From Purdah to Parliament

From Purdah to Parliament by Shaista Suhrawardy Ikramullah

بیگم شائستہ سہروردی اکرام اللہ کا مختصر تعارف کچھ یوں ہے کہ اُن کی والدہ، نواب لطیف اللہ کی نواسی تھیں۔ نواب صاحب کو بنگال کا سرسید کہا جاتا ہے۔ بیگم صاحبہ کے والد سہروردی خاندان سے تعلق رکھتے تھے، بنگال اور پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم حسین شہید سہروردی بیگم صاحبہ کے کزن تھے۔ ان کے شوہر محمد اکرام اللہ پاکستان کے پہلے سیکرٹری خارجہ تھے، ان کے دیور بھارت کے چیف جسٹس، نائب صدر، اور قائم مقام صدر بھی رہے۔ بیگم صاحبہ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کی دو خواتین ممبران میں سے ایک تھیں۔ انہوں نے اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کی اور مراکش میں پاکستان کی سفیر بھی رہیں۔ اُن کی آپ بیتی ‘From Purdah to Parliament by Shaista Suhrawardy Ikramullah‘ زیرِ مطالعہ تھی، جس کے کچھ چیدہ چیدہ نقاط حسبِ ذیل ہیں:

کتاب کا ابتدائی حصہ اُن قارئین کےلیے دلچسپ ثابت ہو سکتا ہے جو قیامِ پاکستان سے پہلے بنگال کے خاندانی نظام اور اس نظام میں خواتین کے مقام کے بارے میں جاننا چاہتے ہوں۔ اس کی ایک جھلک اس وقت ہمیں نظر آتی ہے جب بیگم صاحبہ کو اسکول میں پڑھانے کا مرحلہ درپیش ہوا۔ اُن کے والد ترقی پسند خیالات کے مالک تھے، اسی لیے خاندان کی مخالفت کے باوجود اپنی بیٹی کو مسیحی اسکول میں داخل کروایا۔ ایک ایک کر کے خاندان کے سب افراد جب انہیں سرزنش کرنے لگے تو حسن سہروردی صاحب نے سب کو یہی کہا کہ آج سے بیس سال بعد تم سب لوگ اپنی اپنی بیٹیوں کو اسکول میں پڑھا رہے ہو گے۔ میں نے کچھ غلط نہیں کیا، البتہ میں تم سب سے کچھ قدم آگے ضرور ہوں۔ بیگم صاحبہ نے اس کتاب میں اپنی کم عمری میں ہونے والی شادی کا دفاع کیا ہے۔

برصغیر کی تحریکِ آزادی میں انہوں نے دامے، درمے، سخنے حصہ لیا، برصغیر کی مسلمان خواتین کو اکٹھا کرنے کےلیے محترمہ فاطمہ جناح کے مشورہ پر ایک تنظیم بنائی۔ اپنے والد حسن سہروردی اور کزن حسین شہید سہروردی کے ہمراہ انیس سو پینتالیس چھیالیس کے فیصلہ کن انتخابات کی الیکشن کمپین میں حصہ لیا۔ والد کی وفات کے بعد ان کی سیٹ پر قانون ساز اسمبلی کی ممبر منتخب ہوئیں۔

انیس سو چھیالیس کے انتخابات کے بعد بنگال میں فسادات شروع ہو گئے۔ یہ ایک بہت بڑا انسانی المیہ تھا۔ گاندھی جی بنگال میں فسادات کی آگ ٹھندی کرنے کےلیے آئے تو وزیراعظم حسین شہید سہروردی نے ان سے درخواست کی کہ کلکتہ میں ان کی زیادہ ضرورت ہے۔ گاندھی جی نے سہروردی صاحب سے کہا کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں کلکتہ کا دورہ کروں تو اس کےلیے آپ بھی میرے ساتھ خیمہ بستیوں میں رہیں۔ سہروردی صاحب نے امن کی خواہش میں ان کے ساتھ رہنا قبول کیا لیکن مسلم لیگ میں ان کے مخالفوں نے الزام لگایا کہ وہ کانگریس کے ساتھ مل گئے ہیں۔

اپنی کتاب میں شائستہ سہروردی نے قائد اعظم سے ہوئی اپنی کئی ملاقاتوں کا احوال لکھا ہے۔ قائد اعظم کی شخصیت پر انہوں نے بہت کچھ لکھا ہے مگر اس میں سے سب سے خاص بات مجھے یہ لگی کہ بحث مباحثہ کے دوران قائداعظم اپنے سامعین کو جذباتی نقطہ نظر سے قائل کرنے کی بجائے دلائل سے قائل کرنے پر یقین رکھتے تھے۔ اپنے دلائل پیش کرنے کے بعد وہ فیصلہ سننے والے کی منطق پر چھوڑ دیا کرتے تھے۔ نہ آواز میں ڈرامائی اتار چڑھائو، نہ چہرے پر جذبات نگاری، بس سیدھے سپاٹ لہجے میں اپنے دلائل دیتے تھے۔ ڈسپلن کی خلاف ورزی انہیں کسی صورت قبول نہ تھی۔ بیگم صاحبہ کے بقول بنگال کے وزیرِ اعلیٰ فضلِ حق کو پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی پر پارٹی رکنیت سے خارج کرنا ایک انتہائی دلیرانہ فیصلہ تھا خصوصاَ اس وقت جب مسلم لیگ کو فضلِ حق کی ضرورت تھی۔ تحریکِ پاکستان میں خواتین کی شمولیت کو قائد اعظم نے ایسے باوقار بنایا کہ تقریباَ ہر اہم تقریب میں محترمہ فاطمہ جناح ان کے ساتھ ہوتی تھیں۔ محترمہ کی وجہ سے باقی خواتین بھی جلسہ جلوس اور اہم میٹنگز میں شامل ہوا کرتی تھیں۔ با پردہ خواتین کےلیے پردہ کا انتظام ہوا کرتا تھا اور جو خواتین پردہ نہیں کرتی تھیں، ان پر فقرے نہیں کسے جاتے تھے۔

بیگم شائستہ سہروردی کے بقول انگریزوں کے برصغیر چھوڑنے کی ایک بڑی وجہ Indian National Army کے مقدمات بھی تھی۔ سبھاس چندر بوس اس آرمی کے سربراہ تھے، دوسری جنگِ عظیم میں یہ لوگ برٹش انڈیا آرمی کا حصہ تھے، جرمن فوج نے انہیں قید کر لیا اور انہیں مجبور کر دیا کہ برطانیہ سے اپنی وفاداری ترک کر دیں۔ انہوں نے ترک کر دی، کچھ نے پھر برطانوی فوج کے خلاف جرمنوں کی طرف سے جنگ بھی لڑی۔ جنگ کے بعد یہ واپس آئے تو ان پر برطانوی حکومت نے غداری کے مقدمات قائم کر دیے جس سے ان کو برصغیر کی عوام میں ہیروز کا درجہ مل گیا۔ ان کے دفاع کےلیے عدالت میں برصغیر کے نامور نام پیش ہوئے مثلا نہرو، بیرسٹر آصف علی، بھولابھائی ڈیسائی وغیرہ۔ ان مقدمات سے انگریز سرکار کی بہت بدنامی ہوئی۔ جنگ کے دوران وفاداری تبدیل کرنا ایک برا فعل سمجھا جاتا ہے لیکن جب انگریزوں نے دیکھا کہ برصغیر کی عوام انگریز دشمنی میں برا بھلا دیکھنے سے آگے نکل چکی ہے تو انہوں نے اسی میں بہتری سمجھی کہ اب انڈیا سے نکل جایا جائے۔

قیام پاکستان کے بعد انہوں نے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کی رکن کی حیثیت سے حلف لیا۔ اس تقریب کے احوال میں انہوں نے ایک بہت اہم بات لکھی ہے۔ کہتی ہیں کہ جیسے ہی سب ارکان نے حلف لے لیا تو بنگال سے تعلق رکھنے والے ایک رکن نے درخواست کی کہ دستور ساز اسمبلی کا اجلاس صرف کراچی میں ہونے کی بجائے ایک دفعہ ڈھاکہ، ایک دفعہ کراچی میں ہونا چاہیے۔ کیونکہ مشرقی پاکستان کی آبادی مجموعی طور پر مغربی پاکستان سے زیادہ ہے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ بنگالی یہ سمجھیں کہ ہمارے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔ وزیرِ اعظم لیاقت علی خان سمیت کئی دوسرے ارکان نے اس تجویز کی مخالفت کی لیکن اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ پہلے دن سے ہی بنگال سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں کو یہ شبہات تھے کہ ہمارے ساتھ ناانصافی ہو گی۔

قیامِ پاکستان کے فوراَ بعد ایک تعلیمی کانفرنس کا انعقاد ہوا جس کا ایجنڈا پاکستان کی تعلیمی پالیسی کے اغراض و مقاصد متعین کرنا تھے۔ بیگم صاحبہ بہت خوش ہوئیں کہ حکومتِ پاکستان نے شروع سے ہی تعلیم جیسے اہم شعبہ کو توجہ دی ہے۔ لیکن ان کی یہ خوشی زیادہ دیر قائم نہ رہی۔ وہ یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئیں کہ اس کانفرنس کے اراکین میں ترقی پسند دانشوروں کے ساتھ ساتھ تنگ نظر اور بے لچک نقطہ نظر رکھنے والے لوگ بھی شامل تھے۔ انہوں نے اس وقت کے وزیرِ تعلیم فضل الرحمان کے حوالے سے لکھا ہے کہ وہ ایک محدود سوچ رکھنے والے، سخت ذہن اور کٹر نظریات کے حامل شخص تھے جنہیں جدید تعلیمی نظام کی الف بے کا بھی علم نہیں تھا۔ کانفرنس کا زیادہ تر وقت اس بحث میں گزر گیا کہ نصاب میں مذہب کی تعلیم شامل ہونی چاہیے یا نہیں؟ اگر ہاں تو کس فرقہ کی مذہبی تعلیمات پڑھائی جائیں وغیرہ وغیرہ۔ بیگم صاحبہ نے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان سے مذکورہ وزیر کی شکایت کی تو خان صاحب نے کہا کہ آپ وزیر صاحب سے بات کریں۔ اس پر بیگم شائستہ سہروردی نے جل کر کہا کہ ‘وزیر موصوف کچھ بھی سمجھنے سے قاصر ہیں، میرا کام وزیرِ تعلیم کو تعلیم دینا نہیں۔’ اس کے علاوہ بھی تعلیم سے متعلق کئی مسائل تھے جن سے صرفِ نظر کیا گیا مثلاَ اساتذہ کی کم تنخواہیں۔ (پاکستان کے تعلیمی نظام کی موجودہ بدحالی کی وجوہات تلاش کرنے والوں کو پاکستان کے پہلے وزیرِ تعلیم کی شخصیت کا مطالعہ شاید کافی معلومات افزا معلوم ہو)۔

مہاجرین کی بحالی ایک بہت کٹھن کام تھا۔ شائستہ سہروردی نے اسمبلی میں قراردار پیش کی کہ ویسے تو سب مہاجرین قابلِ عزت ہیں لیکن ان میں سے جو دستکار ہیں ان کو خصوصی مشاہرہ وغیرہ دیا جائے کیونکہ روزگار نہ ہونے کی وجہ سے خدشہ ہے کہ یہ لوگ اپنا اصل ہنر چھوڑ کر کسی اور کام کاج میں لگ جائیں گے اور پاکستان کی دستکاری کی صنعت تباہ ہو جائے گی۔ اگر ان کو تحفظ دیا جائے تو بعد میں دستکاری سے کافی زرِ مبادلہ کمایا جا سکے گا۔ اس تجویز کو ایلیٹ کلاس کی بیگمات کی تجویز کہہ کر رد کر دیا گیا۔ لیکن دوسری طرف ہمسایہ ملک بھارت میں سردار ولبھ بھائی پٹیل نے مسلمان دستکاروں سے بنارس میں ملاقات کی اور ریشم و کمخواب کے کاریگروں سے بھارت میں ہی رہنے کی درخواست کی۔ مزید برآں، سردار پٹیل نے پاکستان ہجرت کر جانے والے دستکاروں کو پیغامات بھجوائے کہ آپ انڈیا واپس آ جائیں، آپ سے خصوصی تعاون کیا جائے گا۔ نتیجتاَ کئی کاریگر انڈیا واپس چلے گئے جبکہ پاکستان رہ جانے والے کاریگروں کی اکثریت نے چاٹ اور سبزیوں کے ٹھیلے لگا لیے۔

حکومت نے کلرکوں کےلیے کوارٹر بنانے شروع کیے، یہ ابھی نامکمل تھے کہ بارشیں ہو گئیں۔ مہاجرین، جن کے پاس رہنے کی کوئی جگہ نہ تھی وہ ان کوارٹرز پر قابض ہو گئے اور ان میں رہنے لگے۔ سرکاری اہلکاروں نے ان مہاجرین سے کو آفر دی کہ آپ فی کس پانچ روپے اور چار چٹائیاں لیں اور یہ کوارٹر چھوڑ دیں ورنہ آپ کو زبردستی یہاں سے بیدخل کر دیا جائے گا۔ کسی متبادل رہائش کے نہ ہوتے ہوئے یہ کوارٹر چھوڑنے کا مطلب تھا کہ برستی بارش میں کھلے آسمان تلے ذلیل ہونا۔ شائستہ سہروردی کی درخواست پر وزیراعظم پاکستان نے ان مہاجرین کو ان کوارٹرز میں رہنے کی اجازت دے دی، آج وہ جگہ کراچی میں لیاقت آباد کے نام سے جانی جاتی ہے۔

آئین سازی کے عمل پر بیگم شائستہ سہروردی نے بہت تنقید کی ہے۔ ان کے بقول، دستور ساز اسمبلی میں اکثریت بنگالیوں کی تھی۔ مغربی پاکستان کے سیاستدان خوفزدہ تھے کہ بنگالی اس کثیر تعداد کی وجہ سے ہر قانون سازی میں اپنی مرضی کا فیصلہ کروا لیں گے۔ اسی وجہ سے آئین سازی کے عمل کو جان بوجھ کر موخر کیا جاتا رہا۔ بقول بیگم شائستہ سہروردی، یہ ایک گمبھیر مسئلہ ضرور تھا لیکن شروع میں یہ صرف ایک چنگاری کے مانند تھا۔ سیاستدانوں کو چاہیے تھا کہ مل بیٹھ کر اس مسئلہ کا حل تلاش کر لیتے۔ حسین شہید سہروردی نے اپنی مختصر وزارت عظمیٰ میں بنگالیوں کو اس بات پر قائل کر لیا تھا کہ وہ آبادی میں زیادہ ہونے کے باوجود اپنے ووٹ مغربی پاکستان کے برابر مان لیں۔ لیکن اس چنگاری سے آنکھیں چرانے کی بدولت، یہ ایک آتش فشاں میں بدل گئی جس نے جلا کر سب کچھ خاکستر کر دیا۔

بیگم صاحبہ کے بقول پاکستان کے فیصلہ ساز لوگوں نے ایک بہت بڑی غلطی یہ کی کہ لیاقت علی خان کے قتل کے بعد خواجہ ںاظم الدین جیسے شریف النفس انسان کو وزیرِ اعظم منتخب کروا دیا اور گورنر جنرل کی سیٹ ایک بیوروکریٹ غلام محمد کو ہدیہ کر دی۔ غلام محمد نے پہلی دستور ساز اسمبلی برطرف کر کے ایک غیر جمہوری بدعت کا آغاز کیا تو خواجہ ناظم الدین جو فطرتاَ شریف النفس آدمی تھے، چپ چاپ ایوانِ قتدار سے رخصت ہو گئے۔ خواجہ صاحب کے پاس اپنا گھر نہیں تھا، اس لیے آدم جی فیملی نے اپنا ایک فلیٹ ان کے رہنے کےلیے پیش کر دیا۔ بیگم صاحبہ نے اس پر بھی شرمندگی کا اظہار کیا ہے کہ گورنر جنرل غلام کے اس غیر آئینی و غیر جمہوری عمل کی مخالفت کرنے والے دونوں جج غیر مسلم تھے، جبکہ مسلمان ججز نے اس غیر آئینی عمل کی توثیق کی. خواجہ ناظم الدین کے بعد محمد علی بوگرا کو امریکہ سے بلوا کر وزیر اعظم بنوایا گیا۔ بوگرا صاحب نے اعلان کیا تھا کہ دستور ساز اسمبلی کا اجلاس اس وقت تک جاری رہے گا جب تک یہ اسمبلی آئین سازی نہیں کر لیتی۔ بیگم صاحبہ لکھتی ہیں کہ انہیں بڑا تعجب ہوا جب کچھ ہی دن بعد قانون ساز اسمبلی کا اجلاس صرف یہ قرارداد پاس کرنے کے بعد کہ پاکستان میں کوئی بھی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنے گا، ختم کر دیا گیا۔ بیگم صاحبہ کے بقول اسلام کے نام پر بننے والے ملک کی دستور ساز اسمبلی جس کی اکثریت بھی مسلمان ہو ، وہ اسلامی قوانین کے خلاف کیسے قانون بنا سکتی ہے؟ یہ قراردار سیاستدانوں کی ایک شعبدہ بازی تھی اور آئین سازی کے اصل معاملہ سے توجہ ہٹانے کی کوشش تھی۔ احتجاجاَ بیگم شائستہ سہروردی نے مسلم لیگ سے استعفیٰ دے دیا۔

ایوب خان نے بیگم شائستہ سہروردی کو مراکش میں پاکستان کا سفیر مقرر کر دیا۔ سنہ پینسٹھ کی جنگ کے دنوں میں مراکش میں عرب ممالک کا ایک اجلاس ہو رہا تھا۔ کئی عرب ممالک کا بھارت کی طرف جھکائو ہونے کے باوجود پاکستانی سفیر کی کوششوں کی بدولت اس کانفرنس نے کڑے الفاظ میں بھارت پر تنقید کی۔ یہ ایک بڑی سفارتی کامیابی تھی لیکن بیگم صاحبہ لکھتی ہیں کہ انہیں بڑا جھٹکا اس وقت لگا جب انہیں پتہ چلا کہ کانفرنس کی طرف سے پاکستان کی حمایت اور بھارت پر سخت تنقید کرنے کے کچھ ہی دن بعد حکومتِ پاکستان نے ماریتانیا کو تسلیم کر لیا۔ ماریتانیا کے علاقہ پر مراکش بھی اپنا دعویٰ رکھتا تھا۔ مراکش اور عرب کانفرنس کی طرف سے پاکستان کی سفارتی حمایت کرنے کے فوراَ بعد ماریتانیا کو تسلیم کرنا پاکستان کا ایک غیر ضروری اور غیراخلاقی قدم تھا۔ مراکش کے وزیرِ خارجہ نے بیگم شائستہ کو اپنے دفتر طلب کیا اور احتجاجاَ کہا کہ میں پچھلے ہفتہ ہی آپ کے وزیرِ خارجہ کے ساتھ نیویارک میں کھانا کھا رہا تھا اور آپ کے وزیر خارجہ نے مجھے اشارتاَ بھی نہیں بتایا کہ پاکستان ماریتانیا کو تسلیم کرنا چاہتا ہے۔

کئی ایسے موضوعات ہیں جن پر مجھے امید تھی کہ بیگم شائستہ سہروردی بہت قیمتی معلومات دے سکتی ہیں، مگر انہوں نے ان موضوعات سے صرفِ نظر کیا۔ مثلاَ ان کے شوہر مسلم لیگ کی پارٹیشن کمیٹی کے رکن تھے۔ وہ ریڈ کلف کے متنازعہ بائونڈری کمیشن پر اپنی رائے دے سکتی تھی، لیکن نہیں دی۔ پھر ان کے شوہر پاکستان کے پہلے سیکرٹری خارجہ تعینات ہوئے، وہ اس موضوع پر بھی لکھ سکتی تھیں کہ پاکستان سوویت یونین کے کیمپ سے ایک دم امریکہ کی طرف کیسے چلا گیا؟ وہ قائد اعظم کی وفات اور لیاقت علی خان کے قتل کی متنازعہ وجوہات پر بھی لکھ سکتی تھیں۔ کن لوگوں کے مشورہ سے خواجہ ناظم الدین سے گورنر شپ لے کر غلام محمد کو دی گئی؟ وہ اپنے کزن حسین شہید سہروردی (جن کے بارے ان کا خیال تھا کہ وہ لیاقت علی خان کے بعد وزارت عظمیٰ کے حقدار تھے) کے اقتدار میں آنے اور انہیں اقتدار سے بیدخل کیے جانے کی روداد بھی بیان کر سکتی تھیں ۔ ایوب خان کے مارشل لاء، اور محترمہ فاطمہ جناح کے الیکشن ہارنے پر بھی ضرور لکھنا چاہیے تھا کیونکہ ان کے بقول وہ محترمہ فاطمہ جناح کے قریب تھیں۔ ایک بنگالی ہونے کی حیثیت سے انہیں سقوطِ ڈھاکہ پر بھی لکھنا چاہیے تھا ، لیکن ان سب اہم موضوعات پر لکھنے سے انہوں نے گریز کیا۔ ان موضوعات پر نہ لکھنے کی وجہ سے، میری ناقص رائے میں، اس کتاب کی وہ اہمیت نہیں رہی جو ہو سکتی تھی۔

Related Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *