اپر مڈل کلاس کے نعرے

اپر مڈل کلاس کے نعرے اور بیانیہ کی جنگ

اپر مڈل کلاس کے نعرے اور بیانیہ کی جنگ

کیا یہ ایک معمہ نہیں کہ ہمارے ہاں بائیں بازو کے لوگ ، جو عموماََ قدامت پرستوں سے زیادہ پڑھے لکھے اورابلاغ پر بہتر دسترس رکھتے ہیں، بیانیے کی جنگ میں
ہار جاتے ہیں؟کیا وجہ ہے کہ رائے عامہ اپنا وزن عطار کے انہی لونڈوں کے پلڑے میں ڈالتی ہے جو ان کے زیادہ تر معاشی، سماجی اور سیاسی امراض کی وجہ ہوتے ہیں؟ مثال کے طور پربائیں بازو کی طرف سے بلند کیا جانے والا شخصی آزادی کا نعرہ جو کہ عوام الناس کے ہی مفاد میں ہے، ان کو متاثر کیوں نہیں کرتا؟شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ شخصی آزادی اس ملک کی اکثریتی آبادی کا مسئلہ ہی نہیں ہے۔

آج سے تقریباََ پچھتر برس پہلے، ابراہم ماسلو نے ایک تحقیقی مقالہ A theory of Human Motivation کے نام سے شائع کیا۔اس میں ماسلو نے انسانی ضروریات کو مختلف اقسام میں تقسیم کر کے ان کی درجہ بندی کی۔ اس کے مطابق ایک انسان کو سب سے پہلے روٹی ،کپڑا اور مکان کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے بعد وہ اپنے تحفظ کی فکر کرتا ہے۔ جب روٹی مناسب مقدار میں ملتی ہو ، معاشی اور ذاتی تحفظ حاصل ہو تو انسان سماجی ضروریات مثلاَ دوستی وغیرہ کی طرف دھیان دیتا ہے۔ ان تینوں ضروریات کے پورا کرنے کے بعد آدم و حوا کی اولاد کو خوداعتمادی ، آزادی اور طاقت کے حصول کی خواہشات اپنی طرف کھینچ لیتی ہیں۔آخرمیں وہ مقام آ جاتا ہے جسے اقبال نے خودی کا نام دیا اور ماسلو نے Self Actualization کا ،یعنی جب انسان کسی خاص شعبہ میں عظمت کے نقطہِ عروج کو پہنچ جاتا ہے۔یونیورسٹی میں ایک قابلِ قدر پروفیسر صاحب نے یہ تھیوری پڑھاتے ہوئے ،ہنستے ہوئے کہاکہ ضروریات کی ترتیب کی یہ تھیوری کم و بیش ہر انسان پر عائد ہو سکتی ہے سوائے شعراء کے، جو روٹی کپڑے اور تحفظ جیسی ضروریات کو پیچھے چھوڑتے ہوئے سیدھا خودی کے مقام پر پہنچ جاتے ہیں۔شاید اسی لیے کئی بنیوں کے مقروض اور پائی پائی کے محتاج غالب نے کہا:

؂ بندگی میں بھی وہ آزادہ و خودبیں ہیں کہ ہم
الٹے پھر آئے ،درِ کعبہ اگر وا نہ ہوا

غالب کی طرح یہ مسئلہ ہمارے ہاں کے بائیں بازو کے دانشوروں کا بھی ہے۔ جو ملک اقوامِ متحدہ کے انسانی ترقی کے انڈیکس میں ایک سو اٹھاسی ممالک میں سے ایک سو سینتالیسویں نمبر پر ہو، جہاں ایک ہزار میں سے چھیاسٹھ بچے پیدا ہوتے ہی فوت ہو جائیں، اور بچنے والوں میں سے بیاسی بچے پانچ سال کی عمر تک نہ پہنچ سکیں، بیایس فیصد بالغ ان پڑھ ہوں،سوا آٹھ کروڑ لوگ کسی نہ کسی طرح غربت کا شکار ہوں، کام کاج کرنے والوں میں سے سینتیس فیصد کی روزانہ کی آمدن ساڑھے تین سو روپے سے کم ہو،وہاں فردِ واحد کا مسئلہ شخصی آزادی نہیں، بقاکی جنگ ہے۔ جس ملک میں خواتین کی اوسط سالانہ آمدنی مردوں سے تقریباََ پانچ گنا کم ہو، وہاں روٹی خواتین کو ہی گرم کرنی پڑتی ہے۔ جہاں غیر ذرعی نوکریوں میں خواتین کا حصہ صرف گیارہ فیصد ہو اور سیکنڈری تعلیم صرف پچیس فیصد خواتین کو میسر ہو،وہاں عورت مردوں سے برابری کا صرف خواب ہی دیکھ سکتی ہے۔

شخصی آزادی جیسے نعرے بھوکے پیٹ سمجھ نہیں آتے۔بھٹو کو قائدِ عوام ’روٹی،کپڑا اور مکان‘ کے نعرے نے بنایا کیونکہ یہ تین چیزیں اسی فیصد عوام کا مسئلہ ہیں۔ روشن خیال طبقے کی خدمت میں عرض ہے کہ اگر آپ بیانیے کی یہ جنگ جیتنا چاہتے ہیں تو اپنی مسند سے اتریں ،عوام کے ساتھ بیٹھیں اور عوام کے حقیقی مسائل کو اجاگر کریں۔جب خواتین کی شرح تعلیم اور سالانہ آمدنی مردوں کے برابر ہو جائے گی تب وہ اپنے شوہروں کو کہہ سکیں گی کہ کھانا خود گرم کر لو۔ ورنہ آپ کے ہر نعرے کے جواب میں عوام نے آپ کی خدمت میں فیضؔ کایہ کلام پیش کرنا ہے:

ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم
ریشم و اطلس و کمخواب میں بنوائے ہوئے
جابجا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم
خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئے
لوٹ جاتی ہے ادھرکو بھی نظر ، کیا کیجیے
اب بھی دلکش ہے تیرا حسن مگر کیا کیجیے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا

Click here to read more book reviews

Click here to WATCH book reviews

Follow us on Facebook

Related Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *