کشمیر، پینسٹھ کی جنگ اور ذوالفقار علی بھٹوKashmir, War of 1965 and Zulfiqar Ali Bhutto

کشمیر، پینسٹھ کی جنگ اور ذوالفقار علی بھٹوKashmir, War of 1965 and Zulfiqar Ali Bhutto

کشمیر، پینسٹھ کی جنگ اور ذوالفقار علی بھٹوKashmir, War of 1965 and Zulfiqar Ali Bhutto

پاکستان میں دانشوروں کا ایک طبقہ پینسٹھ کی جنگ اور سقوطِ ڈھاکہ کی ساری ذمہ داری فوجی اشرافیہ کے سر منڈھ دیتا ہے. آمروں نے بلاشبہ بہت سی غلطیاں کیں جن کا حساب اُن سے لیا جانا ضروری ہے. لیکن ایک نظر سیاستدانوں کو اپنے گریبان میں بھی ڈالنی چاہیے. کوئی بھی فوجی ڈکٹیٹر ہوا میں حکومت نہیں کرتا، اس کے ساتھ اقتدار پرست سیاستدانوں کا ایک ٹولہ ہوتا ہے جو رائے عامہ مطلق العنان حکمرانوں کے حق میں ہموار کرتا ہے. پاکستان میں جمہوریت کے سب سے بڑے علامتی کردار، ذوالفقار علی بھٹو ایسے ہی ایک سیاستدان تھے.

مندرجہ ذیل تحریر اسٹینلے وولپرٹ کی کتاب ‘ذلفی بھٹو آف پاکستان’ سے اخذ کی گئی ہے۔
میری ذاتی رائے میں انیس سو پینسٹھ کی جنگ کا بیج اسی وقت بویا جا چکا تھا جب بھٹو صاحب اور سوارن سنگھ کے مذاکرات شروع ہوئے۔ یہ 1962-63 کی بات ہے جب بھٹو صاحب اقوامِ متحدہ میں پاکستانی وفد کے سربراہ تھے اور اپنے بھارتی ہم منصب، سردار سوارن سنگھ کے ساتھ کم و بیش چھ ماہ تک مسئلہِ کشمیر کے حل کے لیے مذاکرات کرتے رہے۔ چھ ماہ تک چلنے والے اِن بے فائدہ و بے نتیجہ مذاکرات نے بھٹو صاحب کو مسئلہِ کشمیر کے پُرامن حل کی امید سے دستبردار ہونے پر مجبور کر دیا۔ چھ مہنے کا عرصہ اتنا طویل تھا کہ بھٹو صاحب نے سوارن سنگھ کی بالکل ہوبہو نقل اتارنا تک سیکھ لیا تھا۔ بقول سلمان تاثیر، بھٹو صاحب وزارتِ خارجہ کے افسران کے سامنے سوارن سنگھ کی نقل اتارا کرتے تھے کہ کیسے سردار صاحب کان اور ناک کھجاتے ہیں اور کیسے پیشانی مسلتے ہیں۔ اس دوران بھٹو صاحب کی نیویارک میں نہرو سے ملاقات بھی ہوئی۔ نہرو کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ شدت پسند ہندوؤں کے ڈر سے کشمیر پر کوئی بڑا قدم اٹھانے کو تیار نہ تھے۔ ایک اور وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ نہرو کشمیر کو ایک حسین دوشیزہ سے تعبیر کرتے تھے اور بھٹو صاحب کی طرح نہرو بھی حسین دوشیزائوں کے معاملہ میں بہت حساس تھے۔

اس کے بعد بھٹو صاحب نے عوامی جلسوں میں مسئلہِ کشمیر پھر سے زندہ کر دیا۔ متعدد جلسوں میں انہوں نے عوام الناس اور عالمی طاقتوں کو پیغام دیا کہ پاکستان کو یہ ڈر نہیں ہے کہ دنیا بھارت کو گولیاں اور ٹینک زیادہ سپلائی کر رہی ہے اور نہ ہی پاکستان اس ڈر سے کشمیر سے دستبردار ہو گا۔ انہی دنوں امریکی سفیر نے صدر کینیڈی کو مشورہ دیا کہ انڈیا کو دی جانے والی امریکی فوجی امداد کو کشمیر میں استصواب رائے سے مشروط کر دیا جائے۔ لیکن کینیڈی نے یہ مشورہ نہ مان کر نہرو پر اثر انداز ہونے کی آخری امید بھی کھو دی۔ دوسری طرف اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے بھٹو صاحب نے قوم کو بتایا کہ دنیا بھر میں ہمارے دوست ممالک ہیں جنہوں نے یقین دلایا ہے کہ انڈیا کی طرف سے پاکستان پر ہونے والا حملہ وہ خود پر حملہ سمجھیں گے۔ شاید بھٹو صاحب کا اشارہ چین کی طرف ہو کیونکہ انہی دنوں چین کے ساتھ پاکستان نے سرحدی حد بندی کا معاہدہ کیا تھا جو کہ بلاشبہ بھٹو صاحب کا ایک قابلِ تعریف کارنامہ تھا۔ اس کے علاوہ انڈونیشیاء کے سوئیکارنو، ترکی اور کچھ افریقی ممالک کی طرف سے بھی بھٹو صاحب کو مدد کی امید تھی۔

دسمبر انیس سو تریسٹھ میں حضرت بل سے آنحضرت محمد (ص) کے موئے مبارک چوری ہو جانے کی خبر نے پورے کشمیر میں آگ لگا دی اور کشمیر میں مظاہرے پھوٹ پڑے۔ امن و امان برقرار رکھنے کےلیے بھارت نے کشمیر میں تازہ دم فوجی دستے بھیجنے شروع کر دیے۔ بھٹو صاحب نے بیان دیا کہ بھارت نہ صرف اپنے گھمنڈ میں سیکورٹی کونسل کی قراردادوں کا لحاظ نہیں کر رہا بلکہ فوجی دستوں کو کشمیر میں بھیجا جانا آرٹیکل تین سو ستر (جس میں کشمیر کو خصوصی اسٹیٹس دیا گیا تھا اور جسے ابھی حال ہی میں مودی حکومت نے اپنے آئین سے خارج کر دیا ہے) کو ختم کرنے کی سازش ہے۔ بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں بھٹو صاحب سے سوال کیا گیا کہ پچھلے پندرہ برس میں پاکستان اور بھارت نے کشمیر پر ایک سو مرتبہ مذاکرات کیے لیکن ان کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ بھٹو صاحب نے جواب دیا کہ ہم مسئلہ کشمیر کے باعزت حل کےلیے ہم بھارت سے ایک ہزار دفعہ مذاکرات کےلیے بھی تیار ہیں۔ کشمیر میں بڑھتے احتجاج اور تشدد کی لہر کو روکنے کےلیے اور اقوام متحدہ کے دبائو پر نہرو نے مقبول کشمیری لیڈر شیخ عبداللہ سے، جو کہ گزشتہ گیارہ سال سے جیل میں تھے، مذاکرات کی حامی بھری اور ان کو جیل سے رہا کر دیا۔

شیخ صاحب نے عوامی جلسوں میں، اور پنڈی میں صدر ایوب سے ملاقات کے دوران کشمیر کی تقسیم کو منظور کرنے سے انکار کر دیا۔ لیکن نہرو کی وفات پر ان کی آخری رسوم کےلیے جب بھٹو اور شیخ عبداللہ ایک ہی جہاز پر بھارت جا رہے تھے تو شیخ عبداللہ نے بھٹو صاحب کو کہا کہ ویسے تو پورے کشمیر میں استصواب رائے پر زور دینا چاہیے لیکن اس مسئلہ کا حقیقت پسندانہ حل یہی ہے کہ دریائے چناب کے نچلی طرف ایک مقام پر کشمیر کو تقسیم کر دیا جائے۔ شیخ عبداللہ کے خیالات میں آنے والی اس لچک پر بھٹو صاحب بہت خوش ہوئے (شاید بھٹو صاحب کو بھی کشمیر کی تقسیم ہی ایک حقیقت پسندانہ حل نظر آتا ہو؟) کچھ دن بعد بھٹو صاحب کی ملاقات ایک اور سرکردہ کشمیری راہنما مرزا افضل بیگ سے ہوئی، انہوں نے بھی شیخ عبداللہ کی تجویز سے اتفاق کیا۔ لیکن جب بھٹو صاحب کی ملاقات بھارتی صدر، نگران وزیر اعظم اور اگلے متوقع وزیراعظم لال بہادر شاستری سے ہوئی تو ان سب کی گفتگو میں کشمیر کےلیے بالکل بھی لچک دکھائی نہ دی۔ ان میں سے کوئی بھی کشمیر پر کسی بھی قسم کے سمجھوتے کےلیے تیار نظر نہ آیا۔

یہ تو ہو گیا ایک پس منظر جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بھٹو صاحب نے مسئلہ کشمیر کے پُرامن حل کےلیے بھارت سے بےشمار مرتبہ مذاکرات کے علاوہ، عالمی ضمیر جگانے کی بھی کوشش کی لیکن اس کا کوئی تسلی بخش حل نہ نکل سکا۔ انیس سو چونسٹھ کے وسط تک بھٹو صاحب نے ذہن بنا لیا تھا کہ کشمیر کا حل فقط عسکری کارروائی سے ہی ہو گا اور یہ اسی وقت ہو سکتا تھا جب پاکستان کے مغربی اتحادیوں کو بھنک بھی نہ پڑے اور وہ پاکستان کو ضروری جنگی ساز و سامان کی سپلائی جاری رکھیں۔ لیکن اس وقت تک پاکستان کے چین کے ساتھ بڑھتے تعلقات کے پیشِ نظر امریکی پالیسی ساز بھارت کو چین کے مقابلے میں اپنا اتحادی بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔ حتیٰ کہ پاک چین سول ایوی ایشن معاہدے کے ردعمل میں امریکہ نے ڈھاکہ ایرپورٹ کی تعمیر کےلیے دی جانے والی امداد بھی معطل کر دی۔

انیس سو چونسٹھ میں ایوب خان محترمہ فاطمہ بھٹو کے مقابلہ میں الیکشن لڑنے میں مصروف رہے۔ محترمہ نے، جو کہ بھٹو صاحب کی ہمسائی بھی تھیں، پیغام بھجوایا کہ آپ میرے ساتھ آ جائیں، میں الیکشن جیت کر آپ کو وزیر خارجہ بنا دوں گی، لیکن بھٹو صاحب نے جنرل ایوب کا ساتھ دینے کو ترجیح دی۔ خیر انیس سو چونسٹھ کا پہلا نصف سال تو جنرل صاحب اور بھٹو صاحب نے پوری سرکاری مشینری کے ساتھ مل کر محترمہ کو شکست دینے میں گزار دیا۔

یہ پورا سال بھٹو صاحب ایوب خان کو اسی بات پر قائل کرتے رہے کہ کشمیر کا حل صرف جنگ سے ہی ممکن ہے۔ اس دوران سرحدوں پر ہلکی پھلکی جھڑپیں شدت اختیار کر گئیں اور ستمبر انیس سو چونسٹھ تک دونوں جنوبی ایشیائی ہمسائے جنگ کے بالکل قریب آ گئے۔ شاستری کے وزیرِ دفاع نے بھی مسلح فوج کی تعداد بڑھانے اور روس اور امریکہ سے جنگی طیاروں کی خریداری کا کام تیز کر دیا۔ اسی تناظر میں، امریکی صدر جانسن نے شاستری کو وائٹ ہائوس مدعو کیا تو جنرل ایوب نے اس پر اتنا شدید احتجاج کیا کہ امریکی صدر کو یہ ملاقات کینسل کرنا پڑی۔ شاستری روس نکل گئے اور وہاں سے واپسی پر کراچی میں رکے جہاں ایوب خان سے ان کی ایک غیر رسمی ملاقات ہوئی۔ شاستری نے جنرل ایوب سے کہا کہ سرحدی کشیدگی ایک بڑے بحران کا سبب بن سکتی ہے۔ ایوب خان نے جواب دیا کہ سترہ سال سے کشمیر کا مسئلہ حل نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان اور بھارت ایک غیر اعلانیہ حالتِ جنگ میں ہیں۔ شاستری نے کہا کہ میں اتنا مضبوط نہیں ہوں کہ اپنی قوم کو مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کےلیے راضی کر سکوں۔

بھٹو صاحب کو بھارت سے جنگ کی صورت میں سوئیکارنو نے بحری اور چین نے زمینی طرف سے مدد کی یقین دہانی کرائی۔ بھٹو کے انڈونیشیا اور چین کے ساتھ بڑھتے قریبی تعلقات نے پاکستان کو امریکی فیصلہ سازوں سے دور کر دیا۔ لیکن بھارت نے اپنی زبردست خارجہ پالیسی کی وجہ سے امریکہ اور روس دونوں سے فوجی امداد وصول کر لی۔

سنہ انیس سو پینسٹھ کی ابتداء سے ہی پوری دنیا کی نظریں جموں و کشمیر پر جمی تھیں۔ یہی وہ جگہ تھی جہاں دو ایشیائی ممالک کے درمیان جنگ متوقع تھی۔ لیکن جنگ کی ابتداء ہمالیہ کے بلند قامت پہاڑوں کے دامن سے ہونے کی بجائے پاکستان کے صوبہ سندھ اور بھارت کے صوبہ گجرات کے درمیان واقع رن آف کچھ سے ہوئی جہاں پینتیس سو مربع کلومیٹر کا علاقہ دونوں ملکوں کے درمیان متنازع تھا۔ دونوں ملکوں نے ایک دوسرے پر جارحیت کا الزام لگایا اور دونوں نے ہی اپنے دفاع میں دوسرے ملک کے فوجی کثیر تعداد میں مارنے کا دعویٰ کیا۔ بھٹو صاحب اس وقت سندھ میں ہی تھے اور مغربی تجزیہ نگاروں کے اس تجزیہ سے متفق تھے کہ رن آف کچھ کی مختصر جنگ میں پاکستان نے بھارت کو شکست دے دی ہے۔ ایوب خان نے یکم مئی کو قوم سے خطاب میں خوشخبری سنائی کہ پاکستان نے بھارتی حملہ کامیابی سے پسپا کر دیا ہے۔

انہی دنوں شیخ عبداللہ غیر ملکی دورہ پر تھے، انہوں‌نے لندن میں ایک واضح بیان دیا کہ اگر کشمیری عوام کو حقِ رائے دہی دیا گیا تو وہ بلاشبہ پاکستان سے الحاق کو ترجیح دیں گے۔ اس دوران جی ایچ کیو میں بھٹو صاحب کے فارن سیکرٹری عزیز احمد کی سربراہی میں ایک کشمیر سیل بنایا گیا جس کے ذمہ دو مختلف آپریشنز تھے۔ ایک، آپریشن جبرالٹر۔ جس میں کشمیر میں مجاہدین داخل کر کے کشمیریوں کو بھارت کے خلاف اکسانا تھا تاکہ مقامی کشمیری مسلمان انڈیا سے آزادی کی جنگ لڑنے کو تیار ہو جائیں۔ دوسرا آپریشن گرینڈ سلام، جس کا مقصد یہ تھا کہ جب کشمیری بھارت کے خلاف ہتھیار اٹھا لیں تو پاکستانی فوجی سرعت سے کشمیر میں داخل ہو کر اسے بھارت سے آزاد کروا دیں۔

امریکی ٹینک بھارت کے خلاف استعمال کرنے پر صدر جانسن نے جنرل ایوب سے ہونے والی طےشدہ ملاقات کینسل کی تو بھٹو صاحب نے فوراََ روسی سفیر کو پیغام بھجوایا کہ صدر ایوب واشنگٹن کے بجائے ماسکو کا دورہ کرنا پسند کریں گے۔ سوویت سربراہ مملکت کوسیجن نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پہلے پاک سوویت سفارتی سمٹ کا بندوبست کر دیا۔ اس دورہ کے دوران سوویت یونین اور پاکستان کی طرف سے جاری کردہ مشترکہ اعلامیہ میں سوویت یونین کی طرف سے حقِ آزادی کےلیے لڑنے والوں کی حمایت کا اعلان پاکستان کے کشمیر موقف کی تائید اور عالمی منظرنامہ پر پاکستان کی ایک اہم سفارتی فتح تھی جس کا کریڈٹ بھٹو صاحب کے ذہین دماغ کو جاتا ہے. اس کے بعد شاستری نے ماسکو کا دورہ کیا جس کے دوران ان سے سوویت حکام کافی سردمہری سے پیش آئے اورمشترکہ اعلامیہ میں شاستری کے اصرار کے باوجود رن آف کچھ میں پاکستان کی مبینہ دراندازی کی مذمت سے بھی پرہیز کیا گیا۔ یہ پاکستان کی ایک اور سفارتی کامیابی تھی۔

برطانوی وزیراعظم ہیرلڈ جانسن اور لوئس مائونٹ بیٹن نے ثالثی کی کوششیں شروع کیں۔ پاکستانی اور بھارتی وفود لندن پہنچے۔ بھٹو صاحب کی کوشش تھی کہ رن آف کچھ کے مسئلہ کے حل کو مسئلہِ کشمیر حل کرنے سے مشروط کر دیا جائے لیکن شاستری کی ضد نے ایسا نہ ہونے دیا۔ جس معاہدے پر دونوں فریق رضامند ہوئے اس میں متنازعہ علاقوں میں پاکستانی فوج کی پیٹرولنگ، بھارتی فوج کی واپسی اور بھارت اور پاکستان کے تنازعات کے حل کےلیے ایک کمیشن بنائے جانے جیسی دفعات سے ایسا تاثر گیا کہ پاکستان نے رن آف کچھ، عالمی رائے عامہ اور اس کے ساتھ ساتھ لندن کانفرنس میں بھی میدان مار لیا ہے۔ بھارت میں اس معاہدے نے آگ لگا دی۔ بھارتی میڈیا اور اپوزیشن نے اس معاہدے کو پاکستان کے سامنے ایک عبرتناک شکست سے تعبیر کیا۔

تیس جون سنہ انیس سو پینسٹھ کو یہ معاہدہ ہوا اور اگست میں سیکرٹری خارجہ کی زیرنگرانی قائم کردہ سیل نے آپریشن جبرالٹر شروع کر دیا۔ اگست میں مسلح مجاہدین کا کشمیر میں خفیہ طور سے داخل ہونا عروج پر تھا۔ ان میں سے کچھ مجاہدین انڈیا نے پکڑ لیے اور بھٹو صاحب سے بھارتی وزیرِخارجہ نے شکوہ کیا کہ پاکستان کی طرف سے دراندازی کی جا رہی ہے۔ بھٹو صاحب نے اس کا گول مول جواب دے کر ٹال دیا۔ آپریشن جبرالٹر زوروں پر تھا لیکن اس کے نتائج بھٹو صاحب اور ایوب خان کی خواہشات اور امیدوں کے برعکس آئے، دس اگست کو کشمیر کی “انقلابی کونسل” نے کشمیریوں کو بھارتی مظالم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی دعوت دی اور بھارت سے آزادی کا اعلان کر دیا۔ لیکن کشمیری عوام نے اس کا خاطرخواہ جواب نہ دیا۔ نہ کشمیری لوگ سڑکوں پہ نکلے نہ انہوں نے انڈیا کے خلاف ہتھیار اٹھائے۔ وہ جو امیدیں تھیں کہ کشمیری، پاکستانی مجاہدین کا کھلے دل سے استقبال کریں گے اور ان کے شانہ بشانہ انڈیا کے خلاف لڑیں گے، یہ غنچے کھلنے سے پہلے ہی مرجھا گئے۔ لیکن اس کا نقصان یہ ہوا کہ بھارت نے یکم جنوری انیس سو انچاس کے اقوام متحدہ کے زیرِاثر کیے گئے جنگ بندی معاہدے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کارگل میں پاکستان کی تین اہم چیک پوسٹوں پر قبضہ کر لیا۔

طبلِ جنگ ایک بار پھر سے بج چکا تھا۔

جنرل ایوب کو یہ پریشانی لاحق تھی کہ کشمیر میں مجاہدین کے ذریعے مداخلت کرنے پر امریکہ کہیں مداخلت نہ کرے۔ وزیرِ خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے جنرل ایوب کو یقین دلایا تھا کہ کشمیر میں ہونے والی پاکستانی مداخلت کو روکنے کےلیے امریکہ مداخلت نہیں کرے گا۔ مزید برآں، انڈیا بھی اپنی اندرونی سیاسی چپقلشوں کی وجہ سے کشمیر کی چھوٹے پیمانے پر جاری لڑائی کو ایک بڑی جنگ میں تبدیل نہیں کرے گا۔ بھٹو صاحب نے جنرل ایوب کو اپنے دلائل سے قائل کر لیا کہ “ہمارے گمنام سپاہیوں کا مورال بہت بلند اور ہمارے مقصد کی سچائی کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ اگر انڈیا کو ہم نے ابھی زک نہ پہنچائی تو دونوں سپرپاورز سے ملنے والے اسلحہ کی بنیاد پر انڈیا کچھ ہی سالوں میں فوجی لحاظ سے ہم سے برتر ہو جائے گا۔ اس لیے انڈیا سے بدلہ لینے اور اس پر حملہ کرنے کا یہ وقت بہترین ہے۔” ذاتی طور پر بھٹو صاحب کو لگتا تھا کہ بھارت رن آف کچھ کی ہزیمت کا شکست خوردہ ہے، وہ پاکستانی پنجاب سے حملہ کر کے پاکستان کی مضبوط فوجی طاقت سے لڑنے کے بجائے شاید مشرقی پاکستان سے حملہ کرے۔ اس صورت میں پاکستانی افواج وار کرتی ہوئی نیپال سے جا ملیں گی اور آسام میں بھارتی فوج کو بالکل تنہا کر دیں گی۔ بھٹو صاحب کا یہ بھی خیال تھا کہ اس وقت تک چین بھی میدان میں آ جائے گا، بھارتی افواج کو آسام میں چین اور پاکستان کی دو فوجوں سے جنگ لڑنا پڑی تو وہ شکست تسلیم کر لیں گی۔ لیکن یہ سب اندازے دھرے کے دھرے ہی رہے۔

اس وقت تک سات ہزار پاکستانی تربیت یافتہ مجاہدین کشمیر میں داخل ہو چکے تھے۔ بھارت نے کشمیر کے اڑی سیکٹر کو محفوظ کرنے کےلیے اس طرف اپنے تقریباََ ساڑھے چھ لاکھ فوجی تعینات کر دیے جن کی معاونت کےلیے سولہ سو جنگی جہاز اور ڈیڑھ ہزار ٹینک بھی ہمراہ تھے۔ بھارتی جرنیلوں نے کشمیر پر پاکستانی حملہ کی صورت میں، بھٹو صاحب کی پیشین گوئی کے برعکس، پاکستانی پنجاب پر حملے کرنے کی منصوبہ بندی کر لی۔

اگست کے اختتام پر، بھٹو صاحب نے جی ایچ کیو میں ہونے والی ایک میٹنگ میں ایوب کو یقین دلایا کہ کشمیر میں تحریک زوروں پر ہے۔ لیکن جنرل گل حسن جیسے تجربہ کار فوجی افسران کو بخوبی معلوم تھا کہ وادی میں مزاحمتی تحریک کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے۔ مجاہدین مقامی آبادی کو بھارت کے خلاف ہتھیار اٹھانے پر رضامند نہیں کر سکے۔ جنرل گل حسن نے ایوب کو مشورہ دیا کہ جنگ کے شعلوں کو ہوا دینے کی بجائے ٹھنڈا کرنا بہتر ہو گا۔ لیکن بھٹو صاحب نے اس تجویز پر غور کرنے سے بھی انکار کر دیا۔ جنرل ایوب کو امریکہ اور مغربی طاقتوں کا دبائو برداشت کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے بھٹو صاحب نے کہا کہ اگر ہم نے اس تحریک کو (جس کا کشمیر میں وجود ہی نہیں تھا) ختم ہونے دیا تو یہ ہماری خود مختاری اور خارجہ پالیسی کے خلاف ہو گا۔ بھٹو صاحب چاہتے تھے کہ روس، چین، انڈونیشیا، الجیریا اور دوسرے حلیف ممالک سے فوجی امداد لی جائے۔ بھٹو صاحب نے مزید تجویز دی کہ ہمیں آسام میں ناگا آبادی اور بھارتی پنجاب میں سکھوں کو بھارت کے خلاف ہتھیار اٹھانے پر اکسانا چاہیے۔ اُن کو لگتا تھا کہ اقوام متحدہ کی طرف سے کشمیر پر بھی رن آف کچھ سے ملتا جاتا ایک امن معاہدہ تجویز کیا جائے گا جس کا فائدہ پاکستان کو ہو گا۔ ایوب خان نے اپنے تجربہ کار جرنیلوں کی بجائے اپنے نوجوان وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کے مشورہ پر عمل کرنا مناسب سمجھا۔

یکم ستمبر کو آپریشن گرینڈ سلام کا آغاز ہو گیا۔ پاکستانی آرٹلری نے بھمبر چھمب ایریا میں فائر کھول دیا اور بھاری بھرکم پٹن ٹینک مشرق کی طرف بڑھ گئے۔ منصوبہ یہ تھا کہ ایک ہی ہلہ میں کشمیرکا بھارت سے زمینی رابطہ منقطع کر دیا جائے۔ ہزاروں بھارتی فوجیوں نے پسپائی اختیار کی۔ لیکن رات گزرنے سے پہلے ہی بھارتی جنگی طیاروں نے پاکستانی ٹینکوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ ایک بڑی جنگ کا آغاز ہو گیا۔

چار ستمبر کو چینی وزیرخارجہ نے پاکستان میں پہنچتے ہی پاکستان کے انصاف پسند موقف کی حمایت کی۔ اب تک پاکستانی ٹینک جموں میں بیس میل تک آگے پہنچ چکے تھے۔ جنرل موسیٰ نے اپنے سپاہیوں سے کہا کہ آپ نے دشمن کو اپنے دانتوں میں دبوچ لیا ہے۔ کاٹیں، اسے اتنا شدید کاٹیں کہ دشمن تباہ ہو جائے۔ اور انشاءاللہ آپ اسے ضرور تباہ کر دیں گے۔

چھ ستمبر انیس سو پینسٹھ کر بھارت نے فیروزپور اور امرتسر کی طرف سے لاہور پر سہ طرفی حملہ کر دیا۔ پنجاب کے دل لاہور کو خطرے میں دیکھ کر، اور بھارٹی آرمرڈ ڈویژن کے سیالکوٹ سیکٹر کی طرف سے ہونے والے حملے نے پاکستانی ٹینکوں کو جموں سے مزید آگے جانے سے روک دیا۔ ڈی جی آئی ایس آئی، بریگیڈیر ریاض حسین، انڈیا کے واحد آرمرڈ ڈویژن کی لوکیشن کے بارے میں کوئی اطلاع دینے سے قاصر تھے۔ جنرل ایوب آگ بگولہ ہو گئے۔ بھارت کا آرمرڈ ڈویژن کسی بھوسہ میں گری سوئی جیسا نہیں تھا جسے ڈھونڈنا مشکل ہو۔ کپکپاتی آواز میں بریگیڈیر صاحب نے جنرل ایوب کو بتایا کہ جون انیس سو چونسٹھ سے ملٹری انٹیلی جنس کو الیکشنز اور اس کے بعد کی صورتحال سنبھالنے کےلیے سیاسی اسائنمنٹس دی گئی تھیں اور وہ انہی میں مصروف تھیں۔ (اس لیے بھارت کے آرمرڈ ڈویژن کی نقل و حرکت بارے کوئی خبر نہیں‌ رکھ سکیں)

بھٹو صاحب نے پاکستانی پنجاب پر حملہ نہ ہونے کی یقین دہانی کرائی تھی لیکن اب حملہ ہونے کے بعد انہوں نے ایوب کو ایک نئی دلیل دی۔ بھٹو صاحب کا کہنا تھا کہ بھارت کا لاہور پر حملہ امریکی سازش ہے، اور اس سازش کا دائرہ کار پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔ ایوب خان نے اس تھیوری کا کیا جواب دیا، اس کا تاریخ میں کوئی ریکارڈ نہیں۔ لیکن بعد میں ممتاز بھٹو کو جنرل ایوب نے یہ ضرور کہا کہ تمہارا کزن ایک پاگل شخص ہے۔ اس کے پیچھے نہ چلو ورنہ یہ تمہیں برباد کر دے گا۔ لیکن بھٹو صاحب کی پیش کردہ یہ سازشی تھیوری کروڑوں پاکستانیوں کےلیے ضرور قابل قبول تھی۔ لاکھوں پاکستانی طلباء، فوجی، بیروزگار اور مڈل کلاس کے لوگ یہ ماننے سے انکاری تھے کہ بزدل ہندو بنیا بغیر کسی عالمی طاقت کی مدد کے پاکستان کو جنگ میں ہرا سکتا ہے۔

پاکستانی فوجی اور جرنیل جتنی بہادری، دلیری اور بےخوفی سے لڑے، اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ لیکن انڈیا کو عددی برتری حاصل تھی۔ بھارتی ہائی کمانڈ نے عددی قوت کے بل بوتے پر پاکستانی حملہ پسپا کر دیا تھا۔ یہ حقیقت بھٹو صاحب کےلیے ناممکن، ناقابل قبول اور ناقابلِ برداشت تھی۔ نوجوان پاکستانیوں کی ایک کثیر تعداد بھٹو صاحب کی اس سوچ پر یقین رکھتی تھی کہ یقینی اور حتمی کامیابی یا ایک باعزت اور مکمل تباہی کے علاوہ پاکستانی قوم کے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا۔

چین نے زبانی جمع خرچ کے علاوہ اور کوئی مدد نہ کی۔ انڈونیشیا نے چند ایک بحری بیڑے کراچی کی طرف بھیجے۔ ترکی، اردن اور ایران نے امتِ مسلمہ اور بھائی چارے کے حوالے سے چند ایک بیانات اور معمولی ملٹری سازوسامان ارسال کیا۔ افریقی ریاستوں نے بھی خاموشی اختیار رکھی۔ سوویت یونین اور امریکہ، جنگ سویز کے بعد، پہلی دفعہ کسی بات پر متفق ہوئے تھے اور وہ یہ تھی کہ اس جنگ کو روکنا ہی ہو گا۔ امریکہ نے دونوں ملکوں کو جنگی سازوسامان کی فراہمی معطل کر دی۔ یہ معطلی تھی تو دونوں ملکوں کےلیے لیکن بھٹو صاحب نے اس کو واشنگٹن کی پاکستان سے غداری پر محمول کیا۔

ایوب خان کو پاکستان کے پاس اسلحہ جات کی صحیح صورتحال کا پتہ تھا۔ فیلڈ مارشل کو سمجھ آ گئی تھی کہ آپریشن گرینڈ سلام کا پہلا مرحلہ ناکام ہو گیا ہے۔ اب جنگ پر مزید اصرار وقت، انسانی جانوں اور جنگی ساز و سامان کے نقصان کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ چنانچہ سیکرٹری جنرل اقوامِ متحدہ کی طرف سے جنگ بندی کی پیشکش قبول کر لی گئی۔ بائیس اور تیئس ستمبر کی درمیانی شب بھٹو صاحب نیویارک پہنچے اور اقوامِ متحدہ میں اپنی تقریر میں اپنا ‘ایک ہزار سال تک جنگ لڑنے’ والا مشہورِ زمانہ فقرہ کہا۔ تئیس ستمبر کو بھٹو صاحب نے صدر پاکستان کی طرف سے پاکستانی افواج کو فائرنگ روکنے کا پیغام جاری کیا۔ جوشِ خطابت میں بھٹو صاحب نے دھمکی دی کہ اگر ہمارے مسائل ایک مخصوص عرصہ کے دوران حل نہ کیے گئے تو پاکستان اقوامِ متحدہ سے نکل جائے گا (بعد میں اس بیان سے رجوع کرلیا گیا). بھٹو صاحب نے پینسٹھ کی جنگوں میں انڈیا کو جارح ملک قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے تو فقط اپنے دفاع کی جنگ لڑی ہے۔ بھٹو صاحب کی اس تقریر کے بعد مطالعہ پاکستان کی ہر کتاب میں آپریشن گرینڈ سلام اور آپریشن جبرالٹر کا ذکر گول کر کے یہی لکھا گیا کہ رات کی تاریکی میں ہندو بنیے نے پاکستان پر حملہ کیا۔

جنگ بندی ہو چکی تھی۔ آپریشن جبرالٹر اور آپریشن گرینڈ سلام اپنے مطلوبہ مقاصد کے حصول میں ناکام رہے تھے۔ اس منصوبے کے جھول اور اپنی پیشین گوئیوں کی ناکامی کا بوجھ بھٹو صاحب نے امریکہ، اسرائیل، انڈیا اور دوسری عالمی طاقتوں کے سر ڈال دیا۔ اپنی شعلہ بار تقریروں سے کروڑوں پاکستانیوں کے دلوں کو گرما کر بھٹو صاحب نے جنگ کے صدمہ کو بھلانے میں مدد کی۔ عوام کو انہوں نے یقین دلایا کہ امریکہ، اسرائیل اور دوسرے ممالک پاکستان دشمنی میں انڈیا کا ساتھ دینے پر تُل گئے تھے ورنہ پاکستانی حملہ کو روکنا اکیلے انڈیا کے بس کا کام نہیں تھا۔ اقوام متحدہ میں اپنی ایک شعلہ فشاں تقریر میں بھٹو صاحب نے کہا: ہم مکمل تباہی کا سامنا کریں گے، ہم نیست و نابود ہو جانے کا سامنا کریں گے لیکن جموں و کشمیر کی عوام سے کیے گئے اپنے عہد و پیماں سے منہ نہیں موڑیں گے۔ دنیا کی عظیم طاقتیں جو مرضی کریں، سیکورٹی کونسل جو مرضی کرے ہم جموں و کشمیر کے لوگوں کے شانہ بشانہ لڑیں گے یہ ہمارے ایمان اور ہماری تہذیب کا حصہ ہے۔

وطن واپسی پر بھٹو صاحب کا شاندار استقبال کیا گیا۔ وہ انیس سو پینسٹھ کی جنگ کے واحد ہیرو کے طور پر مقبول ہوئے۔ اپنی پرجوش تقاریر میں دلائل، جذبات اور منظرنگاری کے استعمال نے انہیں عوام الناس کے واحد نجات دہندہ کے طور پر پیش کیا۔ وہ کروڑوں پاکستانیوں کی امید کا مرکز تھے۔ یہ انہی کا کمال تھا کہ انہوں نے قوم کو یقین دلایا کہ پاکستان یہ جنگ جیت چکا ہے اور یہ بھی کہ کشمیر کی آزادی تک پاکستان چین سے نہیں بیٹھے گا۔

تاشقند مذاکرات ایوب خان اور شاستری کے درمیان براہ راست ہوئے۔ بھٹو صاحب اور بھارتی وزیر خارجہ سوارن سنگھ دوسرے کمرے میں بیٹھے تھے۔ جب پاکستان اور بھارت کے معاہدہ کا ڈرافٹ تیار ہوا تو عین آخری لمحہ میں شاستری کے اصرار پر ایوب خان نے اپنے ہاتھ سے یہ شق شامل کی کہ بھارت کے ساتھ تنازعات کے حل کے دوران پاکستان طاقت کا استعمال ترک کر دے گا۔ یہ شق پڑھتے ہی بھٹو صاحب نے آسمان سر پر اٹھا لیا اور ایوب خان کو دھمکی دی کہ اگر یہ شق حذف نہ کی گئی تو میں پاکستان جا کر اس غداری اور شرمناک سرنڈر کا کچا چٹھا کھول دوں گا۔ الطاف گوہر، شہاب الدین اور وزیرِ تجارت غلام فاروق اس شق سے متفق تھے لیکن کوئی بھی لاہور، پنڈی اور سندھ کے سب سے مقبول شخص، ذوالفقار علی بھٹو کو ناراض کرنے کی ہمت نہیں رکھتا تھا۔ بھٹو صاحب نے کوشش کی کہ اس شق کو کشمیر میں استصواب رائے سے مشروط کر دیا جائے۔ یہ شرط نہ مانے جانے پر انہوں نے اس معاہدے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ شاستری اس شق کے بغیر بھارت واپس نہیں جانا چاہتے تھے اور ایوب خان بھٹو کی رضامندی کے بغیر اس شق کو معاہدے میں شامل نہیں کر سکتے تھے۔ شاستری اور بھٹو صاحب کی اس ضد کی وجہ سے دونوں ملک ایک بند گلی میں پہنچ چکے تھے۔ بہرحال روسی وزیر خارجہ کی کوششوں سے دونوں ممالک نے دس جنوری انیس سو چھیاسٹھ کو ایک اعلامیہ (بھٹو صاحب نے اسے معاہدہ کہنے سے انکار کر دیا تھا) جاری کیا جس میں پاکستان اور بھارت نے امن کی بحالی اور مسائل کے پُرامن تصفیہ کے عزم کا اعلان کیا۔ فروری کے اختتام تک دونوں ممالک نے اپنی فوجیں واپیس پانچ اگست انیس سو پینسٹھ کی پوزیشنز پر لانی تھیں۔ اُسی شب حرکتِ قلب بند ہو جانے سے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری شاستری کی وفات کی اطلاع بھٹو صاحب کو نیند سے جگا کر دی گئی۔ سیکرٹری خارجہ نے بھٹو صاحب کو بتایا کہ حرامی مر گیا ہے۔ بھٹو صاحب نے پوچھا “کون سے والا؟”

Click here to read more book reviews

Click here to WATCH book reviews

Follow us on Facebook

Related Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *