Jane Eyre | Charlotte Bronte | Book Review

اگر ہم شارلٹ برانٹے (Charlotte Bronte) کا ناول جین آئر(Jane Eyre) اس وقت کے برطانوی سماج کو ذہن میں رکھ کر پڑھیں کہ جب عورتوں کو حقوق ملنا تو درکنار، یہ تک تصور نہیں کیا جا سکتا تھا کہ کوئی خاتون ایسا ناول لکھ بھی سکتی ہیں (تبھی برانٹے سسٹرز (Bronte Sisters) نے ناول اپنے اصل ناموں سے نہیں بلکہ ایسے قلمی ناموں سے چھپوائے جو مردانہ و زنانہ دونوں سے ملتے جلتے ہوں)، اور ایسے سماج میں ایسا ناول لکھنا جس میں عورت اس وقت کے سماجی Stereotypes کو توڑ رہی ہو اور اپنے فیصلے اپنی مرضی و منشا سے نہ صرف یہ کہ کرنا چاہ رہی ہو بلکہ کر بھی رہی ہو، تب تو اس ناول کی اہمیت ضرور دوچند ہو جاتی ہے۔ خصوصاً جب ہم ان حالات کا پڑھتے ہیں جن میں مصنفہ شارلٹ برانٹے اور اس کی بہنوں نے زندگی گزاری اور اس تنقید کے بارے، جس کا انہیں سامنا کرنا پڑا تو احساس ہوتا ہےکہ یہ ناول کیوں اہم ہے!

لیکن اس سے ہٹ کر، اگر آپ کا مطالعہ بہت وسیع و عریض نہ سہی، اچھا بھی ہو، کچھ فلمیں ڈرامے بھی دیکھ رکھے ہوں تو جین آئر کی کہانی آپ کو One Linear لگے گی، یعنی کچھ معمولی سرپرائزز کے ساتھ باقی کہانی کا آپ کو اندازہ ہو جاتا ہے۔ سو اس ناول میں وہ Element of Surprise عنقا ہے جو ناول کے قاری کو عموماً، اور مجھے خصوصاً بہت زیادہ متاثر کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس میں ناول اور ناول نگار کا کوئی قصور نہیں، جس دور کا یہ ناول ہے، اس وقت کے قارئین کےلیے یہ بہت چونکا دینے والا ہو گا، بعد کی صدیوں میں اسی پلاٹ پر اور بہت سی کہانیاں لکھ دی گئی ہیں اور یہ ناول پڑھنے سے پہلےہم نے وہ پڑھ لی ہیں تو اس میں بیچاری شارلٹ برانٹے کیا کرے۔

یہ ایک عورت کی کہانی ہے جس نے نامساعد حالات میں بھی اپنی کشتی کا چَپو اپنے ہاتھ میں رکھا، جب وقت آیا تو اس نے محبت اور اپنے اصولوں میں سے اپنے اصولوں کو ترجیح دی، جس نے آسان فیصلے کرنے کی بجائے رابرٹ فراسٹ کی مشہورِ زمانہ نظم The Road Not Taken کے مصداق وہ راستہ چنا جس پر سفر کرنے کی ہمت کم ہی لوگ کرتے ہیں، اور بلاشبہ اسی نے ہی کہانی میں جان ڈال دی۔ ایک Feminist نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اس وقت کے سماج میں عورت سے توقعات اور اس کا مقام پتہ چلتا ہے، ناول کی مرکزی کردار، جین آئر، تمام تر مصائب و آلام برداشت کرنے کے باوجود ایک خودمختار خاتون کی حیثیت برقرار رکھتی ہیں۔

سیف الدین حسام صاحب کا ترجمہ قابلِ اعتبار ہے، انہوں نے مکھی پر مکھی نہیں ماری اور لفظی ترجمہ نہیں کیا بلکہ ایسا ترجمہ کیا جو ناول کی روح کےمطابق تھا۔ بک کارنر جہلم نے اس کا جو ایڈیشن شائع کیا ہے اس میں ناول کے درمیان بھی اور شروع میں بھی کہانی کی وضاحت کرتی کچھ تصاویر /خاکے شامل کیے ہیں جو اچھے لگتے ہیں۔

علی عمار یاسر

Related Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *