کلیاتِ عزیز حامد مدنی Kuliyat e Aziz Hamid Madni

فیس بک پر ایک صاحب ہیں، خورشید عبداللہ ان کا نام ہے۔ پڑھنے والوں پر ان کا احسان ہے کہ اردو ادب کے گراں قدر شعراء و ادباء کی نایاب ویڈیوز شیئر کرتے رہتے ہیں۔ ایسی ہی ایک ویڈیو انہوں نے پوسٹ کی جس میں احمد جاوید صاحب عزیز حامد مدنی کی ایک نظم اور ایک غزل کی شرح کر رہے ہیں۔ میں نے اس سے پہلے مدنی صاحب کے کچھ اشعار تو پڑھ رکھے تھے لیکن ان کے ادبی قد کاٹھ سے نابلد تھا۔ پھر یہ احمد جاوید صاحب کا خاصہ بھی ہے کہ جب شرح شروع کرتے ہیں تو اشعار کی وہ وہ گتھیاں سلجھاتے ہیں جو مجھ ایسے ایک عام قاری کے فہم و ادراک سے ماورا منازل کی ہوتی ہیں۔ بہرحال، یہ ویڈیو دیکھنے کے بعد مدنی صاحب کا پڑھنے کا اشتیاق بڑھا اور ایک لالچی قاری کی طرح میں اُن کی کتابوں کی تلاش میں لگ گیا لیکن شومئی قسمت کہ ان کی کتاب نہ ہی پی ڈی ایف اور نہ ہی ہارڈ کاپی میں دستیاب ہوئی۔ وصل میں درپیش اس رکاوٹ نے نشہِ شوق کو دو آتشہ کر دیا۔ ڈھونڈتے ڈھانڈتے ریختہ ڈاٹ کام پر مدنی صاحب کی کلیات کا ایک آن لائن ایڈیشن ملا لیکن اس وقت میں ریختہ سے کتب ڈائونلوڈ کرنے کا گُر نہیں جانتا تھا اور آن لائن کتاب پڑھنا بھی میرے لیے دشوار ہے، سو ریختہ پر موجود کتاب سے پبلشر کا نام پتہ معلوم کر کے ایک دوست کو دیا، اس کی محبت کہ اتنی بھاری بھر کم کتاب خرید کر سندھ سے مجھے تحفتاَ بھجوائی، اس زبردستی کے تحفہ سے زیادہ خرچ شاید اسے مجھ تک پہنچنے میں لگ گیا۔ کتاب مل گئی، اور جیسا کہ عموما دستورِ دنیا ہے، شیلف کی زینت بن گئی۔ میں نے اسے کئی دفعہ اٹھایا، ایک دو صفحات کی ورق گردانی کی مگر ہر بار مدنی صاحب کے مشکل پسند طرزِ کلام کی وجہ سے اسے بھاری پتھر سمجھ کر چوم کر رکھ دیا۔ خیر، بالآخر ایک دن نامِ خدا سے اسے پڑھنا شروع کیا تو ایک جہانِ حیرت کا سامنا ہوا۔ میرا نام احمد جاوید نہیں اور نہ ہی میں شعر کی اچھی سمجھ بوجھ رکھنے والا قاری ہوں۔ لیکن پھر بھی ایک عام قاری کی حیثیت سے مدنی صاحب کے ساتھ ملاقات کے مشاہدات حسب ذیل ہیں۔

مدنی صاحب ایک مشکل پسند شاعر ہیں۔ بہت دور کی کوڑی لاتے ہیں۔ عام مضامین سے احتراز کرتے ہیں اور ندرتِ خیال کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کی شاعری کے موضوعات جدید لیکن طرزِ کلام کلاسیکی ہے۔ کم و بیش تمام تر ہی نظمیں قیدِ بحور سے آزاد نہیں ہیں۔ ان کا کلام بیسویں صدی کے آدمی کا کلام ہے جو اپنے گرد و پیش میں برپا تبدیلیوں سے واقف ہے اور ان کے اثرات پر گہری نظر رکھتا ہے۔ یہ اس آدمی کا کلام ہے جو اپنے ہم عصروں کی قدامت پرستی و توہم پرستی پر نوحہ کناں ہے اور انہیں لحظہ بہ لحظہ بدلتے وقت کو سمجھنے اور نئی دنیا کے نئے اصول و ضوابط کو سیکھنے کی دعوت دیتا ہے۔ مدنی صاحب کا شکوہ اہلِ علم سے ہے جو شمعیں جلانے کی بجائے تاریکی کے پیامبر بنے ہوئے ہیں؛

کتنے خوابوں کی فضا ہے شکن آلود ابھی
کتنے اوہام کے اصنام ہیں معبود ابھی
کس قدر زیست کا پیغام ہے محدود ابھی
میتیں کتنے ارادوں کی مجھے روز ملیں
روحِ سقراط کی سوگند ارسطو کی قسم
درس گاہوں کی فضائوں میں اندھیرے وہ ملے
جن میں آزادیِ افکار کی کلیاں نہ کھلیں

اگر مجھ سے یہ پوچھا جائے کہ مدنی صاحب کے کلام کا سب سے بڑا موضوع کیا ہے تو میں کہوں گا کہ زمانے میں برپا تغیرات اور ان کے اثرات۔ تغیر مدنی صاحب کا پسندیدہ موضوع ہے۔ ایک خوبصورت نظم ‘میر باقر علی کی مجلس’ میں انہوں نے مغل بادشاہ کے ہاتھی کی داستان سنا کر ہمیں نئی دنیا کے طور طریقے ٹھکرانے والوں کا انجام بتایا ہے۔

منتخب کلام

Kashmakash

——–

اک حسیں خواب میں دنیا کا جنوں گم ہے ابھی
تم ہو اور شام و سحر ایک تبسم ہے ابھی

یہ تبسم کی سپر کام نہیں آ سکتی
راہ پر گردش_ ایام نہیں آ سکتی

———

تابشِ جسم میں کچھ انجمِ شب تاب لیے
بجلیاں خون میں ساکت لیے بےتاب لیے
اک کفِ پا میں کئی رقص کے گرداب لیے
کوئی محفل میں ابھی رقص کناں ملتا ہے
ایک صیادِ غمِ عمرِ رواں ملتا ہے
———

کتنے خوابوں کی فضا ہے شکن آلود ابھی
کتنے اوہام کے اصنام ہیں معبود ابھی
کس قدر زیست کا پیغام ہے محدود ابھی
میتیں کتنے ارادوں کی مجھے روز ملیں
روحِ سقراط کی سوگند ارسطو کی قسم
درس گاہوں کی فضائوں میں اندھیرے وہ ملے
جن میں آزادیِ افکار کی کلیاں نہ کھلیں
——-

آج افکار کے بت خانوں کے بجھتے ہیں چراغ
کچھ ضیاء اپنے تبسم کی عنایت کر دے
——

افق کی ڈوبتی خونیں کفن فضائوں میں
نگاہ سوز شراروں کا ایک مبہم رقص
فسردہ شمعوں کو آواز دے کے تیز ہُوا

نکل ہی آئے ہیں زنداں سے چند زندانی
ہزار یادوں کو ہے فرصتِ پرافشانی
وہ در کہ جن کی نگہباں تھی دل کی ویرانی
بڑھا کے ہاتھ، خموشی نے آج کھول دیے
——-

نورِ مہتاب و بوئے عنبر تک
مضمحل، سوگوار ہوتی ہے
گفتگو آج ہمنشینوں کی
دلِ نازک پہ بار ہوتی ہے
موسمِ گل کے خواب ختم ہوئے
خاکِ دل شعلہ بار ہوتی ہے
میرا دامن سلگ رہا ہے یہاں
خاک کا ڈھیر لگ رہا ہے یہاں

—–

راہ گزاروں پہ جرم و عصیاں کی
بے زبانی پکارتی ہے ابھی
وہ جوا کھیلتا ہے وقت کا ہاتھ
زندگی روز ہارتی ہے ابھی
کس جواری کی اب کے ہے باری
اے جھلکتے سرابِ غم خواری
—–

ہر شبستاں میں اک اداسی ہے
خواب بوجھل ہیں روح پیاسی ہے
جام و مینا میں سسکیاں غلطاں
ساز و بربط سے اٹھ رہا ہے دھواں

راکھ کا ڈھیر آتشِ جذبات
آگہی مدفنِ جہانِ حیات
——

بس ایک بابِ تمنا جو تجھ پہ بند ہوا
وہ یاد جس سے عبارت ہے زندگی تیری
وجود اس کا مری جان، زہر خند ہوا
——

آج ہر خواب سے ہے دست و گریباں تعبیر
دل کہ اک دشمنِ آدابِ ستم ہے، چپ ہے
——

خارزاروں کی فضائوں میں سکوں کیا ملتا
اک پنہ ڈھونڈھی تھی،دنیا کے جنوں زاروں میں
پا گئے تھے مرے برگشتہ خیال
اک حسیں جسم کے گہوارے میں
ایک مسکن کہ جہاں غم کا نشاں بھی نہ ملے
اک مدت سے مگر نیم عیاں بھی نہ ملے
وہ شرارے جو ستاروں پہ ہنسا کرتے تھے
—–

عشق اجڑی ہوئی بستی کا چراغِ مردہ
حسن ہارے ہوئے شاطر کی کوئی آخری چال
اس میں ہر ہاتھ کی خامی نے پناہیں ڈھونڈیں
کس کے ہاتھوں نے بنا ہے یہ شب و روز کا جال؟

کس کے ہاتھوں نے بنا ہے یہ شب و روز کا جال؟
اس کے پردوں میں ہیں رازِ غمِ انساں کیا کیا
سانس الجھی ہے کہ طاری ہے ابھی حبسِ دوام
یہ مہ و سال سے لپٹے ہوئے قحط و آلام
اف یہ دنیا یہ کفن چور خدائوں کا نظام

ہم جدھر جائیں اک آسیب صدا دیتا ہے
اک نہ اک حلقہِ زنجیر بڑھا دیتا ہے

کج کلاہی پہ ہنسیں بندہ پناہی پہ ہنسیں
جرم و عصیاں کی اس آوارہ نگاہی پہ ہنسیں
صبح تک رات کی پر ہول سیاہی پہ ہنسیں

اور اک زندہ حقیقت کے پرستار بنیں
زندگی جرم ابھی تک ہے خطاکار بنیں

اور اک زہر کا جام، ایک صلیب اور سہی
آج سقراط و مسیحا کا نصیب اور سہی
—-

جنبشِ نبضِ جنوں کچھ آرزو انگیز ہے
وہ ہوا جو شوق کا رخ ہی بدل دے، تیز ہے
—-

نوا کو پردہ ہائے ساز میں خاموش رکھا ہے
ابھی تک شعلہِ آواز کو روپوش رکھا ہے

وہی ہیں حاشیے پر شہر کے دو چار قندیلیں
اندھیرے کے فسوں سے نقش بر دیوار قندیلیں
شبِ تاریک کے بستر پہ یہ بیمار قندیلیں

پتنگوں کی جگر سوزی کو جو انجام دیتی ہیں
لگن کی خاک سے لیکن خراجِ نور لیتی ہیں
فضا کی رو میں چہرے گمشدہ یاروں کے کھلتے ہیں
صبا چلتی ہے کتنے پھول دیواروں کے کھلتے ہیں
سیہ محضر میں اب تک رنگ رخساروں کے کھلتے ہیں

جو تیرے جسم کے اسلوب سے ہم اخذ کرتے ہیں
خیالوں سے وہ سایے صبح ہونے تک گزرتے ہیں
ترے ہجراں نصیبوں پر گراں یہ رات بھی کب ہے
چمک اٹھتی ہیں کلیاں درد کی وہ نالہِ شب ہے
نہ پوچھ اے دوست کس منزل پہ دل کا قافلہ اب ہے

سحر کی لاگ، چشمِ خوں فشاں تھی، نارسائی تک
پہنچنے ہی کو ہے دستِ جنوں، دستِ حنائی تک
——

خواب کجلا گئے جوانی کے
چھائوں غم کی دراز ہونے لگی
گردشِ وقت، شعلہِ دل کو
راکھ کے ڈھیر میں سمونے لگی

شوق کے مہر و ماہ زرد ہوئے
اک جہنم کی آگ تھی جن میں
وہ بھی ذرات دل کے سرد ہوئے
اک مسافر تھا کاروانِ شباب
کھو گیا دشت کے بگولوں میں
برق کی جست و خیز جذب ہوئی
منتشر خواب کے ہیولوں میں

سر سے سودائے سر گیا اے دوست
دامنِ دل کو جیسے چھوتا ہوا
کوئی جھونکا گزر گیا اے دوست
اس زیاں خانہِ محبت میں
معتبر اک نفس نہیں ہوتا
مرگِ موسم کا اک تسلسل ہے
وقت پر کوئی بس نہیں ہوتا

خستگی حاصلِ سفر ہے آج
چارہ سازی کے اور ہیں آداب
درد کی دھار تیز تر ہے آج
بوئے گل چھیڑتی ہے قصہِ دوست
آنسوئوں سے مہک سی آتی ہے
طنز کرتے ہیں بند دروازے
گرد چوکھٹ کی مسکراتی ہے

اب نہ تُو ہے نہ تیرا داماں ہے
رائگاں ہو گئی متاعِ وفا
زندگی کو تلاشِ عنواں ہے
سانس اب خار و خس سے الجھی ہے
دل الجھتا ہے نکتہ چینوں سے
آدمی کو پرکھ سکے نہ کبھی
دیکھنے والے خوربینوں سے

کس قدر دردناک منظر ہے
غم گساروں نے راستے بدلے
سنگ_طفلاں ہے اور مرا سر ہے
——

دور تک اک محاذِ خاموشی
تیر جوڑے ہوئے غنیموں کی
چار سو خندکوں میں روپوشی

درد کے سیلِ بےپناہ میں ہے
ہر جری ایک رزم گاہ میں ہے

ایک ذوقِ طلب سے جلتا ہے
سینہِ زندگی کا زخم ابھی
سببِ بےسبب سے جلتا ہے

قصہِ زخم و اندمال نہ پوچھ
جنگ جاری ہے ہم خیال نہ پوچھ
——-

اےخبرگیرِ ناقہِ لیلی’
تیزچل راستہ بدل کےذرا
کروٹیں لےرہےہیں لیل و نہار
رخِ صحرا پہ آندھیاں ہیں ہزار
اک جفائے سموم کےمارے
بجھ گئے آسمان کےتارے
ریگِ صحرا کی ضرب ہےکاری
جل گئی پیاس سےزباں ساری
سارباں،غم گسار،محرمِ راز
سخت کافر ہوا کےہیں انداز
روئےلیلی’پہ گرد آنےلگی
راہ کےموڑ پہ سنبھل کےذرا
——–

کہہ سکتےتو احوالِ جہاں تم سےہی کہتے
تم سےتو کسی بات کا پردا بھی نہیں تھا
اب حسن پہ خود اس کا تصور بھی گراں ہے
پہلےتو گراں خوابِ زلیخا بھی نہیں تھا
پہلےمری وحشت کےیہ انداز بھی کم تھے
پہلےمجھےاندازہِ صحرا بھی نہیں تھا
اچھا تو مروت ہی ترا بوسہ لب ہے
اچھا یہ کوئی دل کا تقاضا بھی نہیں تھا
سنبھل نہ پائےتو تقصیرِ واقعی بھی نہیں
ہر اک پہ سہل آدابِ مےکشی بھی نہیں
ادھر ادھر سےحدیثِ غمِ جہاں کہہ کر
تری ہی بات کی اور تیری بات کی بھی نہیں
بکھر کےحسنِ جہاں کا نظام کیا ہو گا
یہ برہمی تری زلفوں کی برہمی بھی نہیں
شکستِ ساغر و مینا کو خاک روتا میں
گراں ابھی مرےدل کی شکستگی بھی نہیں
ہزار شکر کہ بےخواب ہے سحر کےلیے
وہ چشمِ ناز کہ جو جاگتوں میں تھی بھی نہیں
یہ زندگی بھی تلون مزاج ہے اے دوست
تمام ترک_وفا تیری بےرخی بھی نہیں
تعلقات_زمانہ کی اک کڑی کے سوا
کچھ اور یہ ترا پیمانِ دوستی بھی نہیں
————–

کیا ہوئے باد_بیاباں کے پکارے ہوئے لوگ
چاک در چاک گریباں کو سنوارے ہوئے لوگ

یہ بھی کیا رنگ ہے اے نرگسِ خواب آلودہ
شہر میں سب ترے جادو کے ہیں مارے ہوئے لوگ

خوں ہوا دل کہ پشیمانِ صداقت ہے وفا
خوش ہوا جی کہ چلو آج تمہارے ہوئے لوگ
خطِ معزولیِ اربابِ ستم کھینچ گئے
یہ رسن بستہ صلیبوں سے اتارے ہوئے لوگ

اے حریفانِ غمِ گردشِ ایام، آئو
ایک ہی غول کے ہم لوگ ہیں ہارے ہوئے لوگ

ان کو اے نرم ہوا، خوابِ جنوں سے نہ جگا
رات مےخانے کی آئے ہیں گزارے ہوئے لوگ
——–

دشنہِ تیز میں جس زخم کی گہرائی ہے
میرے سینے میں وہ پہلے سے اتر آئی ہے

کس سے کہیے کہ عبادت گہِ اربابِ نظر
سنگِ طفلاں ہے کہ زخمِ سرِ سودائی ہے

اس شبِ تار میں مستوں کا سبو بھی ہے چراغ
رات اک شعلہِ آفاق چرا لائی ہے
——-

ہزار وقت کے پرتو نظر میں ہوتے ہیں
ہم ایک حلقہِ وحشت اثر میں ہوتے ہیں

کھلا یہ دل پہ کہ تعمیرِ بام و در ہے فریب
بگولے قالبِ دیوار و در میں ہوتے ہیں

طلسمِ خوابِ زلیخا و دامِ بردہ فروش
ہزار طرح کے قصے سفر میں ہوتے ہیں
——-

جو بت کدے میں تھے، وہ صاحبانِ کشف و کمال
حَرم میں آئے تو کشف و کمال سے بھی گئے

غمِ حیات و غمِ دوست کی کشاکش میں
ہم ایسے لوگ تو رنج و ملال سے بھی گئے

ہم ایسے کون تھے لیکن قفس کی یہ دنیا
کہ پر شکستوں میں اپنی مثال سے بھی گئے

وہ لوگ جن سے تری بزم میں تھے ہنگامے
گئے تو کیا تری بزمِ خیال سے بھی گئے

چراغِ بزم ابھی جانِ انجمن نہ بجھا
کہ یہ بجھا تو ترے خط و خال سے بھی گئے
——

یہ شاخِ گل ہے آئینِ نمو سے آپ واقف ہے
سمجھتی ہے کہ موسم کے ستم ہوتے ہی رہتے ہیں

مرا چاکِ گریباں چاکِ دل سے ملنے والا ہے
مگر یہ حادثے بھی بیش و کم ہوتے ہی رہتے ہیں
——

ہزار اس کے تغافل کی داستانیں ہیں
مگر یہ بات کہ وہ بھی ہے آدمی آخر

وہی ہیں گیسوئے جاناں کے خم وہی ہم ہیں
وہی ہے کش مکشِ ربطِ باہمی آخر
——

اب اس قدر نہ بڑھا دستِ چارہ ساز کی بات
رکھی تھی درد نے بنیادِ کاوشِ درماں

مسافروں کو فقط سایہِ درخت ملا
ہزار بابِ کرم صد ہزار پرسشِ جاں

ترے نثار رویے نہیں بدلتے ہیں
ہزار کوس کی منزل ہو درمیاں مری جاں
——

یہ مےکدہ ہے اس میں کوئی قحطِ مے نہیں
چلتے رہیں گے چند سبو دم کیے ہوئے

کل شب سے کچھ خیال مجھے بت کدے کا ہے
سنتا ہوں اک چراغ جلا، رت جگے ہوئے

میں بھی تو ایک صبح کا تارہ ہوں تیز رو
آپ اپنی روشنی میں اکیلے چلے ہوئے
——

جفا بہ سلسلہِ صد ہزار عنواں ہے
قمیصِ یوسفِ کنعاں کھلے تو بات چلے

طلسمِ شیوہِ یاراں کھلا تو کچھ نہ ہوا
کبھی یہ حبسِ دل و جاں کھلے تو بات چلے

سفر ہے اور ستاروں کا اک بیاباں ہے
مسافروں سے بیاباں کھلے تو بات چلے
——

یہ فضائے ساز و مطرب یہ ہجومِ تاجداراں
چلو آئو ہم بھی نکلیں __ بہ لباسِ سوگواراں

بہ فسونِ روئے لیلیٰ بہ عذابِ جانِ مجنوں
وہی حسنِ دشت و در ہے بہ طوافِ جاں نثاراں

غمِ کارواں کا آخر کوئی رخ نہ اس سے چھوٹا
وہ حدیث کہہ گئی ہے یہ ہوائے رہ گزاراں

بہ خیالِ دوست آخر کوئی خوابِ ہم کناری
کوئی خوابِ ہم کناری شبِ خوابِ بےقراراں

سرِ کشتِ غیر کیا کیا یہ گھٹا برس رہی ہے
کوئی ہم سے آ کے پوچھے اثرِ دعائے باراں

وہ شکستِ خوابِ محفل وہ ہوا کے چار جھونکے
لگی دل پہ تیر بن کر دمِ صبحِ یادِ یاراں
——

میں ترے شہر کے گردوں سے الجھتا ہی رہا
ایک رَم خوردہ ستارے کی ضیا کے مانند

چارہ گر عاجز و تقریبِ عیادت موقوف
درد نے کام کیا آج دوا کے مانند

کیا کہیں وہم پرستی میں بھی یہ رنگ آتا ہے
بت کدے میں بھی کوئی ہو گا خدا کے مانند

دیکھ اس راہ میں اے زلفِ گرہ گیر نگار
اور بھی شوخ ہوائیں ہیں صبا کے مانند
——

جی ہے بہت اداس طبیعت حزیں بہت
ساقی کوئی پیالۂ مے، آتشیں بہت

دو گز زمیں فریبِ وطن کےلیے ملی
ویسے تو آسماں بھی بہت ہیں زمیں بہت

ایسی ہوا میں گھر سے نکلنے کی جا نہ تھی
ورنہ تمہاری بات کا آتا یقیں بہت
——

کل کوئی تذکرہ زندہ دلاں نکلا تھا
کل بہت یاد حریفانِ کہن آئی ہے

سرکشی کا بھی اک انداز ہے اے پائے جنوں
اب مرے پاؤں میں زنجیرِ وطن آئی ہے
——

ہزار حیف کہ اب مے کشوں کو یاد نہیں
روایتیں جو عبارت تھیں جام و مینا سے

انہیں بھی گردشِ پرکارِ آرزو جانو
وہ دائرے جو کھنچے میری لغزشِ پا سے
——

زندگی ہے دام اندر دام دل کی کیا بساط
اک گرفتارِ بلا کو لاکھ سمجھایا کرو

ہم سفر برحق مگر اِک جائے رشکِ غیر ہے
آدمی کم بخت کوئی معتبر لایا کرو
——

وہی ایک سود و زیاں کا غم جو مزاجِ عشق سے دور تھا
وہ تری زباں پہ بھی آ گیا تو لگن ہی جی کی بکھر گئی

وہ زبانِ سرمدِ بے دلیل وہ خراشِ خنجرِ حکمراں
کوئی امتحانِ دلیل کیا کہ دلوں میں بات اتر گئی
——

نظر ہے سلسلۂ خوابِ صد ہزار اوراق
کہاں کہاں سے گزرنا پڑا ہے کیا کہیے

اسی کی راہ گزر پیچ پیچ آتی ہے
کہیں سے قصۂ عمرِ گریز پا کہیے
——

سب پیچ و تابِ شوق کے طوفان تھم گئے
وہ زلف کھل گئی تو ہواؤں کے خم گئے

وحشت سی اک لالۂ خونیں کفن سے تھی
اب کے بہار آئی تو سمجھو کہ ہم گئے

ایسی کوئی خبر تو نہیں ساکنانِ شہر
دریا محبتوں کے جو بہتے تھے، تھم گئے
——

نہ آیا کچھ، مگر ہم کشتگانِ شوق کو آیا
ہوا کی زد میں آخر بے سِپر رکھنا خیالوں کو

کھڑی ہے تاج پہنے شہر میں خارِ مغیلاں کا
جوابِ تازہ دینے زندگی کہنہ سوالوں کو
——

احوال بھی پوچھا تو حریفانِ جنوں نے
اب داد طلب وحشتِ جاں ہے کہ نہیں ہے

ویسے تو محبت میں بھی جی کا زیاں ہے
بے دورِ محبت بھی زیاں ہے کہ نہیں ہے
——

اس فضا میں ہیں دریدہ بادباں جن کو نصیب
ان سفینوں کا بھی کوئی ناخدا ہو جائے گا
——

شاید کہ محرمانہ اٹھے تری نگاہ
ویسے تری نگاہ دل آویز ابھی سے ہے
——

جس کیاری میں پھول کھلے تھے ناگ پھنی سی لگتی ہے
موسمِ گل نے جاتے جاتے دیکھا کیا دشواری کی

ایک طرف رُوئے جانا تھا جلتی آنکھ میں ایک طرف
سیاروں کی راکھ میں ملتی رات تھی اک بیداری کی
——

سلگ رہی ہے برابر دلوں میں آتشِ شوق
کوئی جو سکۂ مقلوب ہو پگھل جائے
یہ زندگی کا مسِ خام کیمیا نہ بنے
دمِ جنوں سے ذرا ماہیت بدل جائے
——

سینکڑوں پیکار کے آئیں تھے لیکن ہر مہم
ایک خوابِ خود فراموشی سے سر ہوتی گئی

وہ شکستِ دل جو تھی تہذیبِ جاں کی روشنی
ہم جدھر نکلے چراغِ رہ گزر ہوتی گئی

صحبتِ یاراں سلامت نامِ ساقی زندہ باد
زندگی کی شب بہ اندازِ سحر ہوتی گئی
——

حسابِ مے ہے حریفانِ بادہ پیما سے
اٹھے گا اب کے رگِ تاک سے دھواں کیا کیا

وفا کی رات کوئی اتفاق تھی لیکن
پکارتے ہیں مسافر کو سائباں کیا کیا

ہزار شمعیں جلانے ہوئے کھڑی ہے خرد
مگر فضا میں اندھیرا ہے درمیاں کیا کیا
——

یک دگر ہو کے بکھرتا ہے سخن کیا کہیے
قصۂ یادِ حریفانِ کہن کیا کہیے

ہر تغیر ہے کسی قافلۂ دور کی گرد
پردہ دارِ غمِ منزل ہے وطن کیا کہیے

ایک دو شب سے مرا خوابِ جنوں ایسا ہے
ٹوٹ جاتی ہے کوئی دل میں کرن کیا کہیے
——

وہی جو محرمِ رازِ وفا بھی تھے ہمدم
انہیں پہ زندگیِ عشق کچھ حرام ہوئی

فضا ہی گزرے ہوئے کارواں کی یاد میں ہے
مسافرو! یہ کہاں آ کے آج شام ہوئی
——

بگولا ہو کہ محمل وحشتِ دل کم نہیں ہوتی
کہاں پہنچا دیا اے دوست اک تیرے توسل نے

ہوا ایسی نہ وقت ایسا مگر کوئی تغیر ہے
کہ آپ اپنی جگہ لَو تیز کر دی شعلۂ گُل نے
——

دمِ سحر نہ کیا وا لبِ سخن ہم نے
بجھا کے دل میں رکھی شمعِ انجمن ہم نے

نوا کہ جرم و سزا آپ خود تھی اپنے لیے
رگِ گلو میں رکھا حلقۂ رسن ہم نے

زمینِ حشر چھپا کر رکھی ہے تیرے لیے
جو بےدیار تھی وہ نعشِ بے کفن ہم نے
——

ہزار نخلِ گماں ہیں ابھی نمو آثار
ازل کے دن سے ہے کشتِ یقیں دروغ دروغ

خود اپنی مستیِ پنہاں سے ہاتھ آتا ہے
شکارِ نافۂ آہوئے چیں دروغ دروغ

صدائیں دیں تجھے خلقِ خدا نے مقتل سے
تری گلی میں خبر تک نہیں دروغ دروغ
——

اک خیالِ زلفِ جاناں اک ہوائے پیچ پیچ
اک نہ اک زنجیرِ سر رکھتی ہے دیوانہ مجھے

اس کے پیکر کی جھلک راہوں پہ تھی نزدیک و دور
کل غروبِ مہر تھا اک آئینہ خانہ مجھے

شہر جن کے نام سے زندہ تھا وہ سب اُٹھ گئے
اک اشارے سے طلب کرتا ہے ویرانہ مجھے
——

کوئی وہ شک کا اندھیرا کہ جس کی جست کے بعد
چمک سی سلسلہ ہائے یقیں میں ہوتی ہے

غنودہ دینِ بزرگاں میں اب وہ لَو نہ رہی
جو عہدِ نو کے غمِ آتشیں میں ہوتی ہے

——-
تلخ تر اور ذرا بادۂ صافی ساقی
میرے سینے میں خس و خار ہیں کافی ساقی

اک کفِ جو ہے متاعِ خرد و سکۂ ہوش
جامِ مے دے کہ یہ عالم ہے اضافی ساقی

——-
وفا کے باب میں یہ شک ابھی غنیمت ہے
کہ بدگماں بھی ہوئے تو ہمیں ہوئے ہوں گے

ترے سوا بھی تو عنوانِ قصہ ہائے وفا
ہزار ہا مژہ و آستیں ہوئے ہوں گے

——-
وفورِ سینہ شگافیِ سنگ سے کیا کیا
زمینِ صد گہرِ آب دار آتی ہے

——-
کچھ اب کے کفرِ خداداد کی وہ شورش ہے
اُسی گلی میں چلا ہے جو صاحبِ دیں ہے

——-
حساب ہائے غمِ چشم و گوش نکلے ہیں
ہزار طرح کے قصہ فروش نکلے ہیں

جنوں کے بعد یہ خوابِ جنوں نہ ہو یا رب
یہ مرحلے جو بہ عنوانِ ہوش نکلے ہیں

کبھی تھی ظلمتِ شامِ وطن فزوں جن سے
چراغ لے کے وہ آئینہ پوش نکلے ہیں

زمیں پہ کب سے ترے نام کے ہیں ہنگامے
کہاں کہاں کے پیامِ سروش نکلے ہیں
اُسی گلی میں سنا ہے کہ شورِ محشر ہے
اُسی گلی سے تو ہم بھی خموش نکلے ہیں

——-
آخر مجھے جنوں بھی نہیں ہمرہانِ خام
کیوں ناخدا سے ہو جو شکایت خدا سے تھی

——-
نیتِ عاشقاں کی خیر ہم نفسو ہوا ہے تیز
ہم سے نہ جل سکے چراغ کوئی دِیا تمہی جلاؤ

——-
شمس و قمر کی خاکستر میں روح تھی اک آرائش کی
دنیا بیچ میں جا کے کھڑی ہے اور لباس بدلتی ہے

مطربِ خوش آواز ہوئی ہے زخم آور آہنگِ بلا
وہ جو مرے حصے کی لَے تھی، تیرے گلے میں ڈھلتی ہے

——-
جی دارو، دوزخ کی ہوا میں کس کی محبت جلتی ہے
تیز دہکتی آگ زمیں پر خندق خندق چلتی ہے

رات کی رات ٹھہرنے والے وقتِ خوش کی بات سمجھ
صبح تو اِک دروازۂ غم پر دنیا آنکھیں مَلتی ہے

قندیلِ راہب کا جادہ آسیبی تاروں کے موڑ
کاٹ کے وقت کی اک پرچھائیں خواب نما سی چلتی ہے

——-
ناقوس کوئی بحر کی تہہ میں ہے نعرہ زن
ساحل کی یہ صدا تو کوئی ناخدا نہیں

میری وفا برائے وفا اتفاق تھی
میرے سوا کسی پہ یہ افسوں چلا نہیں

——-
اے شہرِ خرد کی تازہ ہوا وحشت کا کوئی انعام چلے
کچھ حرفِ ملامت اور چلیں کچھ وردِ زباں دشنام چلے
اک گرمیِ جستِ فراست ہے اک وحشتِ پائے محبت ہے
جس پاؤں کی طاقت جی میں ہو وہ ساتھ مرے دو گام چلے
ایسےغمِ طوفاں میں اکثر اک ضد کو اک ضد کاٹ گئی
شاید کہ نہنگ آثار ہوا کچھ اب کے حریفِ دام چلے
تجھ کو تو ہواؤں کی زد میں کچھ رات گئے تک جلنا ہے
اک ہم کہ ترے جلتےجلتے بستی سے چراغِ شام چلے
جو نقشِ کتابِ شاطر ہےاس چال سے آخر کیا چلیے
کھیلے تو ذرا دشوار چلےہارے بھی تو کچھ دن نام چلے
کیا نام بتائیں ہم اس کا،ناموں کی بہت رسوائی ہے
کچھ اب کے بہارِ تازہ نفس اک دورِ وفا بے نام چلے
لکھی ہوئی جو تباہی ہے اس سے کیا جاتا
ہوا کے رخ پہ مگر کچھ تو ناخدا جاتا

کشیدِ مے پہ ہے کیسا فساد حاکمِ شہر
تری گرہ سے ہے کیا بندہ ٔ خدا جاتا

خدا کا شکر ہے تو نے بھی مان لی مری بات
رفو پرانے دکھوں پر نہیں کیا جاتا
مثالِ برق جو خوابِ جنوں میں چمکی تھی
اس آگہی کے تعاقب میں ہوں چلا جاتا

عجب تماشہ ٔ صحرا ہے چاکِ محمل پر
غبارِ قیس ہے پردہ کوئی گرا جاتا

جو آگ بجھ نہ سکے گی اسی کے دامن میں
ہر ایک شہر ہے ایجاد کا بسا جاتا

——-
قہر میں خود یہ صدی ہے شعلہء تادیب کی
Image
Image
ایک طویل نظم ‘روحِ عصر’ سے اقتباس

یہ زمیں کے بدن کی جوت، یہ آگ
سر سے پا تک رچا ہوا اک راگ

یہ صنم خانۂ مہ و پرویں!
یہ گھٹاؤں کے گیسوئے مشکیں

ساز و دف ساقی و سبو کا خیال
گنبد و طاق و کاخ و کو کا خیال

تیرے دم سے ترے قیام سے ہے
سب عبارت یہ تیرے نام سے ہے

——-
وہ اک حدیثِ نظر جو طلسمِ صحرا تھی
بیاں کرے بھی تو موجِ سراب کس سے کرے

فقیہہِ شہر کی باتوں سے چپ ہوا مدنی
تمہیں بتاؤ، سوال و جواب کس سے کرے

——-
نو دست زخمہ ور نے مٹا دی حدِ کمال
پردے جلے تمام دھواں ساز سے اٹھا

جیسے دعائے نیم شبی کا سرود ہو
اک شور مےکدے میں اس انداز سے اٹھا

کانٹے زمیں سے اور زیادہ ہوئے طلوع
اک مسئلہ بہار کے آغاز سے اٹھا

میں کیا کہ میرے بعد بھی جو لوگ واں گئے
کوئی نہ اس کی انجمنِ ناز سے اٹھا

عزیز حامد
خزاں میں بیٹھ گئی لے کے مجھ کو وحشتِ دل
بہار تھی تو جنوں پہ عبور تھا پہلے

ہزار ہاتھوں سے تجھ کو سنبھالتا تھا جنوں
ترا وہ حال دلِ نا صبور تھا پہلے

گلہ ہے ایک تلون مزاج انساں کا
کوئی پری نہ کوئی رشکِ حور تھا پہلے
تجھے اشارہ ٔ غیبی ہوا ہے خوابِ وصال
یہ آئینہ تری خلوت سے دور تھا پہلے

بجھا کے مشعلِ دل بیٹھ کیوں گئے یارو
یہ ترکِ عشق بھی کس کا قصور تھا پہلے

——-
رمِ سیارگاں سے شعلہء خورشید کی رو تک
ہزاروں دائروں میں جنبشِ پائے تغیر ہے

یہ دنیا اضطرابِ عشق کو زنجیر کیا کرتی
وہ روحِ عصر خود ہے چشمِ بینائے تغیر ہے

——-
بادہ فروش کی دکاں نام تھا جس دیار کا
رنجِ سبو اٹھا گئی سلسلہ وہ خمار کا

جادہ طرازِ نو بہار آئیں گی منزلیں کڑی
دامِ رسن کی راہ بھی دشت بھی نخلِ دار کا

نرم ہوا سے جل اٹھیں نبضِ جنوں میں شمعیں سی
اور اگر برس گیا ابر کہیں بہار کا

——-
شہر کے آسیب بھی تھے روحِ ویرانہ بھی تھی
شب کہ اک خوابِ بیاباں سے جنوں خانہ بھی تھی

شمع بر کف نردبانِ تیرہ تک آتی ہوئی
اک پری بے حد جنونی بھی تھی فرزانہ بھی تھی

——-
تم نہ نکلو کہ ابھی شہر کی شمعیں گُل ہیں
روحِ شب کو ہے کسی گھر کا پتہ بھول گیا

خیر اس بات پہ لازم ہی سہی سجدہ ٔ سہو
ہم نہ بھولے تھے مگر ہم کو خدا بھول گیا

دل وہ کافر ہے کہ خود دیکھ کے سایہ اپنا
تشنگی ساری، سرِ آبِ بقا بھول گیا

——-
کس رنگ کی یا رب شبِ آسیب زدہ تھی
اک برق کا ٹکڑا جو عزادار ہوا ہے

لگتے ہیں کلاہوں میں یہ مجنونِ ستم کے
کیوں خارِ مغیلاں کا خریدار ہوا ہے

——-
کبھی اک لَو سے ششدر ہے کبھی اک ضو سے حیراں ہے
زمیں کس انکشافِ نار سے یا رب پگھلتی ہے

روایت کی قناتیں جس ہوا میں جلنی والی ہیں
سوادِ ایشیا میں وہ ہوا اب تیز چلتی ہے

——-
دلِ پُرخوں کی کوئی داستاں کیا
مگر ناوک فگن ایسے ہدف کا

اٹھا کشکولِ درویشاں سے آخر
اجالا سا چراغِ لاتخف کا

——-
دنیا تھی کہ خود اپنے ہی اوصاف کی ضد تھی
کس آگ کے باطن میں سمندر نہ ہوا تھا

سیارہ نفس شب کے بکھر جانے کا عالم
آشفتگیِ دل کے برابر نہ ہوا تھا

——-
بادباں چاک، ستارہ سرِ افلاک زبوں
اب سفینے کا خدا خود ہے نگہباں چلیے

مہر و مہ عرصۂ شطرنج میں سرگرداں ہیں
نقشِ شاطر ہے عجب کیا کسی عنواں چلیے

راس کم آتا ہے ہیرے کی طرح ان کا اثر
سانپ کا من ہے خرد بیچ کے ارزاں چلیے

——-
بگولے نام لے کر جن کا کل صحرا میں اٹھتے تھے
وہ سارے کارواں تو اے جنوں رخصت ہوئے کب کے

——-
مزاجِ شک کو ہی اہلِ یقیں نہیں سمجھے
دماغِ کفر سے کیا کیا حقیقتیں نکلیں

——-
ایک دو نام تو ایسے درِ زنداں میں ملے
سر پٹکتی ہوئی گزری ہے بیاباں کی ہوا

——-
سرشتِ خاک ہے تخلیقِ بسترِ اضداد
بہم ہے عصمت و عصیاں کہو کہ نیند آئے

رفوگرانِ جنوں کیا دلیلِ سوزن و تار
حدیثِ چاکِ گریباں کہو کہ نیند آئے

وفا کی قسطِ پریشاں ہے یہ اڑی ہوئی نیند
اک اور قسطِ پریشاں کہو کہ نیند آئے

خرابِ بوسۂ جاناں ہلاکِ جادوئے یار
مجھے کہا ہے ہاں کہو کہ نیند آئے
نشانِ جادۂ پُر خوں مرے صلے کا بھی تھا
چراغ دشتِ بلا میں وہ قافلے کا بھی تھا

——-
وہ قافلے کہ جو اجراسِ نو کے محرم تھے
خود اپنے ثقلِ سماعت کے اب شکار سے ہیں

——-
تعبیرِ جنوں کیا تھی غمِ سرِ نہاں کیا
سب خاک ہوئے آگ کی لَو کیا تھی دھواں کیا

کیا نرم ہوا تھی جگرِ سنگ میں اتری
اُن نرم مزاجوں کا کریں تم سے بیاں کیا

کچھ سیکھ لیا ٹوٹے ہوئے دل سے خرد نے
اس ظرفِ شکستہ نے بھی پائی تھی زباں کیا

——-
دہخدا صنعت کے تازہ رخ کا سودائی ہوا
روز و شب نرخِ گراں میں ایک نادیدہ سا ہاتھ
کس ہنر سے کاربندِ عالم آرائی ہوا
ہم وہ اندھے ہیں کہ آئینے سے شرماتے نہیں
انجم و خورشید کی تشکیک کے شب خون میں
اپنی ڈیوڑھی پر تغیّر کی ہوا پاتے نہیں

——-
کوئی مارِ خفتہ نفس لیے کوئی خارِ دشنہ ادا لیے
کوئی یہ بتاؤ کہ زندگی گلِ سر سبد میں ہے کیا لیے

نہیں تار و پوئے لباس سے ہے حسابِ آب و ہوا دیا
نہ کہیں سے سازِ کفن لیا نہ کسی سے تارِ قبا لیے

——-
داستاں گو! یہ حدیثِ غمِ دنیا کب تک
اج کی رات تو رودادِ محبت کوئی

تنگیِ دل کےلیے قرب کے ہنگاموں سے
زندگی ڈھونڈ لیا کرتی ہے وسعت کوئی

آئنہ ہو کہ نگاہ اے قدِ بالائے نگار
سامنے لائی تعلق کی ضرورت کوئی

——-
بیرونِ در ہواؤں سے شعلہ نفس گئے
گہوارۂ زمیں سے مثالِ جرس گئے

رکھتی تھی خاکِ تیرہ پہ مرہم شعاعِ مہر
لیکن وہ زخم تھے کہ ہزاروں برس گئے

——-
صاحبو، تم اک غنودہ پُل پہ ہو بیٹھے ہوئے
وقت کا دریا کبھی تھمتا نہیں بہتا ہوا

——-
خبر کے دور میں سرِ نہاں کی فکر میں ہوں
ہوا کہاں کی ہے اور میں کہاں کی فکر میں ہوں

بگاڑ دیں نہ اسے راویانِ تازہ نفس
حکایتِ مژۂ خوں فشاں کی فکر میں ہوں

بگڑ کے مجھ سے کہیں خود ہی لَو نہ دے اٹھے
میں اپنی شورشِ نبضِ تپاں کی فکر میں ہوں

——-
زنجیر کیے شہر میں لاتے ہو مجھے کیوں
اس قحطِ فراست میں بٹھاتے ہو مجھے کیوں

میں نے جو لکھی ہے وہ عبارت ہے جنوں کی
مٹتی نہیں تختی سے، مٹاتے ہو مجھے کیوں

کچھ لوگ تھے دیوار میں چنوائے گئے تھے
تم نے انھیں دیکھا ہے جتاتے ہو مجھے کیوں

——-
اِک جنوں خانے میں خود کو ڈھونڈتا ہے آدمی
خود طوافی میں بھی خود سے سینکڑوں فرسنگ ہے

طوقِ آہن سے گلوئے عشق میں تارِ حریر
شاخِ گل دستِ شقی میں ہو تو چوبِ سنگ ہے

آگ کو گلزار کر دے اس دعا کا وقت ہے
ورنہ خوئے آدمیت آدمی پر ننگ یے

——-
ایک مرکز پر ضدیں یکجا ہیں اور گردش میں ہیں
یہ زمانے کا تغیر عالمِ نیرنگ ہے

——-
کل چمک سے جن کی لرزاں تھا کفِ گوہر فروش
خاک کی تہ میں وہی لعل و گہر آتے رہے

پھول سے کھلتے رہے کیا کیا جنوں کی آنکھ میں
ریزہ ریزہ خواب با مژگانِ تر آتے رہے

وقت کی تازہ رخی کی رَو میں آخر روئے یار
تیرے افسانے بہ عنوانِ دگر آتے رہے

——-
اجالا ہے مگر دل کا اندھیرا دور کر دے گا
چراغِ شہر سے ایسا شگوں ملنے نہیں پاتا

——-
زندگانی لاکھ ہو، کاسہ بدست اک احتیاج
تاجری کے ماہِ نخشب سازشوں کی اوٹ سے
اپنی تابانی کے منصوبوں کا لیتے ہیں خراج
ناخنوں سے پھاڑتا ہےخشکیوں کو قحطِ آب
قلتِ خوراک سے آشفتہ مُو ہیں بستیاں
محوِ خود آرائی ہے تقسیمِ زر کا اضطراب
خامکاری کو سکھاتی ہے ہوا چالاکیاں
چور بازاروں سے لائی منطقِ بےنام سے
جھانکتی ہیں گرگِ بارہ دیدہ کی سفاکیاں
لب پہ اک حرفِ دعا اک موجِ خوں خوابوں میں ہے
طائرِ افعی گزیدہ کی طرح خود آدمی
پَر سمیٹے عافیت کی کہنہ محرابوں میں ہے
کس لباسِ نو میں ہو گی روحِ فردا آشکار
چھیڑتا ہے آدمی کے ذوقِ استفہام کو
آگ کا اک دائرہ جادو نفس آشفتہ کار
زندگی سرتابیِ پرواز کا اک باب ہے
ذہنِ عالم کے افق پر ارتقا کا پیچ و تاب
آدمی کی اوج گاہِ نارسا کا خواب ہے

——-
مانا وفا برائے وفا اتفاق تھی
تم سا رہا کوئی نہ کوئی ہم سا رہ گیا

——-
ہمی خود اپنے سے دور اتنے چلے گئے ہیں کہ زندگانی
یہ بات کہنے کی تھی کہ تیرے ملال سے دور ہو گئی ہے

وہ تیرگی کیا جو آپ اپنے ہی خونِ دل سے نہ تیرہ تر ہو
وہ روشنی کیا جو آپ اپنے جمال سے دور ہو گئی ہے
بِنا محبت کی رکھنے والو یہ رسم ہر ہاتھ کی نہیں ہے
جبھی تو تہ کج نہاد دنیا کمال سے دور ہو گئی ہے

——-
کل صبح تھی اُس دشت میں اب شام کہیں ہو
اِس دشت نوردی کا بھی انجام کہیں ہو

نغمے پہ بِنا رکھتا ہے فریاد کی لے کی
طائر کے لیے کش مکشِ دام کہیں ہو

عشاق کی محفل میں، حریفانِ جنوں میں
تسکین کی صورت ہے ترا نام کہیں ہو

اک دورِ مسافت میں کٹی عمرِ گریزاں
ایسی نہ جنوں کاریِ ایام کہیں ہو
روشن ہو رخِ یار سے یا آتشِ مے سے
اک حلقۂ یاراں میں ہو وہ شام کہیں ہو

ہر رنگ میں اس جسم کا اسلوب ہے یکتا
پوشاک کوئی ہو، وہ دل آرام کہیں ہو

سر رکھ کے سرِ خارِ مغیلاں ہی وہ مل جائے
برسوں کی گئی نیند کا آرام کہیں ہو

——-
جس کے کوزے کے پانی سے دوزخ بجھے اور انگیٹھی کے شعلوں سے جنت جَلے
کوئی ایسا ہو گر صاحبانِ حرم، کام اس وقت اس کی مثال آئے گی

تم کہو تو چلا جاؤں اس شہر سے، اس فضا میں ہلاکت ہے جاگی ہوئی
سارے ہانکے میں بھاگے ہوئے جانور یہ ہوا یہ صدا دل کو کھا جائے گی

بہرحال، اردو شاعری میں عزیز حامد مدنی کا کلام ایک درخشاں ستارے کے مانند روشن ہے.

——-

Click here to WATCH book reviews

Click here to read more book reviews

Related Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *