راجہ داہر بمقابلہ محمد بن قاسم بمقابلہ لارڈ کلائیو

راجہ داہر بمقابلہ محمد بن قاسم بمقابلہ لارڈ کلائیو
وطنِ عزیز کے منظرنامہ پر، تمام تر تغیرات کے باوجود، ایک فلم ہمیشہ چلتی رہتی ہے. مذہبی، سماجی و سیاسی اشرافیہ عوام الناس کی توجہ اُن کے اصل مسائل، مثلاً بیروزگاری، غربت، صحت و تعلیم کی غیر معیاری و ناکافی سہولیات وغیرہ، سے ہٹا کر نان ایشوز کو عوامی بحث کا مرکز بنائے رکھتی ہے. دقیق مذہبی اختلافی مسائل ، کھانا خود گرم کرو اور اقتدار کے ایوانوں میں طاقت کا توازن ایسے موضوعات ہیں جن کا عام آدمی کی زندگی پر براہِ راست کچھ اتنا خاص فرق نہیں پڑتا. لیکن یہی وہ موضوعات ہیں جو الیکٹرانک، پرنٹ و سوشل میڈیا کا زیادہ وقت و حصہ لے رہے ہوتے ہیں. کیونکہ ہمارے رائے ساز (علماء، دانشور اور مقتدر حلقے) نہیں چاہتے کہ وسائل کی منصفانہ تقسیم عوامی بحث کا حصہ بنے. یہ تینوں ایلیٹ کلاس کا حصہ ہیں اور ملکی وسائل پر حصہ بقدر جثہ کے مصداق قابض ہیں. صحت، تعلیم و روزگار جیسے مسائل کے حل کا مطلب یہ ہے کہ تینوں کو اپنے اپنے حصے میں تخفیف کرنا پڑے گی. آپ دیکھیں گے کہ ماضی قریب میں کسی مذہبی تحریک، دانشور اور سیاسی طبقہ نے کبھی عوام کے بنیادی انسانی حقوق کےلیے تحریک نہیں چلائی. ان کی تحریکیں وسائل کی بندربانٹ میں ‘ساڈا حق ایتھے رکھ’ کےلیے ہوتی ہیں. البتہ ہر چند دن بعد گلشن کا کاروبار چلانے واسطے ایک نیا شوشہ چھوڑ دیا جاتا ہے، اہل قلم و اہلِ زباں ایک ایسے موضوع پر زبان و بیان کی تُندی آزمانے لگتے ہیں جس کا ایک عام آدمی کو دھیلہ برابر فرق نہیں پڑتا. لیکن ظاہر ایسے کیا جاتا ہے جیسے یہ مسئلہ تہتر کے آئین، فقہاء کی رائے یا جان لوک کے فرمودات کے مطابق حل نہ کیا گیا تو عام آدمی پر گویا قیامت ٹوٹ پڑے گی.

تازہ ترین مثال محمد بن قاسم اور راجہ داہر کے موازنہ کی بحث کی ہے. وطنِ عزیز کے اہلِ علم نے ترک ڈرامہ ارتغرل کے ردِ عمل میں ایک نیا شوشہ چھوڑا ہے اور بیروزگار، مفلوک الحال عوام کو اس بحث میں الجھا دیا ہے کہ مرغی پہلے آئی یا انڈہ؟

پُرلطف بات یہ ہے کہ انگریزی تعلیمی اداروں میں، آکسفورڈ یونیورسٹی کا نصاب پڑھنے والے انگریزی میں ٹویٹ کر رہے ہیں کہ محمد بن قاسم ایک بیرونی حملہ آور تھا جس کا برصغیر کی دھرتی، کلچر اور زبان سے کوئی واسطہ نہیں تھا. ان کی رائے یہ ہے کہ ہمیں عرب اور افغان ناموں سے اپنے جنگی ہتھیار، لوک کہانیاں اور سڑکیں منصوب نہیں کرنی چاہییں کیوں کہ یہ سب بیرونی حملہ آور تھے.

دوسری طرف دھرتی کے وہ سپوت ہیں جنہیں اسکالرشپ، وزٹ یا ورک ویزہ پر نصاریٰ کے زیرِ انتظام ملکوں میں رہنے کا شوق تو ہے لیکن ان کی غیرتِ ایمانی رنجیت سنگھ کے مجسمہ سے لرزہ کھاتی ہے.

راجہ داہر کی محمد بن قاسم کے ہاتھوں شکست اور بہادر شاہ ظفر کی انگریزوں کے ہاتھوں جلاوطنی کوئی جذباتی، روحانی و رومانی داستانیں نہیں ہیں، یہ کاتبِ تقدیر کے لکھے گئے انمٹ قوانین ہیں جو ازل سے ابد تک تمام تہذیبوں کےلیے یکساں ہیں. منصف المزاج خدا قوموں کو وہی دیتا ہے جس کی وہ کوشش کرتی ہیں. عرض یہ ہے کہ تہذیب کبھی بھی منجمد نہیں رہتی. ایک زندہ تہذیب تاجروں، مہم جو مسافروں اور بیرونی حملہ آوروں سے دور دراز کے علاقوں کی سن گن لیتی اور انسانیت کی اجتماعی دانش کے ذخیرہ سے مستفید ہوتی رہتی ہے. جس تہذیب نے اپنی ہم عصر انسانیت سے سیکھنے میں تساہل برتا، وہ متجسس ذہن رکھنے والی قوموں کے ہاتھوں یرغمال ہوئی. جس تہذیب نے وقت کے اس ہر لحظہ راستہ بدلتے بحرِ بےکنار میں اپنے بچاؤ کےلیے نئے طور طریقے اپنائے، اُسی کو باریِ تعالیٰ کی نصرت دستیاب ہوئی. عربوں نے برصغیر کو اسلام، سادات اور صوفی ازم کا تحفہ دیا، مغلوں نے اردو، فارسی اور تعمیرات کو اپنے تخت تلے پناہ دی، سوریوں نے گرینڈ ٹرنک روڈ کا تحفہ دیا، انگریزوں نے جمہوریت، ریل کی پٹری اور جدید سوچ سے نوازا.

برصغیر کو عربوں سے زیادہ انگریزوں نے لوٹا. اسی طرح ہر حملہ آور کے برصغیر پر سیاسی، سماجی، معاشی و مذہبی اثرات پر بات کی جا سکتی ہے. محمد بن قاسم سے لے کر احمد شاہ ابدالی اور بابر سے لارڈ کلائیو تک ہر حملہ آور کے اغراض و مقاصد بھی ڈسکس کیے جا سکتے ہیں. لیکن صرف کسی ایک فیکٹر (مذہب یا وطنیت) کی بنیاد پر کسی سے بھی نفرت کرنا ایک تعجب خیز امر ہے. اگر صرف مقامی روایات کی ہی حمایت کرنی ہے تو یہ بحث صرف محمد بن قاسم تک ہی کیوں محدود ہے؟ انگریزوں کے بارے بات کیوں نہیں کی جاتی؟ اور محمد بن قاسم، بلکہ موجودہ انسانوں سے پہلے بہت پہلے کرہ ارض پر نیندرتھال ہوا کرتے تھے، ہم ہومو سیپینز تو محض بیرونی حملہ آور ہیں جنہوں نے نیندرتھالوں کے مقامی کلچر، زبان اور روایات کا ستیاناس کر دیا. آئیے، نیندرتھالوں کے استحصال کی بات کریں، شاید گھومتے پھرتے بات ہماری اشرافیہ کی طرف سے غریب عوام کے مسلسل برپا استحصال تک پہنچ جائے.

Click here to WATCH book reviews
Click here to read more book reviews

Related Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *