جغرافیہ کے قیدی Prisoners of Geography

Tim Marshall ایک ایوارڈ یافتہ برطانوی صحافی ہیں جنہوں نے پچیس سال تک دنیا کے چالیس ملکوں سے عالمی تنازعات پر رپورٹنگ کی ہے۔ان کی یہ کتاب ْجغرافیہ کے قیدیٗ ان کے پچیس سالہ صحافتی تجربہ کا نچوڑ ہے۔ مارشل کا کہنا ہے کہ ملکوں کا جغرافیہ ایک جیل کے مانند ہے جس سے فرار ناممکن ہے۔ سربراہانِ مملکت اپنے فیصلوں میں جتنے بھی خودمختار کیوں نہ ہوں، بالآخر انہیں جغرافیہ کی حقیقتوں کے زیرِ اثر ہی رہنا پڑتا ہے۔ اچھا یہ کتاب پڑھنے سے قاری پر یہ حقیقیت منکشف ہوتی ہے کہ دنیا کے زیادہ تر خطوں میں سرحدی تنازعات کی اصل وجہ مغربی سامراج کی طرف سے مختلف ملکوں‌کی غیر منطقی اور زمینی حقائق کے الٹ‌تقسیم ہے. جیسے برصغیر کی تقسیم میں کشمیر کا تنازعہ، شمالی و جنوبی کوریا کی تقسیم میں لاپرواہی، مشرقِ وسطی کی تقسیم میں فرقہ وارانہ و نسلی امتیازات سے صرفِ نظر کرنا. جغرافیہ کے قیدی کی اپنی تھیوری کو مارشل نے دس نقشوں کی مدد سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔
روس جغرافیہ کے حساب سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ ساٹھ لاکھ مربع میل پر مشتمل اس ملک کا رقبہ گیارہ ٹائم زونز سے گزرتا ہے۔ایک طرف اس کی سرحدیں یورپ میں ہیں دوسری طرف اس کا ایک وسیع رقبہ ایشیاء میں بھی ہے۔روس کا جغرافیہ ہی اس کا سب سے بڑا دفاعی ہتھیار ہے۔ شمال میں آرکٹیکٹ ہے جو ہزاروں سال سے منجمد ہے، جنوب میں منگولیا اور کازکستان ہیں جہاں سے دو وجوہات کی بنا پہ روس کو کوئی خطرہ نہیں۔ایک تو ان دونوں ملکوں کے ساتھ روس کا جغرافیہ ایسا نہیں کہ کوئی فوج وہاں سے روس پر لشکر کشی کر سکے، اگر جغرافیہ ایسا ہو تب بھی یہ دونوں ملک فوجی اعتبار سے اس قابل نہیں کہ روس جیسی طاقت سے براہِ راست پنگا مول لیں،پھر قازقستان ہے بھی روس کا حلیف۔ویسے یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ وسطی ایشیائی ریاستوں کی تشکیل کے وقت سٹالن نے ایک منصوبہ بندی کے تحت اس طرح سے ریاستوں کی سرحدیں کھینچی تھیں کہ ہر ملک میں ایک بڑی اقلیت موجود ہو جسے بوقتِ ضرورت اکثریت کے خلاف بھڑکایا جا سکے۔اسی وجہ سے وسط ایشیائی ریاستیں سیاسی طور پر کمزور ہیں اور روس کے لیے خطرہ نہیں ہیں۔اگر مشرق کی بات کی جائے تو اُس طرف سمند رہے اور سمندر کے ساتھ روس کا زیادہ تر رقبہ منجمد پہاڑوں پر مشتمل ہےجہاں سے فوج کشی ممکن نہیں۔اب صرف ایک سمت ایسی رہتی ہے جہاں سے روس پر حملہ کیا جا سکتا ہے اور وہ ہے مغرب سے یورپ والی سمت۔ اور اسی وجہ سے روسی خارجہ پالیسی کا فوکس اپنی مغربی سمت کو محفوظ رکھنا ہے۔مغرب سے ہونے والا حملہ یوکرائین کے راستے سے ہوگا چنانچہ روس یہ کبھی نہیں چاہے گا کہ یوکرائین میں روس مخالف حکومت ہو۔ جغرافیائی طور پر یوکرائین کی اہمیت اس سے بھی واضح ہوتی ہےکہ کریمیا کی بندرگاہ سواستوپول واحد بندرگاہ ہے جس کے ذریعہ پورا سال روس کے پاس سمندری راستہ کھلا ہوتا ہے۔ورنہ روس کی اپنی بندرگاہیں سال کا زیادہ تر وقت منجمد رہتی ہیں۔ انہی منجمد بندرگاہوں کی وجہ سے روس کا ایک طویل عرصہ تک خواب رہا کہ اس کی فوجیں بحیرہِ عرب کے گرم پانیوں میں اپنے بوٹ دھو سکیں۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو گرم پانیوں تک رسائی کےلیے افغانستان پر حملہ بھی روس کی ایک جغرافیائی مجبوری تھی۔ یورپ کی طرف سے حملہ کرنے کےلیے فوجوں کو مالدوا سے بھی گزرنا پڑے گا۔اس لیے سٹالن نے مالدوا میں روسی مہاجرین کو آباد کرنا شروع کر دیا تھا۔ایک اندازے کے مطابق مالدوا کی پچاس فیصد آبادی روسی الاصل ہے اور وقت پڑنے پر روس کی حمایت میں میدان میں اتر سکتی ہے۔سرد جنگ کے اختتام کے بعد روس نے یورپی ریاستوں کے ساتھ تجارتی تعلقات مضبوط بنانا شروع کر دیے تھے۔اب یورپ کی توانائی کی ضرورتوں کا ایک چوتھائی حصہ روس پورا کرتا ہے۔اس لیے اب یہ ممکن نہیں کہ یورپ روس کے خلاف کوئی عملی اقدامات اٹھائے۔امریکہ کی کوشش ہے کہ یورپ امریکی ایل این جی کی طرف شفٹ ہو جائے لیکن فی الفور یہ ممکن نہیں۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ جغرافیائی اعتبار سے روس محفوظ ہے۔


چین کے شمال میں صحرائے گوبی کی صورت میں ایک جغرافیائی دفاع موجودہے،روس کے ساتھ سرحدی علاقہ پہاڑی ہے۔ جنوب میں لاؤس اور برما کے ساتھ سرحدی علاقہ بھی پہاڑی ہونے کی وجہ سے محفوظ ہے۔اس طرف صرف ویتنام ہی ہے جہاں سے چین پر حملہ کیا جا سکتا ہے لیکن ویتنام ایک کمزور ملک ہے جس سے چین کو کوئی خطرہ نہیں۔تبت کو چین کا پانی کا منبع کہا جاتا ہے،یہاں بھارت کا اثرورسوخ چین کےلیے پریشانی کا باعث بن سکتا ہے۔اسی خطرہ کو کم کرنے کےلیے چین نے ایک ناممکن کام کیا،تبت کے خطرناک پہاڑوں سے ریلوے ٹریک گزار کر اسے چین کے باقی علاقوں سے منسلک کیا اور ہان نسل کے چینیوں کو ایک وسیع تعداد میں یہاں آباد کرنا شروع کر دیا۔غیرسرکاری ذرائع کے مطابق اب تبت میں ہان افراد کی تعداد تبتیوں سے زیادہ ہے۔قازقستان ایک کمزور ملک ہے ،اسی لیے یہ سرحد بھی چین کےلیے محفوظ ہے۔انڈیا اور پاکستان کے ساتھ چین کی سرحد بھی کوہِ قراقرم کی وجہ سے کسی فوجی لشکرکشی کےلیے موافق نہیں۔تائیوان پر چین کا دعویٰ ہے لیکن چینی اسے فوجی قبضہ کی بجائے معاشی رسیوں سے جکڑ رہے ہیں ۔امریکہ بھی تائیوان میں انویسٹ کر رہا ہے کیونکہ چین جیسی طاقت کے ہمسائے میں ایک امریکی حلیف کا ہونا امریکہ کی جغرافیائی ضرورت ہے۔سنکیانگ میں امن و امان کی صورتحال جتنی بھی بدتر ہو،چینی اسے ہاتھ سے کھونے نہیں دیں گے۔کیونکہ سنکیانگ کی سرحدیں آٹھ ملکوں سے ملتی ہیں اور یہ ایک طرح سے چین اور باقی آٹھ ملکوں کے درمیان بفر زون کی حیثیت رکھتا ہے۔چین اپنی ضرورت کا تیل زیادہ تر مشرقِ وسطیٰ سے درآمد کرتا ہے جس کی سپلائی سٹریٹ آف ملاکہ سے ہوتی ہے جو کہ انڈونیشیا اور ملائیشیا کے درمیان سے گزرتی ہے۔یہ دونوں ملک امریکہ کے حلیف ہیں اور خطرہ ہے کہ کسی تنازعہ کی صورت میں، امریکہ کی ایما پر،یہ ممالک سٹریٹ آف ملاکہ کو بند کر دیں گے جس سے چین کی تیل کی سپلائی متاثر ہو گی۔ اس راستے کا متبادل تیار کرنا چین کی جغرافیائی ضرورت ہے جسے پورا کرنے کے لیے چین سی پیک پر انویسٹمینٹ کررہا ہے تاکہ تیل کی سپلائی کا ایک محفوظ اور مختصر روٹ تیار کیا جا سکے۔اسی طرح ساؤتھ چائیناسی بھی ایک اہم گزرگاہ ہے جہاں سے دنیا کی تجارت کا کافی حصہ گزرتا ہے۔ کوئی بھی ملک جو ایشیائی طاقت یا عالمی طاقت بننے کا خواب دیکھتا ہے،اس کےلیے ساؤتھ چائینا سمندر پر کنٹرول حاصل کرنا ایک اہم جغرافیائی ضرورت ہے۔اسی وجہ سے چین اپنی سمندری افواج کو مزید طاقتور بنانے کی طرف گامزن ہے۔ اس سے ایک مراد یہ بھی کہ چین جو مرضی کر لے اس کا جاپان سے تنازعہ ہو کر ہی رہے گا کیونکہ جاپان بھی اس سمندر پر کنٹرول حاصل کرنے کا خواہاں ہے۔اپنے جغرافیہ کی بدولت چین ایک ایشیائی طاقت تو بن ہی چکا ہے لیکن عالمی طاقت بننے کےلیے اسے معاشی،فوجی اور جغرافیائی اعتبار سے امریکہ جتنا مضبوط ملک بننا ہو گا۔

امریکہ کی قدرتی سرحدیں ہی اس کا سب سے بڑا دفاعی ہتھیار ہیں۔دو اطراف میں سمندر ہی سمندر ہے۔باقی دو اطراف میں فرمانبردار ہمسائے ہیں جو معاشی،فوجی اور نظریاتی اعتبار سے اتنے طاقتور نہیں کہ امریکہ کےلیے خطرہ بن سکیں۔ کسی بھی بڑی طاقت کو امریکہ پر لشکر کشی کےلیے ہزاروں کلومیٹر لمبی سپلائی لائن برقرار رکھنا ہو گی جو کہ ایک طاقتور امریکی بحری فوج کی موجودگی میں ناممکن ہے۔کہا جاتا ہے کہ امریکہ کے دو نقشے ہیں۔ایک اس کا حقیقی جغرافیائی نقشہ جو براعظم امریکہ میں ریاستہائے متحدہ امریکہ کی حدود متعین کرتا ہے۔ دوسرا ایک تصوراتی خاکہ جو پوری دنیا میں امریکہ کے فوجی اڈوں،بحری بیڑوں اور حلیف ممالک کا احاطہ کرتا ہے۔ دوسری جنگِ عظیم میں برطانیہ کو جنگ میں امریکی تباہ کن بیڑوں کی ضرورت پڑی تو امریکہ نے اس شرط پر دینے کی ہامی بھری کہ بدلے میں برطانیہ اپنے بحری اڈے امریکہ کے حوالے کرے گا۔برطانیہ کے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا۔دوسری جنگِ عظیم کے اختتام پرروس، چین،برطانیہ، جاپان، فرانس اور جرمنی کی تباہی کے بعد امریکہ ایک طاقتور ملک کے طور پر ابھرا جس نے ایک طرف تو تباہ حال یورپ اور جاپان کی معیشت و انفراسٹرکچر کی بحالی کےلیے کوششیں کیں اور دوسری طرف دنیا بھر میں اپنے فوجی اڈوں کو مضبوط بنانے میں محنت صرف کی۔سرد جنگ کے دنوں میں سوویت یونین ایک عالمی طاقت ضرور تھی لیکن روسیوں کو پتہ تھا کہ دنیا بھر میں کہیں بھی کچھ بھی امریکہ کی مرضی کے خلاف ہوا تو امریکہ اس کا فورا َجواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔فی الوقت امریکہ کےلیے چین ایک فوری خطرہ ہے۔ لیکن یہ خطرہ عسکری اعتبار سے نہیں، معاشی اعتبار سے ہے۔ اگرچہ دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کے امکانات ضرور ہیں۔ تائیوان کو چین اپنا تیئسواں صوبہ گردانتا ہے مگر اسی تائیوان کے ساتھ امریکہ کا معاہدہ ہے جس کی رو سے چین کی طرف سے تائیوان پر حملہ کی صورت میں امریکہ تائیوان کا دفاع کرے گا۔ساؤتھ چائینا سی میں چینی عزائم امریکی مفادات سے ٹکراؤ رکھتے ہیں۔ مستقبل میں اس خطہ پر چین نے اگر اپنا کنٹرول مضبوط کرنے کی کوشش کی تو امریکہ ایشیاء میں اپنے اتحادیوں کا مورال بلند کرنے کےلیے چین کی پیش قدمی کا جواب عسکری کارروائی سے دے سکتا ہے ۔ لیکن چین اور امریکہ دونوں ہی معاشی طور پر ایک دوسرے پر کافی انحصار کرتے ہیں جس سے امید کی جا سکتی ہے کہ معاشی پہلو،جغرافیائی برتری کی جنگ پر سبقت لے جائے گا۔ امریکہ کی انرجی کا ایک بڑا حصہ مشرقِ وسطیٰ سے تیل کی برآمدات کی صورت میں آتا ہے جس کی وجہ سے اس خطہ میں امریکی فوجی اڈوں کا ہونا ضروری ہے۔ مگر شیل گیس کی دریافت کے بعد امید ہے کہ امریکہ کا انحصار خام تیل پر کم ہو جائے گا۔اس کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں اپنے حلیف ممالک کے تحفظ سے شاید امریکہ بےنیاز ہو جائے۔ اسی مستقبل کو ذہن میں رکھتے ہوئے چین اور روس دونوں ہی مشرقِ وسطیٰ میں نئی جغرافیائی حقیقتوں کی تشکیل میں مصروف ہیں۔

یورپ میں موسم، زمین اور دریا سبھی تجارت ،زراعت اور ٹیکنالوجی کی ترقی میں معاون ہیں۔ دریائے ڈینوب کئی ممالک کی قدرتی سرحد کا کام سرانجام دیتا ہے۔البتہ شمالی اور جنوبی یورپ کی ترقی میں فرق ضرور ہے کیونکہ شمالی یورپ کا علاقہ تجارت، زراعت اور صنعتوں کے فروغ کےلیے زیادہ موزوں ہے۔ جبکہ جنوبی یورپ کے ساحلی علاقوں، ناہموار زمین اور ناقابلِ سفر دریاؤں نے اسے شمالی یورپ سے کم ترقی یافتہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔سویڈن اور فن لینڈنیٹو میں شامل ہونے کی جتنی مرضی خواہش رکھیں،وہ کیونکہ جغرافیائی طور پرروس کے قریب ہیں اس لیے ان ممالک کا نیٹو میں شمولیت اختیار کرنا روس کےلیے ناقابلِ قبول ہو گا کیونکہ نیٹو میں شمولیت کا مطلب روس کے ہمسائے میں امریکی میزائلوں کی ممکنہ تنصیب ہو سکتا ہے۔ پولینڈ کا روس کے ساتھ ہونا امریکہ کےلیے ایک اہم جغرافیائی اتحادی ہونے کا باعث ہے۔ فرانس اور جرمنی جو پہلے حریف تھے، جنگِ عظیم دوئم کے بعد حلیف بنے اور بےمثال معاشی تعاون قائم کیا۔لیکن اب جرمنی کے روسی انرجی پر انحصار نے اسے یورپ کےلیے مشکوک بنا دیا ہے۔ برطانیہ کو اپنے جغرافیہ کا یہ فائدہ ہےکہ چاروں طرف سمندر اور زرعی علاقہ نے اس کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔یورپی یونین کے قیام نے کل کے محارب ملکوں کو ایک بااعتبار اتحادی بنا دیا ہے لیکن کوئی بھی معاشی جھٹکا اس اتحاد میں دراڑیں ڈال سکتا ہے۔


نقشہ پر افریقہ بظاہر امریکہ جتنا ہی دکھائی دیتا ہے لیکن درحقیقت یہ امریکہ سے تین گنا زیادہ بڑا رقبہ ہے۔یہ ایک متنوع جغرافیہ پر مشتمل ملک ہے جس کے ناموزوں موسم اورسخت گرمی نے بہت سی متعدی بیماریوں کے پنپنے میں اہم کردار ادا کیا۔افریقہ کے دریا قابلِ سفر نہیں ہیں جس کا مطلب ہے کہ یہ تجارت کے فروغ میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتے۔افریقہ کے تین اطراف میں سمندر اور چوتھی سمت صحرائے صحارا ہے جس کی وجہ سے یہ ہزاروں سال تک باقی دنیا سے لاتعلق رہا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جغرافیائی حدود و قیود کی وجہ سے باقی دنیا کی نسبت افریقہ میں جدید ٹیکنالوجی بہت دیر سے پہنچی۔ یہ مسلمان فاتحین ہی تھے جنہوں نے پہلی دفعہ اس وسیع و عریض صحرا کو پار کر کے سرزمین ِافریقہ پر قدم رکھا۔بعد میں یورپی اقوام نے افریقہ کو اپنی کالونی بنایا تو یہاں کے لوگوں کو اپنا غلام بنا لیا۔ جاتے جاتے یورپی اقوام نے افریقہ میں مستقل محارب ریاستوں کا بیج بو دیا۔ مثال کے طور پر جمہوریہِ کانگو میں انارکی اس بات کا ثبوت ہے کہ کالونیل طاقتوں کی طرف سے مصنوعی ریاستو ں کا قیام ایک تباہ کن تجربہ ہے۔مصر اور ایتھوپیا کے درمیان دریائے نیل کے حوالے سے اختلافات ہیں۔نائیجریا کے شمالی و جنوبی خطوں میں تیل کی آمدن کی یکساں تقسیم کے حوالے سے تنازعات موجود ہیں۔چین افریقہ میں اپنے قدم مضبوطی سے جما رہا ہے جس کی ایک مثال انگولا ہے جہاں سی پیک کی طرز کا ایک چودہ بلین ڈالرز کا سی آر ای سی نامی پراجیکٹ ہے جو انگولا کے مختلف شہروں کو ریلوے لائن سے ملائے گا۔اس خطہ کا ایک اہم ملک ساؤتھ افریقہ ہے جو باقی ممالک کے ساتھ ریلوے کے مربوط نظام سے منسلک ہے۔یہاں کی آب و ہوا ملیریا کے پنپنے کےلیے موزوں نہیں جس کی وجہ سے یہاں متعدی بیماریاں وجود نہیں رکھتیں۔ زیادہ تر افریقی ممالک کی معیشت کا انحصار عالمی مارکیٹ میں تیل اور معدنیات کی قیمتوں پر ہے۔ یہ ممالک کیونکہ جغرافیائی طور پر ایک دوسرے سے منسلک نہیں اس لیے یہاں ترقی کی رفتار کم ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مواصلات کا نظام بہتر ہو رہا ہے۔


مشرقِ وسطیٰ کی موجودہ ابتری کا ذمہ دار سائیکس پکٹ معاہدہ ہے جس میں برطانوی و فرانسیسی سفارتکاروں نے جنگِ عظیم اول کے بعد عرب دنیا کو اپنے من پسند ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ بنایا۔ان سفارتکاروں نے نقشہ پر یہ سوچے بغیر،یا شاید ایک باقاعدہ منصوبہ بندی سے اس طرح لکیریں کھینچیں کہ مختلف ممالک میں ایک واضح اقلیت ہو اور اس کے مقتدر اشرافیہ کے ساتھ اختلافات ہوں۔ عراق میں کردوں نے مسائل پیدا کیے ہوئے ہیں، اردن اور لبنان میں فرقہ وارانہ اختلافات پیدا ہو چکے ہیں، شام میں فرانس نے شیعہ اقلیت کو ملک کا حکمران بنوا دیا تھا جس کی وجہ سے وہاں کی سنی اکثریت برانگیختہ ہو گئی۔ عراق اور شام میں خانہ جنگی نسلی و فرقہ وارانہ اختلافات کی وجہ سے ہے۔دوسری طرف انگریزوں نے سعودیہ کے ہاشمی خاندان کو اردن کے بدوؤں پر حکمران بنا دیا۔ فلسطین سے آئے پناہ گزین بھی اردن کے حکمرانوں کے لیے کوئی خاص ہمدردی محسوس نہیں کرتے۔اردن اور سعودیہ کو جہادیوں کی نئی نسل سے خطرہ ہے جو ٹیکنالوجی اور جدید تعلیم سے لیس ہے۔مصنف کے مطابق اسرائیل مشرقِ وسطیٰ میں امن و امان کی خرابی کا ذمہ دار نہیں بلکہ عرب ڈکٹیٹرز نے اپنی نااہلی سے توجہ ہٹانے کے لیے اسرائیل کا بہانہ تراشہ ہوا ہے۔لبنان پہلے شام کا حصہ تھا مگر اس کی علیحدگی کے بعد شام کی براہِ راست سمندر تک رسائی بہت مشکل ہو گئی ہے۔ ایران کی حفاظت خدا کے بعد اس کا جغرافیہ کر رہا ہے کیونکہ یہ پہاڑوں اور سمندر سے گھرا ہوا ہے۔ایران کو جغرافیائی طور پر ایک اور اہمیت بھی حاصل ہے کہ یہ سٹریٹ آف ہرمز کو کسی بھی وقت بند کر سکتا ہے۔ یہ سٹریٹ، یا سمندری گزرگاہ، تیل کی دنیا بھر میں سپلائی کے لیے بہت ضروری ہے اس وجہ سے دنیا کا کوئی ملک نہیں چاہتا کہ اسے بند کیا جائے۔ ایران اور ترکی دونوں ہی علاقائی طاقت بننے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ترکی ایک طویل عرصہ تک یورپی یونین میں شامل ہونے کا خواہاں اور امریکی کی نظرِ عنایت کا منتظر رہا لیکن یورپی اقوام کی بے اعتنائی کے بعد ترکی نے طاقت کے دوسرے مراکز یعنی چین اور روس کی طرف توجہ کر لی۔ مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی کی ایک اور وجہ سعودیہ اور ایران کے مسلکی اور سیاسی اختلافات ہیں۔بہرحال یہ کہا جا سکتا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کی ابتری کی ذمہ داری برطانیہ اور فرانس کی طرف سے اس خطہ کی جغرافیائی حقیقتوں سے چشم پوشی کرتے ہوئے غیر ذمہ دارانہ تقسیم ہے۔


پاکستان اور بھارت کے درمیان اختلافات کی ذمہ داری بھی برطانوی سامراج کی طرف سے برصغیر کی غیر ذمہ دارانہ تقسیم پر عائد ہوتی ہے۔ کشمیر کا تنازعہ اور خونی فسادات جیسا ماضی رکھنے والے یہ دونوں ممالک ماضی کے شکوک بھلا کر آگے بڑھنے کو تیار نہیں۔اسی وجہ سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی فوکس بھارت کی خطہ میں پیش قدمی کو روکنا ہے۔ دونوں ملک اپنے جغرافیہ کے قیدی ہیں۔وسطی ایشیائی ریاستوں تک براہِ راست رسائی کے لیے اور پاکستان کے دریاؤں کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کےلیے بھارت کو کشمیر کی ضرورت ہے۔پاکستان کو کشمیر اس لیے چاہیے کیونکہ اس کے دریاؤں کا مرکز کشمیر ہے، دوسرا یہ کہ کشمیر کی وجہ سے پاکستان کی سرحد چین سے ملتی ہے جس کی جغرافیائی ہمسائیگی پاکستان کے لیے کئی گراں قدر فوائد کا باعث ہے۔ افغانستان میں ایک دوست حکومت کا قیام پاکستان کی جغرافیائی مجبوری ہے۔ طالبان کی حمایت پر اسلام آباد کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، لیکن یہ تنقید اس حقیقت کی طرف چشم پوشی ہے کہ بھارت جیسے حریف کو افغانستان میں پاکستان قدم نہیں جمانے دے سکتا۔یہ پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کرنے جیسا قدم ہو گا۔ بنگلہ دیش کی آزادی کا اصل محرک متحدہ پاکستان کا جغرافیہ تھا ۔ مغربی و مشرقی پاکستان کے درمیان کئی ہزار کلومیٹر طویل بھارت کی سرزمین تھی جس کی وجہ سے مشرقی پاکستان کا دفاع مشکل تھا۔بھارت چین پر دباؤ ڈالنے کےلیے دلائی لامہ کو سفارتی مدد فراہم کرتا ہے تو چین بھارت کو سبق سکھانے کےلیے ماؤ باغیوں کو اسلحہ فراہم کرتا ہے۔ماؤ باغیوں کو اسلحہ فراہم کرنا چین کی نظریاتی نہیں بلکہ جغرافیائی ضرورت ہے۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی نااہلی کے طفیل، برصغیر کا جغرافیہ دونوں ممالک میں اختلافات کو برقرار رکھے گا۔


دوسری جنگِ عظیم کے اختتام پر امریکی جاپان کو شکست دینے میں اتنے مگن تھے کہ انہوں نے کوریا کے مستقبل کے بارے میں کچھ سوچا بھی نہیں تھا۔جاپان کی شکست کے بعد کوریا کا مسئلہ درپیش ہوا تو وائٹ ہاؤس کے دو جونیئر افسران نیشنل جیوگرافک کا ایک نقشہ اٹھا لائے اور بغیر سوچے سمجھے جلد بازی میں اڑتیسویں متوازی لائن پر لکیر کھینچ کر کوریا کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔اس فیصلہ کے وقت نہ ہی کوئی کورین باشندہ نہ کورین معاملات کا کوئی ماہر موجود تھا ورنہ وہ امریکی حکام کو اس فیصلہ کے تباہ کن اثرات کے بارے ضرور بتاتا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ جنوبی کوریا کا دارالحکومت شمالی کوریا کی سرحد سے فقط پینتیس میل کی دوری پر ہے۔اس جغرافیائی حقیقت کا مطلب ہے کہ کسی بھی ممکنہ جنگ کے نتیجہ میں شمالی کوریا کے پاس جنوبی کوریا کی ایک وسیع آبادی کو صفحہِ ہستی سے مٹانے کا اچھا بھلا وقت دستیاب ہو گا۔جب تک امریکہ اپنے اتحادی ملک کے دفاع میں پہنچے گا ، جنوبی کوریا ایک ناقابلِ یقین تباہی سے دوچار ہو چکا ہو گا۔ چین کو اپنی سرحد کے پاس امریکی افواج کی موجودگی منظور نہیں، چنانچہ وہ شمالی کوریا کی حمایت جاری رکھے گا۔ امریکہ اپنے حلیف کو اکیلا نہیں چھوڑنا چاہے گا، مزید برآں، چین کی سرحد کے ساتھ ایک امریکی حلیف کا ہونا ایک جغرافیائی ضرورت ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کوریا کا اتحاد بہت سے ملکوں کے لیے ناقابل قبول ہے ۔جاپان اپنے ہمسائے میں ایک ابھرتی ہوئی طاقت کو قبول نہیں کرنا چاہے گا۔ جب تک دونوں کوریا ایک دوسرے سے باہم دست و گریباں ہیں، عالمی طاقتوں کے مفادات کا کاروبار چلتا رہے گا۔ جہاں تک جاپان کی بات ہے، تو ایک زمانے میں جاپان نے انڈوچائینا کے اکثر ممالک پر قبضہ جما لیا تھا ،حتیٰ کے جاپانی جہازوں نے امریکی جزیرہ پرل ہاربر پر بھی دھاوا بول دیا تھا۔جنگ جیتنے کے بعد امریکہ نے جاپان پر فوج رکھنے پر پابندی عائد کر دی لیکن تازہ جغرافیائی حقائق کے پیشِ نظر، امریکہ کو اس خطہ میں فوجی لحاظ سے ایک مضبوط ملک چاہیے جو شمالی کوریا، چین اور روس کو چیلنج کر سکے۔ اس لیے اب جاپان دوبارہ آہستہ آہستہ اپنی فوجی طاقت بحال کرنے کی طرف جا رہا ہے۔

لاطینی امریکہ کے مسائل کی جڑ بھی یہاں صدیوں تک قابض سامراجی قوتوں کی پالیسی رہی ہے۔ یہ طاقتیں لاطینی امریکہ کے ساحلی علاقوں میں قیام پذیر تھیں جس کی وجہ سے اس خطہ کا اندرونی انفراسٹرکچر ترقی نہیں کر سکا۔مواصلات کے مربوط نظام کی عدم دستیابی، ناقابلِ سفر دریاؤں اور پہاڑوں نے اس خطہ کی تجارت میں رکاوٹیں پیدا کی ہیں۔مزید برآں، سامراجی قوتوں کی طرف سے جغرافیائی حقائق سے بےپروا سرحدوں کی تشکیل نے ملکوں کے درمیان سرحدی تنازعات کو جنم دیا ہے۔ کئی ممالک بہت وسیع رقبہ کے مالک ہیں مگر یہ رقبہ کسی قسم کی انڈسٹریل یا زرعی ترقی کے لیے ناموزوں ہے۔ میکسکو کا ایک وسیع رقبہ چٹیل پہاڑوں یا صحراؤں پر مشتمل ہے۔کولمبیا کے مشہورِ زمانہ منشیات فروش گینگز کے خلاف کارروائی نے منشیات فروشوں کو میکسکو میں اپنا ٹھکانا بنانا پڑا۔ اب یہ منشیات فروش ہی میکسکو پر اصل حکمرانی کرتے ہیں۔ لیکن اگر یہ منشیات کا پیسہ نہ ہوتا تو میکسکو اس سے زیادہ غریب ہوتا جتنا اب ہے۔ برازیل کا ایک تہائی حصہ ایمازون جنگل پر مشتمل ہے۔اگرچہ مقامی کسان اس جنگل کو کاٹ کر زراعت کر سکتے ہیں لیکن یہ زرعی رقبہ بھی چند سال بعد بنجر ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے مزید درخت کاٹنے پڑتے ہیں۔لاطینی امریکہ کی اہمیت پانامہ کینال کی وجہ سے دوچند ہو جاتی ہے۔ اس نہر سے تیل اور تجارتی اشیاء کا ایک بڑا حصہ گزرتا ہے۔عملی طور پر امریکی بحریہ اس نہر کی حفاظت کرتی ہے۔ کسی ناخوشگوار واقعہ کے بعد امریکہ یہ راستہ چین پر بند کر سکتا ہے چنانچہ چین ادھر بھی وہی منصوبہ بندی کر رہا ہے جو اس نے اسٹریٹ آف ملاکہ کے متبادل کے طور پر پاکستان میں سی پیک کی صورت میں کی تھی۔ چین نکاراگوا میں پچاس بلین ڈالر کی لاگت سے ایک وسیع و عریض نہر بنا رہا ہے جو پانامہ کینال سے بھی بڑی اور زیادہ گہری ہو گی، اس نہر کے بننے کے بعد چین کا انحصار پانامہ کینال پر ختم ہو جائے گا۔ چین کی طرف سے لاطینی امریکہ میں انویسٹمنٹ اپنی جگہ، یہ حقیقت سب ممالک سمجھتے ہیں کہ اس خطہ میں امریکہ کسی دوسرے کو اجارہ داری قائم نہیں کرنے دے گا۔ اپنی رٹ قائم کرنے کےلیے پچھلے سو ا سو سال میں امریکہ لاطینی امریکہ میں کم و بیش پچاس دفعہ لشکر کشی کر چکا ہے۔

آرکٹیک میں نئے دریافت شدہ معدنیات ، گیس اور تیل کے ذخائر اس خطہ کو اگلی گریٹ گیم کا مرکز بنا سکتے ہیں۔ روس اپنے آپ کو ایک آرکٹیک طاقت کے طور پر منوا چکا ہے۔ اس کے پاس بتیس آئیس بریکر ہیں جبکہ امریکہ کے پاس فقط ایک ہے۔ فی الوقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ آرکٹیک میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتا ۔

 

Click here to watch Video review of Prisoners of Geography

Click here to read more book reviews

Related Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *