Maraasi Dabeer | مراثی دبیر

Maraasi Dabeer | مراثی دبیر

اردو ادب کا دامن اس لحاظ سے زرخیز ہے کہ اس نے اپنے پڑھنے والوں کو عشقیہ، رزمیہ، رجزیہ، المیہ اور گریہ سمیت تمام موضوعات پر گراں قدر مواد دیا ہے. مرثیہ پر بھی اردو ادب میں بہت کچھ لکھا گیا لیکن بہرحال جو شہرت و عزت میرزا دبیر اور میر انیس کو حاصل رہی، اس تک شاید کوئی اور لکھنے والا نہ پہنچ سکے. ادب کے ناقدین میرزا دبیر و میر انیس کی آپسی فضیلت پر دو گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں. اس سوال سے قطع نظر کہ دبیر و انیس میں سے کون افضل ہے، اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ دونوں کا اپنا ایک اسکول آف تھاٹ ہے، دونوں آسمانِ گریہ کے تابندہ ستارے ہیں جنہوں نے اہلِ بیت پر رونے والوں کو بہت نادر و نایاب مرثیے دیے ہیں.

میرزا دبیر کے مرثیوں کا زیرِ نظر انتخاب ڈاکٹر ظہیر فتحپوری نے مرتب کیا اور مجلسِ ترقیِ ادب لاہور نے اسے چھاپا ہے. اس کی چند نمایاں خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں:

1- انتخاب بیس مرثیوں پر مشتمل ہے جس میں امامِ حسین، بی بی زینب، جنابِ حُر، بی بی سکینہ، حضرت عباس علمدار، حضرت علی اکبر، عون و محمد اور وہب کلبی کی کربلا میں مشکلات، شجاعت، جنگ اور شہادت کا احوال بیان کیا گیا ہے.

2- میرزا دبیر کے الفاظ کا چنائو اور تراکیب کچھ مشکل ہیں لیکن تھوڑی سی کوشش سے سمجھی جا سکتی ہیں.

3- پڑھنے والے کے سامنے دبیر کی منظرکشی مختلف تصاویر پیش کر دیتی ہے اور بسا اوقات قاری خود کو میدانِ کربلا میں محسوس کرتا ہے اور اُسے یوں لگتا ہے کہ اہلِ بیت کی مشکلات اُس کے سامنے بیت رہی ہوں.

4- ہر مرثیہ ایک ترتیب سے لکھا گیا ہے جس میں ممدوح کی تعریف و توصیف، دشمنوں پر اُن کی اخلاقی برتری، شجاعت و دلیری اور ایک المناک شہادت کے بعد اہلِ بیت کی گریہ زاری ایک الخراش منظر پیش کرتی ہے.

انتخاب میں سے چند اقتباسات پیشِ خدمت ہیں:

دریا جو دور پیاس میں تھا شہ کی فوج سے
منہ پر طمانچے مارتا تھا دستِ موج سے
—————————
یہ التجا نہیں ہے کہ برباد گھر نہ ہو
پر دخترِامیرِعرب ننگے سر نہ ہو
—————————
پیاسا تو ہے حسین پر اس ضبط پر فدا
اک چشمہ خیمہ گاہ میں اس وقت تک رہا
پینے دیا کسی کو، نہ خود شاہ نے پیا
دھویا کفن کو، غسل کیا اور وضو کیا

نہرِ بہشت بہرِ طہارت خود آئی تھی
گویا رسول زادے کے گھر میں خدائی تھی
—————————

عریان سر ہو، قید ہو اور شور و شین ہو
زینب کو سب قبول ہے، لیکن حسین ہو
—————————

رن ایک سمت، شہروں میں شور_عظیم تھا
یہ کاٹ تھی کہ قہرِ خدائے علیم تھا
اس وقت جو خیال تھا دل میں، دو نیم تھا
لشکر میں حالِ حاضر و غائب سقیم تھا

ہنگامِ ضرب یاد عزیزوں میں جو ہوا
یہ زیرِتیغ دو ہوا، وہ گھر میں دو ہوا

————————–

چلائے خبردار! سواری نظر آئی
لو باغیو وہ باغ بہاری نظر آئی
فوجِ خرد و ہوش فراری نظر آئی
ہستی نے کہا موت ہماری نظر آئی

سکتے میں وہ سب لشکر_کفار کھڑا تھا
کفار تو کیا کفر بھی بےہوش پڑا تھا
—————————
جس شیر نے شیروں سے سدا پنجہ کیا ہے
جنگاہ میں آج اس نے قدم رنجہ کیا ہے
—————————

یاں موردِ لعنت، وہاں ساکن ہیں سقر کے
حیدر کے مخالف نہ ادھر کے نہ ادھر کے
—————————
اس تیغ نے سائے سے کہا شامیوں کو گھیر
سائے نے کیا گھیر کے سب کو زبر و زیر
چلائے جلا کر وہ لعیں مشعل_شمشیر
اندھیر ہے، اندھیر ہے، اندھیر ہے اندھیر

یہ کہتی تھی بھولے گی نہ بیداد تمہاری
چلائو، میں سنتی نہیں فریاد تمہاری
—————————
یا رب نشان والے کا نام و نشاں رہے
یہ شمس بےزوال، یہ گل بےخزاں رہے
لشکر رہے، حسین رہے، یہ نشاں رہے
اس حاملِ علم پہ علی کی اماں رہے

روشن رہے قمر شہِ بدر و حنین کا
وہ خاک میں ملے جو ہو دشمن حسین کا
—————————
ماں رن میں اور خیمے میں ماں جائی روتی تھی
تنہائی پر حسین کی، تنہائی روتی تھی
تڑپے فلک تڑپنے سے اس ذوالفقار کے
بجلی کے سر پہ رعد گرا چیخ مار کے
———————

تڑپے فلک تڑپنے سے اس ذوالفقار کے
بجلی کے سر پہ رعد گرا چیخ مار کے

غل تھا کہ دھوپ دیکھنے کو سب ترستے ہیں
چھایا ہے ابرِ تیغِ علی، سر برستے ہیں
—————————
خود کفر یہ کہتا تھا ارے کلمہ پڑھو تم
سر پاؤں پہ گرتے تھے کہ آگے نہ بڑھو تم
زہرا کے بھرے گھر میں قضا ٹوٹ پڑی ہے
اس باغ میں تو چار طرف لوٹ پڑی ہے
—————————
روباہوں کی اب موت ہے جلد آئے کہ دیر آئے
لو شیروں کے شیر آئے، دلیروں کے دلیر آئے

ہشیار اجل سے ہو، خبردار قضا سے
شمشیر بکف آتے ہیں حیدر کے نواسے

سر تیغوں سے، دل. جنگ سے، رخ رن سے بھرے تھے
دو شیروں میں نو لاکھ وہ روباہ گھرے تھے

—————————
ہے ہے نصیب پیاسوں کا رستے میں پھِر گیا
سقہ حرم کا شام کے طوفاں میں گھِر گیا

تصویرِ خاص حیدرِ کرار مٹتی ہے
تفسیرِ نورِ خالقِ غفار مٹتی ہے
لشکر کے بعد شکلِ علمدار مٹتی ہے
شیعوں کے بادشاہ کی سرکار مٹتی ہے

افسوس، جس کی مادرِ بیوہ وطن میں ہے
باری اب اس جوان کے مرنے کی رن میں ہے

یہ کتاب ان قارئین کو ضرور پڑھنی چاہیے جو لکھنئو کی تہذیب اور مرثیوں کے کلچر کو جاننا چاہتے ہیں. ہر قسم کی فرقہ پرستی سے پاک یہ مرثیے پڑھنے لائق ہیں.

Follow us on Facebook

Click here to read more book reviews

Related Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *