Zulfi Bhutto of Pakistan

Zulfi Bhutto of Pakistan by Stanley Wolpert

Zulfi Bhutto of Pakistan by Stanley Wolpert

بھٹو صاحب پاکستان کے شاید سب سے زیادہ متنازعہ سیاستدان ہیں. پڑھے لکھے اور کم تعلیم یافتہ دونوں طبقوں کی ایک کثیر تعداد ان کے سحر میں ایک عرصہ مبتلا رہی ہے. لیکن ان کے چاہنے والوں کے ساتھ ساتھ، ان سے نفرت کرنے والے بھی بہت ہیں. جہاں کچھ لوگ انہیں پاکستان کے آئین کی تخلیق، پاکستان کی خارجہ پالیسی مضبوط بنانے، عرب ریاستوں کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے، عالمی اسلامی بلاک بنانے اور پاکستان کے غریب طبقہ کی آواز کو پاکستان کے مقتدر سیاسی ایوانوں تک پہنچانے پر سلام پیش کرتے ہیں، وہیں کچھ لوگ انہیں پینسٹھ کی جنگ اور اکہتر کی شرمناک شکست کا ایک اہم کردار اور نیشنلائیزیشن سے پاکستان کی معیشت تباہ کرنے کا ذمہ دار گردانتے ہیں. حقیقت کیا ہے، یہ آپ کے ذاتی تعصب، سوچ اور نقطہ نظر پر منحصر ہے، لیکن میں آپ کو بھٹو صاحب کے بارے لکھی اس کتاب Zulfi Bhutto of Pakistan کے بارے بتا سکتا ہوں، جو کچھ عرصہ پہلے ہی میں نے پڑھی ہے.

Stanley Wolpert نے یہ کتاب لکھی ہے جو کہ کافی مشہور مورخ رہے ہیں. قائداعظم اور جواہرلعل نہرو پر بھی کتابیں لکھ چکے ہیں. اسلوب بہت عمدہ ہے، قاری کو بور نہیں ہونے دیتے. انداز بیان ایسا ہے کہ ممدوح کو فرشتہ نہیں انسان ہی بنا کر پیش کرتے ہیں. کتاب کو میں بنیادی طور پر پانچ حصوں میں تقسیم کروں گا:

١- بھٹو خاندان کی تاریخ اور اس تاریخ کا ذوالفقار علی بھٹو پر اثر: بھٹو خاندان صدیوں سے سندھ کا ایک متمول وڈیرہ خاندان تھا. سر شاہنواز بھٹو، ذلفی بھٹو کے والد، نے سندھ کو بمبئی ریذیڈنسی سے علیحدہ ایک صوبہ بنوانے میں ایک بہت اہم کردار کیا.

٢- بھٹو صاحب کی ابتدائی تعلیم اور اس کے بعد آکسفورڈ میں ان کا وقت جس نے ان کی شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کیا: عالمی سیاسی و معاشی نظام کے بارے ان کے نظریات ترتیب پائے، یہیں انہوں نے فنِ تقریر پر یدطولیٰ حاصل کیا. بھٹو صاحب کی جو چند تقریریں ابھی دستیاب ہیں وہ سننے والے کو اپنے سحر میں گرفتار کر لیتی ہیں، خصوصاً اقوامِ متحدہ میں ان کی تقریر، جس کے بعد انہوں نے کچھ نوٹس پھاڑ دیے، جب یہ تقریر سنی اور دیکھی جائے تو بطور ایک پاکستانی انسان فخر محسوس کرتا ہے کہ اس ملک پر ایک ایسا بہادر شخص بھی حکمران رہا ہے. تقریر کے بعد مائیک پھینک دینے کی روایت بھٹو صاحب کے سیاسی مخالفین نے بھی نقل کرنے کی ناکام کوشش کی.

٣- پاکستان واپسی اور پھر اسکندر مرزا کے توسط سے ایوانِ اقتدار تک رسائی: اسکندر مرزا کے دستِ شفقت کے طفیل بھٹو صاحب نے سیاست کے ریگِ صحرا میں جب ایک بار سفر شروع کیا تو پھر کبھی مڑ کر نہیں دیکھا. ایوب خان کے فیصلوں پر اثر انداز ہونے سے لے کر اسی ایوب خان کو ایوانِ اقتدار سے بے عزت اور بے دخل کرنے کا قصہ بہت دلچسپ بھی ہے اور عبرتناک بھی.

٤- نئی پارٹی کا قیام، اکہتر کا سانحہ اور اس سانحہ کے بعد بھٹو صاحب کا اقتدار میں آنا: میری نظر میں یہ سب سے تکلیف دہ حصہ ہے. بھٹو صاحب جہاں ایک طرف سیاسی فہم و فراست کے اس اوجِ ثریا پہ نظر آتے ہیں جہاں انہوں نے ایک فوجی ڈکٹیٹر کو گھر بھیج دیا، وہاں وہ اس حقیقت کو کہ مشرقی پاکستان ان کی ضد کی وجہ سے علیحدہ بھی ہو سکتا ہے، جس طرح پسِ پشت ڈال دیتے ہیں، سمجھ سے بالاتر ہے. خیر، سقوطِ ڈھاکہ میں بھٹو صاحب کا کوئی کردار تھا یا نہیں، اس کا فیصلہ میں آپ پر چھوڑتا ہوں.

٥- وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو : اس حصہ کو میں دو حصوں میں تقسیم کروں گا. بطور وزیراعظم پاکستان کے اندرونی معاملات اور بیرونی معاملات کو بھٹو صاحب نے مختلف انداز میں چلایا. اندرونی طور پر اپنے سیاسی مخالفین کو جیلوں میں ڈالنا، صوبوں میں گورنر راج اور نیشنلائیزیشن نے ان کی شخصیت، سیاست اور ساکھ کو بہت بڑا دھچکا پہنچایا. لیکن ان سب کے باوجود تہتر کا آئین بنانا ان کا ایک ایسا کارنامہ ہے جس پر قوم آج تک ان کی احسان مند ہے. عالمی محاذ پر بھٹو صاحب نے پاکستان کو اسلامی دنیا کی آنکھ کا تارہ بنا دیا. اسٹینلے وولپرٹ لکھتا ہے کہ یہ وہ دور تھا جب کراچی، ابو ظہبی اور تریپولی میں بھٹو کے منہ سے نکلا ہر لفظ قانون کا درجہ رکھتا تھا. مسلمان حکمرانوں سے ان کے ذاتی تعلقات نے عالمی اسلامی سربراہی کانفرنس کا پاکستان میں انعقاد ممکن بنایا.

مجموعی طور، اس کتاب میں بھٹو صاحب کی شخصیت میں تضادات نظر آتے ہیں. کہیں وہ ایسی سیاسی فراست کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ شیخ مجیب الرحمٰن کو اسلامی سربراہی کانفرنس میں شرکت کےلیے رضامند کرنے کےلیے بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے جیسی بہت بڑی لچک کا بھی مظاہرہ کرتے ہیں اور کہیں ان کے اندر کا ضدی اور اناپرست وڈیرہ ان پر اس قدر غالب آ جاتا ہے کہ وہ اپنے دیرینہ سیاسی ساتھی جے اے رحیم سے جب ایک معمولی سی بات پر ناراض ہوتے ہیں تو نہ صرف یہ کہ انہیں کابینہ سے علیحدہ کر دیتے ہیں بلکہ ان کے گھر غنڈے بھیج کر ان پر تشدد بھی کرواتے ہیں. خود تو بھٹو صاحب ایک لبرل زندگی گزارتے رہے لیکن پاکستان کے مذہبی طبقہ کو خوش کرنے کےلیے جمعہ کی چھٹی، شراب پر پابندی، قادیانیوں کو کافر قرار دلوانا جیسے اقدامات کیے. ان کی پٹاری میں ہر کسی کےلیے کوئی نہ کوئی شعبدہ تھا. شاید ان کی شخصیت کے یہی وہ تضادات ہیں جن سے ہر طبقہ کہیں نہ کہیں خود کو متعلق پاتا ہے اور ان سے محبت کرتا ہے.

یہ کتاب پڑھ کر میں نے سوچا کہ اگر بھٹو صاحب وزیراعظم نہ بنتے اور صرف وزیرِ خارجہ رہتے تو شاید عالمی سطح پر ان کا موازنہ ہنری کسنجر سے کیا جاتا اور ان کی سفارتکاری آنے والی نسلوں کےلیے ایک مثال بن جاتی. وہ ایک بڑے اسٹیج کے کھلاڑی تھے، چھوٹے کھیل کے نہیں.

بہرحال، یہ ایک بہت عمدہ کتاب ہے. Stanley Wolpert نے بہت خوبصورت انداز میں لکھی ہے.

Click here to WATCH book review on Zulfi Bhutto of Pakistan by Stanley Wolpert

Click here to read more book reviews

Click here to WATCH book review on Zulfi Bhutto of Pakistan by Stanley Wolpert

Related Posts

One thought on “Zulfi Bhutto of Pakistan by Stanley Wolpert

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *