیانوسی سوچ نے انہیں ترقی کرنے سے روکا۔ جب اودھ کے حکمران کے سامنے غلہ پیسنے کےلیے پن چکی کی مثال پیش کی گئی تو اس نے پن چکی کے استعمال سے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ اس سے پتھر کی چکی سے آٹا پیسنے والی عورتیں بیروزگار ہو جائیں گی اور سلطان کو بددعائیں دیں گی۔ برصغیر میں زیادہ لگان اور لوٹ مار کی وجہ سے کسان بس اتنی ہی فصل پیدا کرتا جتنی اس کی ضرورت ہوتی، کاشتکاری کے قدامت پرست طریقہ استعمال کیے جاتے۔ ہندوستان کی پارچہ بافی کی صنعت اتنی مستحکم تھی کہ لنکاشائر کی فیکٹریوں کے تحفظ کےلیے انگریزوں کو اس کی امپورٹ ایکسپورٹ پر دو رخی قانون سازی کرنا پڑی۔ اس کے باوجود انڈیا نہ ہی انڈسٹریلائزڈ تھا اور نہ یہاں کوئی بینکاری کا نظام تھا۔ یورپ میں بڑی بڑی جاگیروں نے ایک بورژوا طبقہ کو جنم دیا، ہندوستان میں نہ ایسی جاگیریں تھی نہ ایسا طبقہ جو مذہبی طبقہ اور بادشاہ سے اقتدار چھین کر نئی سماجی و کاروباری جہتوں کے در وا کرتا، چنانچہ ہندوستان جمود کا شکار تھا۔

جب برطانوی پارلیمان اور عدلیہ میگناکارٹا کے بعد بادشاہ کے اختیارات بتدریج مختصر کر رہے تھے، ہندوستان میں مغلوں کی مطلق العنانی کا سورج اپنے نصف النہار پر تھا۔ برطانوی پارلیمان اس وقت تک طے کر چکی تھی کہ اقتدار ہمیشہ شہزادی صوفیہ کی اولاد میں سے بادشاہ کے پہلے بیٹے کو سونپا جائے گا، اس وقت برصغیر میں اقتدار کی منتقلی ہمیشہ خون ریز ہوا کرتی تھی۔ جان لوک اور روسو کے نظریات کے ماتحت، ریاست اور عوام کے درمیان ایک سماجی معاہدے کا فلسفہ فروغ پا رہا تھا، جبکہ برصغیر میں ایسا کوئی تصور نہ تھا۔
بچت اور سرمایہ کاری جیسے ذریں اصولوں کی بجائے مغل ہندوستان اسراف اور ذخیرہ اندوزی کا عادی تھا۔ دولت یا تو اللوں تللوں میں اڑا دی جاتی تھی یا تہہ خانوں میں گلتی سڑتی رہتی تھی۔ نواحی علاقوں میں امن نہ ہونے کے سبب تاجر دوسرے علاقوں کا سفر کرنے سے گریز کرتے، نتیجتاََ کاروباری سرگرمیاں جمود کا ہو گئیں۔ منصب اور جاگیروں کے موروثی نہ ہونے کے سبب کوشش کی جاتی کہ جتنا مال اڑایا جا سکتا ہے اڑا دیا جئے، حتیٰ کہ ممتاز محل کے باپ آصف خان کی جاگیر بھی بادشاہ نے ہتھیا لی۔ بعض اوقات ایک جگہ سے جاگیر واپس لے کر دوسری جگہ دے دی جاتی تا کہ بغاوت کا امکان نہ رہے۔

مغلوں کی بحریہ اتنی کمزور تھی کہ اکبر کے امیر البحر نے زندگی میں کبھی سمندر بھی نہیں دیکھا تھا۔ جبکہ انگریزوں کی سب سے بڑی طاقت ان کی بحریہ ہی تھی۔ انگریز فوج کی تربیت سائنسی بنیادوں پر کی جاتی تھی جبکہ مغل توہم پرستی کا شکار تھے۔ رنجیت سنگھ جب تک زندہ رہا، انگریز پنجاب کی طرف نظر اٹھا کر نہ دیکھتے تھے مگر اس کی وفات کے بعد اس کے وارثوں کے جرنیلوں کی غداری کے سبب انگریزوں نے پنجاب بھی ہتھیا لیا۔ انگریزوں کے پیشِ نظر اخلاقی مقاصد کی بجائے تجارتی مقاصد تھے۔ انہوں نے کم و بیش چھ سو پرنسلی سٹیٹس کو پولیٹیکل ایجنٹس کی مدد سے راج میں ایسے ضم کیا جیسے وہ یہ کام عوام کی ہی فلاح کے لیے کر رہے ہوں۔1857 ء کی جنگ میں انگریزوں کی فتح کی تین وجوہات بتائی جاتی ہیں۔ 1، ٹیلی گرف۔ 2، راجوں کی غداری۔ 3، 80 سالہ بادشاہ۔ اعتزاز احسن کے بقول، اس سے پہلے ہمیشہ مشرقی ہندوستان کے سپاہی انگریزوں کی معیت میں پنجاب اور سندھ پر حملہ آور ہوا کرتے تھے مگر جنگِ آزادی میں پنجاب اور سندھ کے سپاہیوں نے مشرقی ہندوستان کی بغاوت فرو کر کے پرانے حساب کتاب چکتا کیے۔ سنڈیمان نے بلوچستان اور واربرٹن نے صوبہ سرحد میں ایسی اصلاحات متعارف کروائیں کہ سرداروں کو داخلی خودمختاری دے دی اور روس کے خلاف ایک طرح سے بفر زون بنا دیا۔

دو قومیں

بنگال پر انگریزوں کے قبضے کے بارہ سال بعد ہی یہ نوبت آ گئی کہ پارچہ بافی کی صنعت میں پوری دنیا میں مشہور یہ صوبہ قحط کا شکار ہو گیا۔ ہندوستان میں ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کے مدِ مقابل بھی لڑا کرتے تھے اور ایک دوسرے کے شانہ بشانہ بھی۔ بنگال میں انگریز کے آنے کے بعد ایک ہندو بورژوا طبقہ وجود میں آیا جس نے انگریزوں کے مالی و سیاسی مفادات کے تحفظ میں اہم کردار ادا کیا۔ لگان کے حصول اور امن و امان کے قیام کےلیے انگریزوں نے ایک جاگیردار طبقہ تشکیل دیا۔ انگریز افسر شاہی ان جاگیر داروں کی ممد و معاون تھی۔ انیسویں صدی کے آخر میں اس بورژوا طبقہ کو اپے مفادات کے حصول کےلیے نمائندگی چاہیے تھی۔ کیا یہ صرف ایک اتفاق ہے کہ انڈین نیشنل کانگریس اور انڈین چیمبر آف کامرس ایک ہی سال وجود میں آئے؟ اب اس بورژوا طبقہ کی خواہش تھی کہ وادیِ سندھ اور ہندوستان کے دوسرے زرعی رقبے ان کی فیکٹریوں کے لیے ایسے ہی خام مال پیدا کرتے رہیں جیسے لنکا شائر کی انڈسٹری کےلیے کرتے تھے۔ وادیِ سندھ میں اس وقت تک انگریز کی سرپرستی میں کافی بڑی جاگیریں وجود میں آ چکی تھیں جنہیں ہندو بورژوا طبقے سے خطرہ محسوس ہوتا تھا۔ چنانچہ، یہ جاگیردار طبقہ قائد اعظم کی سربراہی میں بالآخر ہندو بورژوا سے جدا ہو گیا۔

سندھ واسی اور بقیہ ماندہ ہندوستان میں بہت سے تضادات میں سے مذہب محض ایک تضاد ہے، لیکن زیادہ بنیادی تضادات تہذیبی اور ثقافتی نوعیت کے ہیں۔ سندھ واسی کا طرزِ زندگی مسرفانہ ہے کیونکہ پے در پے حملوں اور لوٹ مار کی بدولت یہ احساس پیدا ہو چکا ہے کہ دولت یا پیسے کو استحکام نہیں۔ احمد شاہ ابدالی کے عہد میں کہا جاتا تھا کہ کھادا پیتے لاہے دا، باقی احمد شاہے دا۔ انگریز دور میں بیشمار لوگوں کو وسیع و عریض جاگیریں عطا کی گئیں جس کی وجہ سے لوگوں میں لاٹری کلچر یعنی راتوں رات امیر بننے کا جنون رواج پڑ چکا ہے۔ سندھ واسی ایک بیمثال سپاہی مگر ناکام منتظم ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ سندھ واسی کے اپنے تشخص کو اجاگر کیا جائے۔


Watch on Facebook


Watch on Youtube

Click here for more book reviews

Related Posts

One thought on “سندھ ساگر اور قیام پاکستانAn excellent book – Indus Saga by Aitzaz Ahsan

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *