خودکشی کے بارے میں On Suicide

موت کے درندے میں اک کشش تو ہے ثروت
لوگ کچھ بھی کہتے ہوں زندگی کے بارے میں

ثروت حسین نے یہ شعر لکھا اور ریل کی پٹڑی پہ لیٹ گیا۔ سبھی کچھ تھا اس کے پاس، نان و نمک واسطے سرکار کی نوکری تھی اور تسکینِ طبع واسطے شہرت تھی۔ شعر بھی لازوال کہتا تھا۔ خدا جانے کس ذہنی اذیت میں گرفتار تھا کہ ریل کی پٹڑی اسے آخری حل نظر آئی۔

سب کچھ آنس معین کے پاس بھی تھا لیکن ریل کی پٹڑی اسے بھی نگل گئی۔ کیا زندگی میں سبھی کچھ ہونا کافی ہے؟ سب کچھ کی بہتات بھی تو اکتا دیتی ہے۔ آنس سے ہی پوچھیے جس نے بتایا کہ

وہ جو پیاسا لگتا تھا سیلاب زدہ تھا
پانی پانی کہتے کہتے ڈوب گیا

دیگر وجوہات کے علاوہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ایک صوفی نے آنس سے کہا کہ موت کے بعد زندگی اتنی دلکش ہے کہ اگر لوگوں کہ پتہ چل جائے تو دنیا کی آدھی آبادی خودکشی کر لے۔ اپنی خودکشی کی وضاحت کرتے ہوئے، آخری خط میں ماں باپ کو اس نے لکھا کہ اسے زندگی میں کوئی مسئلہ نہیں بس وہ اس یکسانیت سے تنگ آ گیا ہے۔ زندگی کے ہر اگلے صفحے پر وہی تحریر ہے جو پچھلے صفحے پر مرقوم تھی۔ خدا کسی کے ماں باپ کو ایسا خط نہ پڑھوائے۔

خدا کسی کی بھی اولاد کو وہ منظر نہ دکھائے جو سید حسن رضوی کو اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ دس سال کی حساس عمر میں دیکھنا پڑا۔ اپنی ماں کو ٹرین کے نیچے آ کر خودکشی کرتے دیکھنے نے حسن رضوی کو شکیب جلالی بنا دیا۔ ایک باعزت سرکاری ملازمت ملنے اور شعر کی دنیا میں اپنا ایک علیحدہ مقام بنا لینے کے باوجود شکیب کو شاید اپنا وجود بےمصرف لگتا ہو۔ تبھی جب اس کی لاش ٹرین کی پٹڑی سے اٹھائی گئی تو اس کی جیب میں ایک نوٹ پر اس کا ہی یہ شعر درج تھا؛

تو نے کہا نہ تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں
آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتے بھی دیکھ

مصطفیٰ زیدی بھی تو اسی ذہنی اذیت کا گرفتار تھا جس کے شکار آنس، شکیب و ثروت تھے۔ ایک بیوروکریٹ جو معروف شاعر بھی ہو،ہزاروں جس کے چاہنے والے ہوں، اسے زندگی سے ایسی کیا شکایت آن پڑی کہ اس نے یہاں سے کوچ کرنے کی ہی ٹھان لی؟ شہناز گُل کا لوگ نام لیتے ہیں لیکن کیا صرف شہناز گل ہی وجہ تھی مصطفیٰ زیدی کی خودکشی کی؟ جس تن لاگے وہ تن جانے، مصطفیٰ زیدی کی موت اگر قتل تھا تو شہر نے ہاتھوں پہ دستانے چڑھا لیے تھے اور اگر یہ خود کشی تھی تو پورے ملک نے ذہن پر بےحسی کی چادر تان لی تھی.

نثری نظم کی شاعرہ سائرہ شگفتہ نے ذہنی سکون کی تلاش میں چار شادیاں کیں، لیکن سکون کی یہ تلاش بالآخر اسے بھی ریل کی پٹڑی پہ لے گئی۔ چار شادیاں ارنسٹ ہیمنگوے نے بھی کی تھیں۔ لیکن نوبل انعام یافتہ اس ادیب نے بھی اپنی زندگی کا خاتمہ اپنے ہی ہاتھوں کیا۔ رفیع خاور کس کس کو یاد ہے؟ وہی اداکار ننھا جس نے ساری زندگی لوگوں کے چہروں پہ خوشیاں بکھیریں۔ یہ نام اتنا مقبول ہوا کہ لوگ رفیع خاور کو بھول گئے اور ‘ننھا’ کو ابدیت عطا کر دی۔ کہتے ہیں کہ اپنے کریئر کے عین عروج میں رفیع خاورایک اداکارہ کی بیوفائی برداشت نہ کر سکا اور قیدِ حیات سے نجات میں ہی عافیت سمجھی۔

انشاء جی کو بھی خودکشی کے دورے پڑتے تھے، یہ وہی انشاء ہیں جن کے بارے اردو نثر کے امام مشتاق احمد یوسفی نے کہا کہ ان کا کاٹا سوتے میں بھی مسکراتا ہے. اردو نثر تا بہ ابد احمد بشیر کی مشکور ہے جس نے بیشمار دفعہ ابنِ انشاء کو بہلا پھسلا کر خودکشی سے باز رکھا۔ دنیا بھر کو ہنسانے والے اندر سے روتے کیوں رہتے ہیں؟ انور مسعود نے لکھا کہ

بڑے نمناک سے ہوتے ہیں انور قہقہے تیرے
کوئی دیوارِ گریہ ہے ترے اشعار کے پیچھے

یہ شعر انور مسعود نے اپنے لیے لکھا تھا، رفیع خاور کےلیے، انشاء جی کےلیے یا ہم سب کے لیے؟

خودکشی کرنے والے بزدل نہیں ہوتے، تنہا ہوتے ہیں۔ ایک کسک سی ہوتی ہے کہ کوئی ہمیں سمجھے، کوئی بوجھ ہوتا ہے جسے سہارنے کےلیے ایک مشفق کندھا چاہیے ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا اور فور جی کی دنیا جو بظاہر ہمیں قریب لائی ہے، درحقیقت ہمیں ایک دوسرے سے جدا کر رہی ہے۔ لائیکس،شیئرز اور ری ٹویٹس سے ہم اپنی مقبولیت اور اہمیت ماپتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ ہمیں اپنے جذبات کے اظہار کےلیے سوشل میڈیا کا سہارا لینا پڑتا ہے؟ پاکستان میں اوسطاَ ہر گھنٹے میں کوئی ایک شخص تھک ہار کے بارِ زندگی کندھے سے اتار پھینکتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ اکیس کروڑ لوگوں میں سے کوئی ایک بھی، خودکشی کرنے والے کو اس قابل نہیں لگتا کہ اس سے حالِ دل بیان کرے، اس کے سامنے اپنے دکھڑے روئے اور رو دھو کر دل کا غبار صاف کر کے پر سکون ہو جائے؟ بقول اکبر معصوم

کوئی اس کی بات نہیں پاتا، کوئی اس کے پار نہیں جاتا
اس من ساگر میں ہھید ہے کیا، اس ندیا میں بل کیسا ہے

جب یہ بلاگ آپ پڑھ چکیں تو اپنی کاٹیکٹ لسٹ کھول کر ان دوستوں کو فون کریں جن سے کافی طویل عرصہ سے بات نہیں ہوئی اور انہیں بتائیں کہ وہ آپ کے لیے اہم ہیں۔ شاید آپ کسی کےلیے احمد بشیر ثابت ہوں۔ ورنہ ہونے کو تو یوں بھی ہو سکتا ہے کہ کسی عزیز کی خودکشی کی خبر آپ تک پہنچے اور آپ فیس بک پر یہ تک نہ لکھ سکیں: ابھی کچھ ہی دن پہلے تو اس سے بات ہوئی تھی، خوش لگ رہا تھا۔ تہذیب حافی نے اپنے پڑھنے اور سننے والوں سے وعدہ کیا ہے کہ

میں ایک فلم بنائوں گا اپنے ثروت پر
اور اس میں ریل کی پٹڑی نہیں بنائوں گا

آئیے، اپنے عزیز و اقارب کی زندگیوں سے ریل کی پٹڑی کے امکانات منہا کر دیں۔

Click here to read more book reviews

Click here to WATCH book reviews

Related Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *