Permanent Record Cover Page

Ugly Truth Exposed: Permanent Record by Edward Snowden

آج سے کچھ عرصہ قبل سوشل میڈیا پر اس طرح کی پوسٹس گردش کر رہی تھیں جن میں کہا جاتا تھا کہ امریکی خفیہ ایجنسیاں ہمارے موبائل اور لیپ ٹاپ کے کیمرہ کی مدد سے ہماری ریکارڈنگ کر رہی ہیں۔ اس طرح کی پوسٹس میں بطور حوالہ بل گیٹس یا مارک زکربرگ کی ایسی تصاویر دکھائی جاتی تھیں جن میں ان کے زیرِ استعمال لیپ ٹاپ کے کیمرہ پر چھوٹی سی ٹیپ لگی ہوتی تھی۔ بہت سے دوسرے عاقلوں کی طرح، میں بھی اس طرح کی سب پوسٹس کو سازشی تھیوری ہی سمجھتا رہا۔ لیکن Edward Snowden کی کتاب Permanent Record پڑھ کر مجھے احساس ہوا کہ افسانوں کی دنیا میں واقعی سب جھوٹ نہیں ہوتا۔

سنوڈن صاحب کا مختصر سا تعارف یہ ہے کہ یہ صاحب کسی زمانے میں سی آئی اے اور این ایس سے کےلیے بطور کنٹریکٹر خدمات سرانجام دیتے رہے۔ سنہ دو ہزار تیرہ میں انہوں نے امریکی خفیہ ایجنسیز کی طرف سے خوفناک حد تک گھناؤنے جاسوسی نیٹ ورک کا انکشاف کر کے دنیا کو حیران کر دیا۔ سال دوہزار اٹھارہ میں سنوڈن نے اپنی خودنوشت لکھی جس میں اس بارے میں کافی تفصیلات بیان کیں۔ کتاب بنیادی طور پر تین حصوں میں تقسیم ہے۔

پہلے حصے میں سنوڈن نے اپنے خاندان کی امریکہ کے دفاعی اداروں میں خدمات کا تذکرہ کرکے گویا اپنی حُب الوطنی کا ثبوت دینے کی کوشش کی ہے۔ اسی حصہ میں ہم کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے ابتدائی ایام کے بارے پڑھتے ہیں۔ اگر آپ نے نوے کی دہائی میں کمپیوٹر استعمال کیا ہے تو اس حصہ میں آپ کچھ ناسٹیلجک سا محسوس کریں گے۔ سنوڈن کا کہنا ہے کہ نوے کی پوری دہائی اور دو ہزار کے پہلے عشرے کے ابتدائی سالوں میں انٹرنیٹ ایک بالکل محفوظ جگہ تھی جہاں صارف کی پرائیویسی کو کوئی خطرات لاحق نہیں ہوا کرتے تھے۔

اس کے بعد نائین الیون ہو گیا اور سب کچھ بدل گیا۔ خفیہ ایجنسیوں نے اپنے لیے وسیع اختیارات اور کئی گنا زیادہ بجٹ کی مانگ شروع کر دی۔ بیشتر امریکیوں،بشمول سنوڈن، نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی پر زور حمایت کی (سنوڈن اسے اپنی زندگی کی سب سے بڑی حماقت لکھتے ہیں)۔ اسی جذبہ کے تحت سنوڈن نے فوج میں شمولت اختیار کی لیکن جلد ہی ان فٹ ہو کر واپس ہوئے۔ اس کے بعد انہیں کنٹریکٹ پر سی آئی اے میں بھرتی کر لیا گیا جہاں سے اس کتاب اور سنوڈن کی زندگی کا دوسرا حصہ شروع ہوتا ہے۔

کنٹریکٹ پر بھرتی کرنے کے پیچھے کافی دلچسپ حقائق بیان کیے ہیں۔ دیکھیں، پہلے تو ہر جاسوسی ادارے پر حکومت کی طرف سے بندے بھرتی کرنے کی ایک حد ہوتی ہے جس سے اوپر لوگ ملازمت پر نہیں رکھے جا سکتے۔ تو امریکی ایجنسیوں نے اس کا جگاڑ یہ نکالا کہ جاسوس کنٹریکٹرز کے ذریعہ بھرتی کرنے شروع کر دیے۔ ان کا سب سے بڑا فائدہ تو یہ تھا کہ جتنے مرضی لوگ ملازمت پہ رکھے جائیں ،دوسرا یہ کہ بغیر کاغذی کاروائی کے فوری بھرتی، تیسرا یہ کہ کچھ الٹا سیدھا ہو جائے تو بعد میں ایجنسی مکر سکتی ہے کہ ہمارا تو ان صاحب یا صاحبہ سے کوئی تعلق نہیں۔ بلیک واٹر کا نام آپ نے سنا ہی ہو گا، یہ بنیادی طور پر پرائیویٹ کنٹریکٹرز ہی ہیں جو امریکی فوج کے لیے وہ کام کرتے ہیں جو فوج براہِ راست خود نہیں کر سکتی۔

سنوڈن کے بقول ان کنٹریکٹرز کو ٹھیکے دینے کی جو سینیٹرز منظوری دیتے ہیں، سیاست سے ریٹائرمنٹ کے بعد ان میں سے کئی انہی کمپنیز میں اعلیٰ عہدوں پر ملازمت اختیار کر لیتے ہیں۔ تیسرا نکتہ یہ ہے کہ اگر کوئی پرائیویٹ کنٹریکٹر کسی ایجنسی کے لیے کسی شخص کو ملازمت پہ رکھ رہا ہے تو اس شخص کی جتنی زیادہ تنخواہ ہو گی اتنا ہی کنٹریکٹر کو کمیشن ملتا ہے، سو کنٹریکٹرز کی کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ تنخواہ پہ بندے رکھے جائیں۔ ایک موقع پہ سنوڈن نے چالیس ہزار ڈالرز سالانہ کی ڈیمانڈ کی تھی، کنٹریکٹرز نے باسٹھ چونسٹھ ہزار ڈالرز سالانہ پہ رکھ لیا۔

خیر، سنوڈن کی ملازمت شروع ہوئی تو یہ سی آئی اے اور این ایس اے میں مختلف لوکیشنز پر مختلف عہدوں پہ کام کرتے رہے۔ موصوف جنیوا میں سی آئی کے ساتھ رہے اور وہاں دنیا بھر سے آنے والے ڈیلیگیٹس کے Computer Hack کرنے کی کوشش کرتے تھے تاکہ ان کے کوئی راز وغیرہ چرا سکیں۔ ادھر کا ایک واقعہ سنوڈن نے لکھا ہے کہ ایک سعودی بینکر کو سی آئی اے جنیوا میں اپنا ایجنٹ بنانے کی کوشش کر رہی تھی مگر اس میں انہیں کوئی خاطرخواہ کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ سنوڈن نے اس کا تذکرہ این ایس میں اپنے ایک دوست سے کیا تو اس نے کہا کہ تم ایسے ہی خجل ہوئے، ہمیں بس اس کا جی میل ایڈریس دے دیتے، باقی کام ہم سنبھال لیتے۔

کچھ عرصہ بعد سنوڈن صاحب کو جاپان میں بھیج دیا گیا۔ ادھر کچھ قت بعد ہوا یہ کہ ایک کانفرنس ہوئی جس میں امریکہ کی تمام سیکورٹی ایجنسیز نے شرکت کی۔ اس میں یہ ڈسکس کیا گیا کہ چین امریکی ایجنسیوں پر کس طرح کے سائبر حملے کر رہا ہے اور ان سے کس طرح بچا جائے۔ جس بندے نے وہاں پریزینٹیشن دینی تھی، عین وقت پر وہ پہنچ نہ سکا تو سنوڈن کو کہا گیا کہ میاں ذرا تمہی دے دو پریزینٹیشن۔ تو اس کی تیاری کے لیے سنوڈن نے این ایس اے کا ڈیٹا کھنگالا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ کیسے چین روزانہ کی بنیاد پر اربوں فون کالز کو نہ صرف ٹیپ کر رہا ہے،بلکہ سٹور کرنے کے ساتھ ساتھ اس کا تجزیہ بھی کر رہا ہے۔ اس وقت سنوڈن کے ذہن میں یہ بات آئی کہ اگر چین ایسا کر سکتا ہے تو امریکہ بھی ایسا ہی کر رہا ہو گا۔ اس وقت تو سنوڈن نے یہ خیال جھٹلا دیا مگر بعد میں ایک خفیہ رپورٹ ان کے ہاتھ لگی جس نے ان کے شکوک کی تصدیق کر دی۔

سنوڈن کے مطابق انٹرنیٹ پر ہونے والی ہر ایکٹویٹی ریکارڈ ، محفوظ اور تجزیہ کی جا رہی ہے۔ آپ نے کون سی ویب سائٹ وزٹ کی، کس فیس بک پوسٹ کو غور سے پڑھا، کسے لائیک کر کے ان لائیک کر دیا، انٹرنیٹ پر کونسی فائل اپلوڈ کر کے پھر ڈیلیٹ کر دی، اس سب کا ریکارڈ محفوظ ہے۔ ایجنسیز کے پاس اتنی ٹیکنالوجی ہے کہ وہ کہیں بھی کسی بھی بندے کے موبائل کا کیمرہ، گیلری یا مائیک اس کے نوٹس میں لائے بغیر آن کر سکتے ہیں ۔

آپ کی انٹرنیٹ استعمال کرنے کی عادات کے ذریعہ آپ کی شخصیت کا ایک خاکہ بنایا جا رہا ہے۔ فون کالز ریکارڈ ہو رہی ہیں، انٹرنیٹ پر اپ لوڈ ہونے والے ویڈیو، آڈیوز، تصاویر ،تحاریر کو جدید ترین ٹیکنالوجی کے ذریعہ انگریزی میں تبدیل کر کے ان کا تجزیہ کیا جا رہا ہے ۔ آپ نے موبائل میں کچھ ڈیٹا کاپی کیا اور کچھ وقت بعد اسے ڈیلیٹ کر دیا مگر وہ ڈیٹا ڈیلیٹ نہیں ہوتا بلکہ آپ کے موبائل میں ہی محفوظ ہوتا ہے،صرف سسٹم اس پر یہ نوٹس لگا دیتا ہے کہ یہ جگہ خالی ہے جبکہ درحقیقت وہ جگہ خالی نہیں ہوتی۔ یہ صرف چند حقائق ہیں، پوری کتا ب اس طرح کےچشم کشا حقائق سے بھری پڑی ہے۔

کتاب کے تیسرے حصے میں سنوڈن پھر اپنی کہانی بتاتا ہے کہ کیسے اس نے ان سب کرتوتوں کا ڈیٹا کاپی کیا اور کیسے امریکہ سے ہانگ کانگ فرار ہوا اور وہاں جا کر صحافیوں کے ذریعہ یہ سب حقائق بےنقاب کیے۔ ان انکشافات کے بعد امریکہ اور یورپ کے کئی ممالک میں آن لائن پرائیوسی کے تحفظ کےلیے کافی اقدامات کیے گئے۔ ویب سائیٹس کے ایڈریس میں ایچ ٹی ٹی پی کے بعد لکھا جانے والا ایس درحقیقت سیکیور یعنی محفوظ براؤزنگ کی یقین دہانی کراتا ہے۔

سنوڈن کے بقول پرائیویسی ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور یہ کہنا کہ کیونکہ آپ کے اس چھپانے کو کچھ نہیں تو اس لیے آپ کو مسئلہ نہیں کہ آپ کی حکومت آپ کی سب کالز اور سب ڈیٹا ریکارڈ کرے، تو یہ ایسا ہی ہے کہ آپ کہیں کہ آپ آزادیِ اظہارِ رائے کے حق میں اس لیے نہیں کیونکہ آپ کے پاس کہنے کو کچھ نہیں۔


یہ ویڈیو فیس بک پر دیکھیں


یہ ویڈیو یوٹیوب پردیکھیں

مزید کتب پر تبصرہ پڑھنے کےلیے Click here to read more book reviews

Related Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *