میں بھناں دلی دے کنگرے

میں بھناں دلی دے کنگرے مستنصر حسین تارڑ (اردو + پنجابی تبصرہ)

کتاب : میں بھناں دلی دے کنگرے

مصنف: مستنصر حسین تارڑ

تبصرہ: زارش نور

میں بھناں دلی دے کنگرے

میں بھناں دلی دے کنگرے ، مستنصر حسین تارڑ کے ناول کا اردو تبصرہ

🌻 سورہ علق کی آیت نمبر 2 میں اللہ رب العزت نے کہا ہے کہ

اَلَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ

“جس نے قلم سے لکھنا سکھایا “

رب باری تعالیٰ کی اپنے محبوب پہ نازل ہونے والی پہلی وحی میں علم اور قلم کی مقصدیت پہ مبنی ہے ۔روز ازل سے جب انساں کو صاحب قلم ہونے کا اختیار ملا تو اسی لمحے قلم کی حرمت اس کی پاسبانی میں دے دی گئی ۔ پھر بھلے ہی صدیاں گزرتی چلی جائیں مگر قلم کی حرمت قائم رکھنا ہر صاحب قلم کا فریضہ ہے ۔ہہ وہ امانت ہے جس میں خائن ہونا افورڈ نہیں کیا جا سکتا ۔ ایسے ہی صاحب قلم ، داستاں گو ، ڈرامہ نویس، ناول نگار مستنصر حسین تارڑ ہیں ۔ تارڑ صاحب کے قلم میں اس دھرتی کی ثقافت کا خمیر گندھا ہے۔ ان کے لکھے ہر ناول ، سفر نامے ، کتاب میں قاری مظاہر فطرت سے ہم آہنگ ہوتا ہے ۔ یوں تو میں تارڑ صاحب کے صرف چند اک ناول ہی پڑھ پائی ہوں لیکن “میں بھناں دلی دے کنگرے” تاریخ و ثقافت پہ مبنی ایسا ناول ہے جس نے مجھ میں تجسس کا مادہ ابھارا ہے اور میرا وجود بے اختیار یہ کہنے کو مجبور ہو گیا ہے کہ

“میں وہ مجنوں ہوں جو صحرا میں بھی آزاد رہا”

میں بھناں دلی دے کنگرے نام رکھنے کی وجہ؟

چونکہ یہ اک تاریخی ناول ہے سو اس کے نام میں جو الفاظ موجود ہیں وہ سر زمین پنجاب کی معروف شخصیت عبداللہ خان بھٹی عرف دُلّا بھٹى کے الفاظ ہیں ۔ ان کا تعارف و تاریخ پڑھے بغیر یہ ناول پڑھنا مناسب نہیں ۔

کچھ عبداللہ خان بھٹی عرف دُلّا بھٹى کے بارے

ساندل بار کے وہ سپوت ہیں جن کے دادا ساندل بھٹی اور والد فرید بھٹی مغلیہ سلطنت کے مظالم کے خلاف سر بر پیکار رہے۔ وہ دونوں ہستیاں بھی تختہ دار کی حق دار بنی تھیں ۔ آج راوی اور چناب کے درمیان موجود “ساندل بار “ساندل بھٹی کی شجاعت کی بدولت ہی معروف ہے ۔ ان کے بعد نظام انصاف کا علم تھامے عبداللہ بھٹی مغل بادشاہ شہنشاہ جلال الدین اکبر کے سامنے سینہ سپر رہے ۔ حق و سچ پہ ان کی ثابت قدمی ایسی تھی کہ اکبر بادشاہ کو اپنا دارلحکومت دہلی چھوڑ کے لاہور آ بسنا پڑا ۔ لاہور کم و بیش پندرہ برس تک اکبر کا دارلحکومت رہا ۔ اب اس تنازعے کی اصل وجہ یوں تو کسانوں پہ لگا اضافی ٹیکس ، اکبر کے رائج کردہ دین الہی کی مخالفت تھی لیکن اک واقعہ ایسا تھا جس نے دُلّا بھٹى کا نام اکبر کے صف اول کے حریفوں میں لکھ دیا۔

ہوا کچھ یوں کہ اکبر کے حرم میں اک ہندو لڑکی کو زبردستی داخل کیا گیا ۔ جسے عبداللہ بھٹی نے چھڑوایا اور اک ہندو لڑکے سے اس کی شادی بھی کروائی ۔ اس موقع پہ نہ کوئی پنڈت تھا نہ پجاری سو عبداللہ بھٹی نے خود منتر پڑھے اور شگون کے طور پہ اس ہندو جوڑی کو گہیوں و جو کا تخفہ دیا ۔ عبداللہ بھٹی کے اس عمل کی یاد میں پنجابی تہوار “لوڑی” کی بنیاد رکھی گئی ۔

حرم سے لڑکی کی رہائی نے اکبر بادشاہ کو عبداللہ بھٹی کا ایسا دشمن بنا دیا کہ پندرہ بیس برسوں تک یہ جنگ چلتی رہی ۔ پھر اکبر کے حواریوں نے معاہدہ صلح کے تحت عبداللہ بھٹی کو لاہور بلوایا اور گرفتار کر لیا ۔ انہیں قید کر دیا گیا اور یہ اک اتفاق تھا کہ انہی کے ساتھ والی کوٹھڑی میں وقت کے ولی مادھو لال حسین بھی قید تھے ۔ شہنشاہ اکبر کے حکم پہ عبداللہ بھٹی کو پھانسی گھاٹ پہ لے جایا گیا اور اس لمحے انہوں نے یہ شعر کہا

میں بھناں دلی دے کنگرے

تے دیواں شکر وانگوں بھور

میں بناں اکبر دیاں رانیاں

تے لیاواں ڈنگراں وانگوں ٹور

بھناں ۔۔۔۔۔ توڑنا، وانگوں ۔۔۔ مانند، بھور ۔۔۔ ریزہ ریزہ کرنا، بناں ۔۔۔ باندھنا، ٹور ۔۔۔ چلانا

عبداللہ بھٹی نے کہا کے اگر میرے ہاتھ کھول دیے جائیں تو میں دلی کے کنگرے توڑ دوں اور انہیں شکر کی طرح ریزہ ریزہ کر ڈالوں میں اکبر کی رانیوں کو باندھوں اور جانوروں کے ریوڑ کی طرح سارے شہر میں ہانکوں ۔

عبداللہ بھٹی کی شہادت کے بعد کسی شخص میں اتنا حوصلہ نہیں تھا کہ وہ آگے بڑھ کے ان کا جنازہ پڑھائے ۔ لیکن تب مادھو لال حسین بے خوف و خطر آگے بڑھے اور انہوں نے عبداللہ بھٹی کا جنازہ پڑھایا ۔

میں بھناں دلی دے کنگرے ناول کا خاکہ

ناول کا مرکزی کردار بھگت سنگھ ہے اور ساری کہانی اسی کے گرد گھومتی ہے ۔جو ملک و ملت کے عشق میں عین وقت شباب تختہِ دار پہ جھول گیا مگر اصولوں پہ مفاہمت گوارا نہ کی۔

اپنی پھانسی کے سو سال بعد بھگت سنگھ اک دن کے لیے اس زمیں پہ واپس اترا اور اس نے سو سال بعد اپنے آبائی مکان سے پھانسی گھاٹ تک کا سفر یادوں کی گٹھڑی تھامے دہرایا ۔

ناول میں بیان کی گئی پنجابی ثقافت ، تاریخی واقعات اور شاندار منظر نگاری قاری کو باندھ دیتی ہے ۔

صرف ہاتھوں کے چھالے ہی انسان کو درد نہیں بخشتے بلکہ کچھ کتابیں بھی دل کو لیر و لیر کر دیتی ہیں ۔ میرا دل بھی اسی حال میں مبتلا ہے ۔ اس کہانی کو ہم تین حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں ۔

پہلا حصہ

بھگت سنگھ جب سو سال بعد اپنے پنڈ واپس مڑا تو تو وہ گلیاں اسے پہچاننے سے انکاری تھیں ۔ لیکن اس لمحے وہ صرف چار چیزوں کا منتظر تھا ۔

چرخے کی گھوک ، مدھانی کی شوکر ، چکی کی آواز اور بیری کے بیر ۔

چرخہ ، مدھانی ، چکی تینوں چیزیں اس کی ماں سے منسوب تھیں ۔ بچپن کی یادیں دہراتا بھگت سنگھ اس لمحے مغموم تھا جب پنڈ پرتنے پہ اسے ان کی خاموشی سے سامنا کرنا پڑا ۔

مگر چوتھی چیز بیری کا پیڑ اس لحاظ سے اہم تھا کہ اس کی مٹی میں بھگت سنگھ نے جلیانوالہ باغ کی مٹی شامل کی تھی ۔

تب بھگت سنگھ کی عمر بارہ برس تھی جب وہ جلیانوالہ باغ گیا اور ہزاروں شہیدوں کے لہو سے بھیگی مٹی اس نے اپنی مٹھیوں میں بھری اور گھر واپس لوٹ کر اک مٹھی بیری کے پیڑ میں ڈالی اور دوسری اپنی زمینوں پہ ۔ اس بیری کے لال بیر اسی سرخی کے ضامن تھے ۔

جلیانوالہ باغ میں فائر کا حکم دینے والا جنرل ڈائر تھا اور اسی کا حکم تھا کہ باغ کے آس پاس والی گلیوں میں ہندوستانی چل نہیں سکتے بلکہ وہ سڑک پہ چیونٹیوں کی طرح رینگ کے چلیں گے ۔ کیونکہ اس سانحے سے اک دن پہلے کسی انگریز خاتون پہ کچھ سکھ منچلوں نے جملے کسے تھے جس جرم کی پاداش میں سبھی ہندوستانیوں کے لیے اس گلی سے گزرنا محال کر دیا گیا ۔ انسانیت کی یہ تذلیل بھگت سنگھ کو ایسی یاد رہی کہ وہ گھر واپسی تک سوچ کا زاویہ یکسر بدل چکا تھا ۔

سو سال بعد زمیں پہ آ کے بھگت سنگھ اپنی زمینوں کو جب ڈھونڈھنے نکلا تو وہاں اک بزرگ کو موجود پایا جن سے اسے بھگت سنگھ ہائی سکول اور تاریخی حویلی سردار بھگت سنگھ سندھو ثاقب اقبال کا پتا معلوم ہوا ۔

سکول میں جا کے بھگت سنگھ کو اپنے تختی لکھنے سے لے کے تختہ چڑھنے تک کا منظر یاد آیا اور اس کی حیرت عروج پہ پہنچی جب اپنے کمرہ جماعت کے باہر نصیر احمد اختر کی لکھی نظم “صبح آزادی کا نئیر تھا بھگت” لکھی پائی۔

دوسرا حصہ

سکول سے نکل کے بھگت سنگھ اپنے گھر کی طرف چلا تو اس نے راستے میں اک پلے کو بچوں کے عتاب سے بچایا ۔ پھر کہانی کے آخر تک وہ بھگت کے سنگ سنگ چلتا رہا ۔

اپنے آبائی گھر پہنچنے پہ بھگت سنگھ بیری کے پیڑ سے ملتا ہے ، اپنی ماں کے چرخے کو دیکھتا ہے ۔ دیواروں پہ اپنے ماں باپ ، تحریک آزادی کے ساتھیوں کی تصاویر دیکھتا ہے اور رنجیدہ ہوتا ہے۔ پھر وہ شہر لاہور کی طرف اپنا سفر کرتا ہے اور اپنی تعلیمی درسگاہوں نیشنل کالج ، بریڈ لے ہال کا رخ کرتا ہے۔ ناول میں جا بجا تاریخی واقعات لکھے ہیں، جیسے ،

ایمن آباد میں منعقد ہونے والے بیساکھی کے میلے کی وجہ کیا ہے ؟

بابا گرونانک نے کس بنجر چیٹل زمین پہ بیٹھ کے تپسیا کی ؟جسے آج کیوں بابے کی روڑی کہا جاتا ہے ؟

پھر مستنصر حسین تارڑ نے اس زمانے کے سماجی نظام پہ بھی خاصی چوٹ کی ہے ۔ تب بھی اونچی ذاتیں ، امیر گھرانے ، علاقے کے معتبر لوگ مانے جاتے تھے اور کمہار ، جھنگی ، کسان سب نچلی ذات میں شمار ہوتے تھے ۔ ان کے لیے گائوں کا حصہ بالکل الگ تھا۔ لیکن بھگت سنگھ اور اس کا خاندان برابری کا قائل تھا اور وہ ہر ایسے اچھوت کو سر آنکھوں پہ بٹھاتے تھے ۔ کہانی میں ایسا ہی اک کردار چٹے چنگڑ کا ہے جو اپنے کالے رنگ کی وجہ سے خاصا قابل تضحیک تھا ۔ لیکن بھگت سنگھ کا سچا دوست تھا ۔

سکول چھوڑنے کے بعد لاہور آنے پہ بھگت سنگھ نے بریڈ لے ہال میں بنے نیشنل کالج میں پڑھائی کی ۔ یہ کالج پنجابی تعلیم کے لیے تھا اور اس کا نام جس شخصیت پہ تھا وہ بریڈ لے ایسا انگریز تھا جس نے پارلیمنٹ میں ہندوستانیوں کے لیے آواز اٹھائی ۔ وہ ہندوستانی عوام کے حقوق کے لیے سرگرم عمل رہا مگر اسے پھر ملک بدر کر دیا گیا اور اسی کی یاد میں ہندوستانی عوام نے یہ درسگاہ کھولی ۔

تیسرا حصہ 🌻 :

کہانی کا یہ حصہ بھگت سنگھ کی جدو جہد پہ ہے ۔ کہ کیسے وہ اس تحریک کا حصہ بنا اور کس عمل نے اسے تختہ دار پہ پہنچنے کی تحریک دی۔

جب 1928 میں سائمن کمیشن ہندوستان آیا تو لاہور ریلوے سٹیشن پہ تمام انقلابی رہبروں کا اک بڑا اجتماع ہوا جس میں مسلمان ، ہندو ، سکھ سبھی لیڈر شامل تھے ۔ تب اس تحریک کے روح رواں لالہ اجپت رائے کو فرنگی فوج نے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا اور وہ چند ماہ علالت کے بعد دم توڑ گئے ۔ ان پہ تشدد کا حکم دینے والا سنئیر سپرٹینڈنٹ جیمز سکاٹ تھا ۔لالہ اجپت رائے کی موت سے ہندوستانی عوام کے دلوں میں آزادی کی تحریک مزید ہوا پکڑنے لگی ۔ اسی شہادت کا بدلہ لینے کے لیے بھگت سنگھ نے اس انگریزی افسر جیمز سکاٹ کو اپنی پستول کے نشانے پہ رکھا ۔ دن رات اس کی جاسوسی کرنے کے بعد اک سہ پہر وہ اور اس کے تین ساتھی اسے مارنے چل پڑے ۔ چونکہ انہوں نے اسے دیکھا نہیں ہوا تھا سو غلطی سے سکاٹ کی بجائے مسٹر سانڈرس ان کی گولیاں کا نشانہ بنا ۔ اس واردات سے جان بچا کے بھگت سنگھ اور اس کے سنگی فرار بھی ہو گئے لیکن یہ قتل بس کچھ عرصے تک ہی سرخیوں میں رہا ۔ سو اپنی آواز کو احکام بالا تک پہنچانے کے لیے بھگت سنگھ اور اس کے ساتھی سکھ دیو ،رام گرو نے پارلیمنٹ میں دھماکے کروانے کا منصوبہ بنایا اور اس پہ عمل بھی کیا ۔ لیکن ان لوگوں نے اپنی گرفتاری بھی وہیں دی کیونکہ ان کا مقصد اپنی آواز پہنچانا تھا۔ ناول میں بھگت سنگھ کے قریبی دوستو کی غداری کا بھی ذکر کیا گیا ہے جنہوں نے وعدہ معاف گواہ بن کے اپنی جان بچائی تھی ۔

میں بھناں دلی دے کنگرے میں قائد اعظم کے کردار پہ بھی چرچا کی گئی ہے کہ جب دھماکے ہوئے تب پارلیمینٹ میں قائد اعظم بھی موجود تھے اور انہوں نے مقدمے کی سماعت میں کئی بار بھگت سنگھ کے موقف کی تائید کی کہ اگر ہندوستانی عوام کو حقوق نہیں دیے جائیں گے تو وہ اپنی آواز اٹھانے کے لیے انہی اقدامات پہ عمل کرے گی ۔

گرفتاری کے بعد پھانسی گھاٹ تک کا سفر بھگت سنگھ کے لیے خواب انگیز تھا۔ کیونکہ وہ خود تختہ دار پہ جھولنا چاہتا تھا اس لیے اس نے اپنے لیے عمر قید کی اپیل بھی نہ کرنے دی بلکہ اس نے اپنے آخری دنوں میں بے انت کتابوں کا مطالعہ کیا ۔ بھگت سنگھ نے ان کتابوں سے کشید کیا جانے والا علم اپنی ڈائری میں محفوظ کیا جو بعد میں”جیل نوٹ بک” کے نام سے معروف ہوئی ۔

جیل میں اک اور کردار مائی ہنیری کا متعارف کروایا گیا جو قیدیوں کی لیٹرین صاف کرتی تھی ۔ شودر ہونے کی وجہ سے سب قیدی اس سے پرے رہتے تھے لیکن بھگت سنگھ اس مائی سے بات کرتا ہے اسے گلے لگاتا ہے ۔

بھگت سنگھ کا انسانیت پہ یقین اس قدر تھا کہ وہ خود کو ملحد کہتا تھا ۔ بےخوفی اس قدر تھی کہ اس نے اور اس کے دونوں ساتھیوں نے اپنے ہاتھوں سے پھانسی کا پھندا گلے میں ڈالا اور وقت مشہور زمانہ اشعار پڑھے

سر فروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے

دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

مارچ 1931 کی تیئس تاریخ کوبھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کوپھانسی لگا دینے کے بعد جیل احکام نے لوگوں کے متوقع رد عمل سے ڈرتے ہوئے بھگت سنگھ ، سکھ دیو ، رام گرو کی لاشوں کے ٹکڑے کر کے دریائے ستلج کے کنارے جلا دیے ۔

ناول میں جذبات نگاری شاندار ہے ۔ قاری کے لیے کئی جگہ ضبط کرنا مشکل ہے ۔جیسے

پھر کس طرح عوام کا ہجوم ان ٹکڑوں تک پہنچا اور اپنے شہیدوں کے کریا کرم کے بعد کیسے ان کی راکھ راوی میں بہائی گئی۔

جوں ہی یادوں کا سفر تمام ہوتا ہے توں ہی بھگت سنگھ سوسال بعد اس زمیں پہ اک دن گزار کے واپس لوٹ جاتا یے ۔

میں بھناں دلی دے کنگرے سے کچھ پسندیدہ اقتباسات

بندہ رب کو نا مانے تو کوئی بات نہیں لیکن جس بندے کو دوسرے بندے مانیں جس کے لیے دعا کریں اسے تو رب مانے گا ہی ۔ یہ دعا اور رب کا معاملہ ہے. کہ وہ کسی غیر مذہبی یا ملحد کے لیے کی جانے والی دعا قبول کرتا ہے یا نہیں۔

( یہ الفاظ عطاء اللہ شاہ بخاری کے تھے جنہوں نے بھگت سنگھ کی شہادت کے بعد اس کے لیے دعا کروائی تھی)

خوشی کبھی باغ بہار اور گلزار میں نہیں ملتی تو کبھی موتیے کے پھول پہ بیٹھی اک تتلی میں مل جاتی ہے ۔

کبھی پربتوں کی تپسیا کر کے بھی اس کا نام و نشان نہیں ملتا اور کبھی کسی غار میں آنکھیں بند کر کے گیان میں گم ہونے والے کے دل میں اک دیے کی طرح وہ روشن ہو جاتا ہے۔ خوشی کا کچھ اعتبار نہیں کہ کبھی یہ پھولوں بھری ڈال پہ خاموش رہتی ہے تو کبھی یہ پت جھڑ کی رتوں میں اک زرد پتہ دیکھ کے چہکنے لگتی ہے ۔

” مجھے دیکھ کے رجھ جانے والی تو میرے ساتھ ہی مر گئی تھی “

“بے قصوروں کا خون دھوپوں کی گرمائش سے بھی نہیں سوکھتا “

نوٹ : یہ پنجابی ناول ہے سو زارش نے اپنا تبصرہ پنجابی زبان میں ہی لکھا ہے ۔ لیکن قارئین کی سہولت کے لیے اردو میں کہانی بیان کی ہے ۔.

میں بھناں دلی دے کنگرے – پنجابی تبصرہ

زارش نور نے اس ناول بارے اپنڑے تاثرات پنجابی وچ وی قلمبند کیتے نیں

میں بھناں دلی دے کنگرے ناول دی ابتداء

کہانی شروع ہوندی اے بھگت دی جدوں او سو ورہیاں بعد اپنے پنڈ نوں مڑیا تے پنڈ دی اکھاں اچ اوہدی پچھان دے دیوے نئیں سن بلدے ۔

پر مینوں ایس گل تے زرا رونا نئیں آیا ۔ قسمے میں تد وی نہ روئی جدوں بھگت نے کہیا کہ

مینوں دیکھ کے رجھ جان والی تے میرے نال ای مر گئی سی

اوہدی ساہ لیندی چرخے دی گھوک وی مینوں نہ رلا سکی ۔

یارا مینوں تے اوس مدھانی دی شوکر وی سنائی نہ دتی ۔

قسمے میرے جی دے اتھرو تے چکی دی چپ تے وی نئیں ڈلے ۔

لیکن جدوں میں بیری دے پیڑ اچ اوس “رت والی مٹی” دا ملنا ویکھیا میں تھل تھل روئی ۔

اوہناں لال سوہے بیراں دے رنگ دی رمز سمجھی تے میرا دل لیرو لیر ہو گیا ۔

جلیانوالہ باغ دی اے جہیڑی بپتا مصتنصر حسین تارڑ نے اپنڑے ناول میں بھناں دلی دے کنگرے وچ لکھ دتی اے ناں تے پائی میرے میرا وس چلے تے میں ہن کتاباں چھاپن تے پابندی لا دیواں ۔

مینوں لگ رہیا اے جیویں میرا دل وی اک پکھیرو سی جہیڑا شہیداں دی اوس پھوہڑی اچ جل سڑ گیا ۔ ایس لئی تے میریاں اکھاں دے اتھرو پچھدے نیں کہ جدوں بےقصورراں دی رت کدی نئیں سکدی تے فیر جھلیا ساڈے ملک دا ایہہ حال کیویں ہو گیا ؟

میں بھناں دلی دے کنگرے دی کہانی

چل چھڈ کہانی دی گل کرنی آں ۔ یارا میں تارڑ دے ایہناں لفظاں توں اپنی اکھاں پرت جاناں چاہندی سان پر پرت نیں سکی ۔ مینوں اپنے پیراں تھلے رت دی او گیلی تریل محسوس ہوندی سی جہیڑے بارہ ورہیاں دے بھگت دی تلیاں راہے اوہدے جسے وچ جا کے خون نال رل گئی سی ۔

میرے مترا ! تینوں کیویں دساں کہ جدوں پنڈ دی مٹی نے بھگت نوں پچھانیا تے او سارے منظروں نوں میری اکھاں نیں اتھرو واں دی بھینٹ دتی اے ۔

میں قربان جاں، جدوں رت ملی مٹی دی مٹھ اوہنیں پنگر دی بیری تے اپنے پند دی مٹی اچ پائی۔

میں تارڑ دے قلم نوں سو واری چُماں ۔

قسمے روندے روندے میرے مکھ تے مسکان جئی ہھیل گئی جدوں بھگت کولوں اوس بابے نے اپنی دھون ول لپیٹے مفلر دا پچھیا ۔

بھگت سنگھ دے جذبات بڑے ودھیا سن کہ ہورے اینوں میری سو تے نئی گئی ؟ میرے کول او شبد نئیں جہیڑے میرے دل دا حال کہہ سکن ۔ایس لیے ای مختصر جئی گل دس رہی آں ۔

ویساکھی دا میلہ سی جتھے جا کے بھگت آپ میلہ ہو گیا ۔

مینوں ایس میلے دی تاریخ نئیں پتا سی ۔ نا بابے دے روڑی دے نا دا اصل معانی ۔ ایس میلے دیاں یاداں نوں سانبھدا ہویا بھگت جدوں چرخے دی گھوک سن کے اپنے گھار پرتیا ناں تے یقین کر میرے اتھرو کوئی نئیں ڈگے ۔

میں تے ایس چپ چپیتے چرخے دی ہتھی چلان الی اوس رجھن آلی ماں دی یاداں دے کھوہ اچ ڈب کے وی سکی (سوکھی) رہی

فیر جدوں سو ورہیاں بعد اپنے گھار پرت آن والے بھگتے نے اپنے ماں پیو تے یار بیلیاں دے فوٹواں ویکھیاں ، اپنے اتھرو سٹے ، دل دے ورقے تھلے تے وی میری اکھیاں انج ای سن سکھیاں سکم ۔

پر جدوں میں اجڑی پجری بیری دا ملن ویکھیا ۔۔۔۔تے میرا جی ڈب گیا ۔

اوس بیری نوں ملنا تے فیر چھڈنا بھگت لئی اوکھا سی، ہے ناں؟

پر کی کردا اوہدے کول دیہاڑا وی تے اکو اک سی ناں

سو اوس اک دیہاڑے اچ اوہنے سارے موڑ مڑنے سن ۔ ایس لئی تے او شہر لہور مڑیا ۔

جتھے نیشنل کالج سی ۔۔۔۔

جدھروں اوہنے انقلاب دی دا جھنڈا پھڑیا ۔

اک دیہاڑے اچ اوہنے سارے موڑ مڑنے سن ۔ ایس لئی تے او شہر لہور مڑیا ۔

جتھے فریڈ لے ہال سی

جدی نیی ہندوستانیاں دیاں منگاں اسطے واج اٹھان آلے فریڈلے نے رکھی سی ۔

اک دیہاڑے اچ اوہنے سارے موڑ مڑنے سن ۔ ایس لئی تے او شہر لہور مڑیا ۔

جتھے پولیس لائن سی

ایس تھاں ای تے بھگت سنگھ نے پہلی واردات پائی۔

اک دیہاڑے اچ اوہنے سارے موڑ مڑنے سن ۔ ایس لئی تے او شہر لہور مڑیا ۔

جتھے او ٹیشن سی جنہیں لالہ اجپت رائے دی رت نوں اپنی اکھاں نال ویکھیاں ۔

بھگت نوں شہر لہور ول مڑنا ای سی ۔

آخر ایتھے او سینٹرل جیل سی جتھے اوہنے پھاں دا کھینٹہ ہنسدے ہنسدے اپنی دون ول پایا سی۔

مینوں اوہدے یاراں دی غداری نے نئیں رلایا ۔

مینوں مائی ہنیری نوں نیچ سمجن آلے اوہدے بیلی وی برے نئیں لگے ۔

پائی ایہی ریت اے زمانے دی ۔ جہیڑا گرو ہووے اوہنوں بس گرو ای مندے نیں

اپنے توں اونچا وی سمجھندے نیں

پر اوہدی مندا کوئی نیں ۔

اوہنوں سمجھدا کوئی نئیں ۔

خیر کہانی تے گل کراں گی

ناول دا اختتام تے مجموعی تاثر

جدوں بولیاں دے کناں نوں واج سنان اسطے او پارلیمنٹ تے ۔۔ ۔۔ ۔۔ مارن دے ویلے بھگت دی روشن اکھاں ویکھیاں نا تے میں رجھ گئی ۔

قسمے میرا دل کیتا میں وی اک دیہاڑے اوسی ویلے نوں پرت جاواں ۔ پائی اے کتاب کتاب نئیں کج ہور اے ۔

کدی مینوں دیوان مخفی دی تاریخ پتا لگ رہی اے تے کدی او سارے انقلابی لیڈراں دیاں گلاں ۔ اک دو واقعے تے دل تے نقش ہو گئے نیں۔

اک تے او عطاء اللہ شاہ بخاری دا

جنہاں نے ایس ” بے مذہبے ” بھگت لئی دعا کرائی سی ۔

تے دوجا او بھگت دی کتاباں آلی منگ ۔

او پھاہے لگن توں پہلے سارا علم لے لینا چاہندا سی کہ فیر موقع نئیں ملنا ۔

تے اوہدی جہیڑی گل سی نا کہ کتاب پڑھن آلے زیادہ چنگے رہندے نیں بہ نسبت لکھن آلے دے ۔

شکر اے سوہنے رب دا کہ میں اے کتاب پڑھ رہی آں ❤️

مستنصر حسین تارڑ صاحب دے اس ناول دی طراں اِک ہور ودھیا ناول پیار کا پہلا شہر وی ہے

Related Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *