Quaid e Azam's Ministers

Two Ministers of Quaid e Azam | Jogandar Nath Mandal and Sir Zafrullah Khan

Two Ministers of Quaid e Azam | Jogandar Nath Mandal and Sir Zafrullah Khan

پاکستان اسلام کے نام پہ ضرور بنا تھا لیکن گیارہ اگست انیس سو سینتالیس کی شہرہ آفاق تقریر میں جناح نے پاکستان میں بسنے والے تمام مذاہب کے پیروکاروں کو خوشخبری سنائی تھی کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب ہم اپنے مذاہب سے بالاتر ہو کر صرف بطور پاکستانی ایک دوسرے کو شناخت کریں گے.

جناح کے وزیرِ خارجہ سر ظفراللہ خان کٹر قادیانی اور وزیرِ قانون جوگندرناتھ منڈل ایک نچلی ذات کے دلت تھے.

جوگندرناتھ منڈل بھیم رائو رام جی بابا صاحب امبیدکر کے پیروکار تھے. یہ وہی امبیدکر ہیں جو دلتوں کے حقوق کے لیے چلائی جانے والی تحریک اور بھارت کے سیکولر آئین کے خالق تھے. انیس سو چھیالیس میں بنگال میں ہندو مسلم فسادات شروع ہوئے تو جوگندرناتھ نے بنگال کے طول و عرض میں سفر کر کے دلت ہندؤوں کو مسلمانوں کے خلاف تشدد نہ کرنے کی تلقین کی. قائد اعظم نے حسین شہید سہروردی کے ذریعہ انہیں مسلم لیگ کی طرف سے گورنمنٹ آف انڈیا میں شریک ہونے کی دعوت دی اور سوچنے کےلیے صرف ایک گھنٹہ دیا. جوگندرناتھ منڈل نے اس شرط پر حکومت میں شامل ہونے کی رضامندی ظاہر کی کہ اگر ان کے پیشوا امبیدکر جی (جو اس وقت لندن میں تھے) نے اجازت نہ دی تو میں استعفیٰ دے دوں گا. بعد میں امبیدکر جی نے لندن سے بذریعہ ٹیلیگرام جوگندرناتھ کو مسلم لیگ کی طرف سے مشترکہ ہندوستان کی حکومت کا حصہ بننے کی اجازت دے دی. پاکستان بننے کے بعد جناح نے انہیں وزیرِ قانون بنایا اور وہ کراچی شفٹ ہو گئے. لیکن جناح کی وفات کے بعد منڈل صاحب دو سال بھی نہ نکال سکے. ہندؤوں کے ساتھ امتیازی سلوک برتے جانے پر احتجاجاً اپنا استعفیٰ لیاقت علی خان کو بھجوایا اور بھارت شفٹ ہو گئے.

سر ظفراللہ خان اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب، اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر اور بعد میں عالمی عدالتِ انصاف کے جج اور اس کے صدر بھی رہے اور میرے خیال میں وہ واحد پاکستانی ہیں جن کو یہ اعزاز حاصل ہوا. ظفراللہ خان عمرہ پر گئے تو ان کو خادم الحرمین شریفین کے شاہی مہمان کی حیثیت حاصل تھی. انیس سو پچاس کی دہائی میں مجلسِ احرار کے زیرِ اہتمام لاہور میں ہونے والے قادیانی مخالف مظاہروں کا بنیادی نشانہ اعلیٰ عہدوں پر فائز قادیانی، خصوصاً سر ظفراللہ خان تھے. (یہ وہی مجلسِ احرار تھی جو قیام پاکستان کی شدید مخالف تھی اور اسی مجلسِ احرار کے اسٹیج سے مولانا مظہر علی اظہر نے قائداعظم کو کافرِ اعظم کا خطاب دیا تھا). مظاہروں کی روک تھام کےلیے حکومت نے مارشل لاء نافذ کر دیا لیکن کچھ ہی عرصہ بعد ظفراللہ خان نے وزیر خارجہ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور جلاوطنی اختیار کر لی. اسی کی دہائی میں سر ظفراللہ واپس پاکستان شفٹ ہو گئے. کچھ عرصہ بعد ان کی طبیعت شدید خراب ہو گئی تو اردن کے بادشاہ نے اپنے سفیر کے ذریعہ ان کو اردن میں علاج کروانے کی پیشکش کی جو سر ظفراللہ خان نے مسترد کر دی اور پاکستان میں ہی رہنا، مرنا اور دفن ہونا پسند کیا.

جناح نے پاکستان میں بسنے والے تمام مذاہب کے پیروکاروں کو خوشخبری سنائی تھی کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب ہم اپنے مذاہب سے بالاتر ہو کر صرف بطور پاکستانی ایک دوسرے کو شناخت کریں گے.

حوالہ جات

  1. پاکستان کی دستور ساز اسمبلی سے قائداعظم کا افتتاحی خطاب
  2. جوگندرناتھ منڈل کا استعفیٰ بنام لیاقت علی خان
  3. دودِ چراغِ محفل از قلم شورش کاشمیری
  4. وکی پیڈیا

Follow us on Facebook

Click here to read more book reviews

Click here to WATCH book reviews

Related Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *