بے ساختہ Bay Saakhta

Akbar Masoom’s book Bay Saakhta

Akbar Masoom’s book Bay Saakhta

بہ صد شرمندگی اس بات کا مجھے اعتراف ہے کہ اکبر معصوم کی وفات سے قبل میں نے نہ ان کا نام سنا تھا نہ ہی ان کے کلام سے آشنائی تھی۔ ان کی وفات کے بعد، جیسا کہ رواج ہے، سوشل میڈیا پر ان کی شاعرانہ عظمت اور جداگانہ شخصیت کی توصیف میں مختلف پوسٹس نظر آنا شروع ہوئیں۔ وہیں سے ان کا منتخب کلام بھی نظر سے گزرا۔ ایک میرے قریبی عزیز اور بہت محترم جنابِ شعیب ابراہیم نے بھی ایک تعزیتی پوسٹ لگائی ہوئی تھی۔ ان سے میں نے دریافت کیا کہ کیا اکبر معصوم کی شاعری کی کوئی کتاب پی ڈی ایف میں ان کے پاس ہے؟ انہوں نے پی ڈی ایف کی بجائے ایک ہارڈ کاپی دینے کی حامی بھر لی۔ اس کے بعد میں نے انہیں یہ وعدہ بھولنے نہ دیا

اس نے ہنسی ہنسی میں محبت کی بات کی
میں نے عدیمؔ اس کو مکرنے نہیں دیا

ان کی شفقت و محبت کہ اکبر معصوم کی کتاب ‘بےساختہ’ میرے گھر دے گئے۔ اب خدا جانے یہ تحفہ تھا یا کتاب پڑھ کر واپس دینا تھی لیکن میں نے ان کی وسعتِ قلبی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اسے تحفہ ہی سمجھا۔

خیر اب کلام کی بات کی جائے تو اس کی خاصیت یہ ہے کہ عام فہم الفاظ میں منفرد مضامین نکالے گئے ہیں۔ اکبر معصوم بیمار رہتے تھے اور زندگی کافی مسائل میں گزری۔ یہ مسائل، اور بےبسی کا اظہار ان کے کلام میں بھی نظر آتا ہے۔ وہ ایک ایسے شاعر ہیں جن کے آدرش بڑے مگر مسائل ان سے بھی بڑے ہیں، کہتے ہیں؛

خواب آرام نہیں، خواب پریشانی ہے
میرے بستر میں اذیت کی فراوانی ہے

دن نکلتے ہی مرے خواب بکھر جاتے ہیں
روز گرتا ہے اسی فرش پہ گلدان مرا

کبھی کبھی یہ ایک شکست خوردہ شاعر کا کلام لگتا ہے، لیکن ایسا شخص جس نے شکست تسلیم کرنے سے پہلے ایک طویل جنگ لڑی ہو

دھیرے دھیرے کھیل گیا میں اپنے سارے رنگ
مایا سب کچھ جیت گئی، میں مٹی ہار گیا
آج ہوا سے پوچھ رہا تھا، اپنے شہر کا نام
اپنی وحشت سے لگتا ہے، وحشی ہار گیا
میں جم کر معصومؔ جیا، پر دیکھ سمے کا داؤ
آدھی عمر لگائی میں نے پوری ہار گیا

وہ دکھی تو ہیں مگر اپنے دکھ میں کسی اور کو شریک نہیں کرتے۔ دکھ کی یہ ہوا شاید انہیں راس بھی آ گئی ہے۔ لیکن وہ نہیں چاہتے کہ اس دکھ کا سایہ کسی کی یاد پر بھی پڑے

کرتا نہیں ہوں یاد کسی کو ملال میں
ایسی ہوا میں پھول کھلاتا نہیں ہوں میں

دنیا کی بےثباتی اور تغیر پر بہت سے شعراء نے لکھا ہے۔ خصوصاَ حامد عزیز مدنی کی شاعری میں تغیر ایک بنیادی خیال کے طور پر نظر آتا ہے۔ اکبر معصوم نے بھی اس خیال پر طبع آزمائی کی ہے۔

شیشے کا یہ مکان ابھی ہے، ابھی نہیں
یہ دل کی آن بان ابھی ہے، ابھی نہیں
اک کھیل ہے جو کھیلتی رہتی ہے اس کی یاد
سینے پہ یہ چٹان ابھی ہے ابھی نہیں

ایک بیمار اور معذور شخص رفتہ رفتہ تنہا ہوتا جاتا ہے۔ یہ تنہائی اور معذوری اس کی حساسیت کو دوچند کر دیتی ہے۔ دیکھیں تنہائی پر ان کے اشعار میں کیسا سوگ اور کیسا روگ ہے

اک ستارہ کہیں ہمارے لیے
اب بھی ہو گا، مگر کہاں ہو گا

وحشت سہی معصومؔ مگر جاؤں کہاں میں
جب خود ہی میں جنگل ہوں تو بن باس کروں کیا

کوئی بھی جھیل لے تنہائی اتنی سہل نہیں
یہ وہ سفر ہے کہ جنگل بھی ساتھ چلتے ہیں
تمام رات جو کرتے ہیں گشت سڑکوں پر
وہ سارے خوف ہمارے گھروں میں پلتے ہیں
عجیب بات ہے معمول کے یہ منظر بھی
کبھی کبھی تو بہت آدمی کو کَھلتے ہیں

یوں کوئی چپ کی تان لگتی ہے
جی نہیں، اس میں جان لگتی ہے
کوئی گاہک نہ ہو تو کیا کیجے
روز دل کی دکان لگتی ہے
پہلے کچھ کچھ یقیں تھا دنیا پر
اب تو یکسر گمان لگتی ہے

یہ جو اک شاخ ہے، ہری تھی ابھی
اس جگہ پر کوئی پری تھی ابھی
اس خرابے میں کوئی اور بھی ہے
آہ کس نے یہاں بھری تھی ابھی
میں بناتا تھا اس کے دل میں گھر
اور قسمت میں بے گھری تھی ابھی

رکتی نہیں ہے ہنسی تیری
تُو ہے اے دُکھیارے کون

درد، ممکن نہیں دوا ہو جائے
اب ہمارے لیے دعا ہو جائے
کوئی حیران آئینے میں رہے
کوئی حیرت سے آئینہ ہو جائے

لیکن اس تنہائی اور بےبسی کو اکبر معصوم نے اپنے تخیل کے آڑے نہیں آنے دیا۔

پیارے پنچھی اڑتے اڑتے
بن جاؤو آکاش کسی دن

در و دیوار سے وحشت ٹپکنا
در و دیوار کا حسنِ بیاں ہے

ہوں آسماں کے زمانے کا، دوں نشانی کیا
سنی نہیں، کبھی تم نے مری کہانی کیا

دمکتی ہے باہر سے دنیا بہت
مگر اس نگینے کے اندر ہوں میں
میں تم جیسا ہو کے بھی خوش ہوں اگر
تو بہتر نہیں، تم سے بدتر ہوں میں

وہ بندِ قبا کھلتے ہی، کھل جائے گا موسم
جادو ہے تو پھر آب و ہوا پر بھی چلے گا
دیکھے سے تو تصویر میں کیا جان پڑے گی
تم اٹھ کے چلو گے تو منظر بھی چلے گا

اُڑا شاخ سے اور فلک ہو گیا
مجھے تو پرندے پہ شک ہو گیا
بہت ذوق تھا رنگ و رُخ سے ہمیں
مگر صرفِ نان و نمک ہو گیا

خاک سے اُٹھ کر، اُوپر دیکھو
اور پھر سارا منظر دیکھو
دیکھو یہ دنیا کیسی ہے
یہ تصویر الٹ کر دیکھو
ڈرتے کیوں ہو، اپنا چہرہ
اپنے خوف کے اندر دیکھو
ماہ نژادو، ہم لوگوں کے
خواب نہ دیکھو، بستر دیکھو
تیر گیا اُس آنکھ میں آنسو
نیا دیکھو، ساگر دیکھو

یہ لو میرے پنکھ لگا لو
تھوڑا سا تو اُڑ کر دیکھو

اکبر معصوم کے کچھ اشعار میں ایک ایسی دنیا کا تذکرہ ہے جو اگرچہ نامعلوم ہے لیکن وہاں تک ان کے ذہنِ رسا کی رسائی ہے۔ یہ وہ دنیا ہے جہاں سے غالب کو نوائے سروش سنائی دیا کرتی تھی۔

آباد نظر آتے ہیں اک اور جہاں میں
ویران مکانوں میں یہ ہوتی ہے ادا سی

جانے کس دنیا میں سوتی جاگتی ہیں
جن آنکھوں سے خواب ہمارا آتا ہے
کوئی کہانی سنتا ہے معصومؔ مری
کبھی کبھی دل سے ہنکارا آتا ہے

اور اس شعر کو آنکھ بند کر کے ذرا تصور کریں کیسا منظر ہے۔

دن بھر جنگل کی آوازیں آتی ہیں
رات کو گھر میں جنگل سارا آتا ہے

آئینوں کا یہ ہے کہ طرح طرح کہ حسین ان میں خود کو دیکھتے اور اپنے حسن میں گرفتار ہوتے رہتے ہیں۔ آئینوں کو کیا پڑی ہے کہ کسی کے سحر میں مسحور ہوں۔ لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دیکھنے والے کا عکس، اس کے جانے کے بعد بھی، آئینوں پر نقش ہو جائے

کبھی آتا ہے زمانوں میں کوئی ان کو پسند
آئینے سب کے گرفتار کہاں ہوتے ہیں

ریت میں کبوتر کے مانند سر دبانا شعراء کی پرانی ریت ہے لیکن اکبر معصوم حقیقت پسند ہیں، نہ اپنی معصومیت کا ڈھونگ رچاتے ہیں نہ دوسروں سے فرشتہ صفت ہونے کی توقع رکھتے ہیں۔

ہم ہیں معصومؔ اور نہ تم معصوم
کارِ دنیا ہے سب کو دامن گیر

غلام تنگ بہت آ گیا ہے دنیا سے
مگر یہ دل سے کہاں سیّدی نکلتی ہے

بعض اشعار پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اکبر نے انہیں کسی مستی کے عالم میں لکھا ہے

سکھی رہو اور دکھ سے مالامال رہو
مست رہو، بدمست رہو، خوشحال رہو
دل اور دنیا ایک ہی لَے پر قائم ہیں
تم جو چاہو بے سُر اور بے تال رہو
ہمیں تو ہو آنکھوں کی ٹھنڈک راحتِ جاں
شوق سے لیکن تم جی کا جنجال رہو
ماں کہتی تھی دکھ تو رہے گا دنیا میں
جیسے سب رہتے ہیں میرے لال رہو

یہ جیون کا، جل کیسا ہے، یہ شیشے کا پل کیسا ہے
پلکوں سے چھو کے دیکھ ذرا، یہ خواب، یہ بادل کیسا ہے
یہ کیسی دھوپ کی کایا ہے، یہ کون سے روپ کی چھایا ہے
یہ سچ مچ ہے یا مایا ہے، یہ شہر یہ جنگل کیسا ہے
کبھی مل جاتا ہے دشمن سے، کبھی مول ملے نہ ساجن سے
یہ پریم کا سونا کیا شے ہے، یہ پیار کا پیتل کیسا ہے
کوئی اس کی بات نہیں پاتا، کوئی اس کے پار نہیں جاتا
اس من ساگر میں پھیر ہے کیا، اس ندیا میں بل کیسا ہے
یہ میل ملن بیراگ ہے کیا،اے ساجن سیج سہاگ ہے کیا
یہ تن اور من کی لاگ ہے کیا، یہ بندھن پل پل کیسا ہے
یہ سات کٹورے پانی کے،رکھے ہیں سیج سرجانے پر
پھر ساجن پریم کی باتوں میں یہ بدھ یہ منگل کیساہے
اس ٹھنڈی میٹھی چھاؤں میں کیوں یہ تن من پگھلا جاتا ہے
اس دھیمی دھیمی برکھا سے یہ دھیان میں جل تھل کیسا ہے
کبھی بھور سمے کو داگ لگے،کبھی اندھیارے میں آگ لگے
یہ دن اور رات کا کھیل ہے کیااس مکھ پر آنچل کیسا ہے
کبھی جگنو ہے ، کبھی جوتی ہے،کبھی تارا ہے ، کبھی موتی ہے
بس جھلمل جھلمل ہوتی ہے، وہ شوخ وہ چنچل کیسا ہے
اس اُجلے نرمل مکھڑے پر یہ دن کا چندن کیونکر ہے
ان سندر کومل آنکھوں میں یہ رات کا کاجل کیسا ہے
رہیں نین ترے یہ لاج بھرے، رہیں جھولی میں پکھراج بھرے
رہیں گوری تیرے چھاج بھرے، سچ کہیو سانول کیسا ہے
ہم سانجھ سویر کے روگی ہیں ، بس پل دو پل کے سنجوگی ہیں
ناں سادھو ہیں ناں جوگی ہیں ، ہم کیا جانے کل کیسا ہے
یہ سُندرتا معصوم ہے کیا،مٹی میں مچی یہ دھوم ہے کیا
یہ من ریشم کا گچھا سا ،یہ تن کا مخمل کیسا ہے

چمک چمک کے ستارے مجھے بلاتے ہیں
میں چپ رہوں، تو یہ سارے مجھے بلاتے ہیں
مرا وجود ہی سب سے بڑا اثاثہ تھا
ڈبو دیا تو کنارے مجھے بلاتے ہیں
مراجعت ہے مری اپنے آئنوں کی طرف
کہ خود مرے ہی نظارے مجھے بلاتے ہیں
ستم تو یہ ہے کہ آواز تک نہیں آتی
مگر کہیں مرے پیارے مجھے بلاتے ہیں
چلا بھی جاتا ہوں معصومؔ بزمِ یاراں میں
کبھی کبھی تو بچارے مجھے بلاتے ہیں

اپنی طرف بھی دیکھ اگر دیکھتا ہے تُو
سورج مُکھی کے پھول کدھر دیکھتا ہے تُو

عجب کیا سنگ جائے، سر نہ جائے
کوئی میری نزاکت پر نہ جائے
محبت کو عبادت کہہ رہا ہے
سنو، یہ آدمی بچ کر نہ جائے
کوئی دیکھے، کہیں یہ سونے والا
بہت زندہ نہیں تھا، مَر نہ جائے
بہت اندر ہی اندر رو رہا ہے
سمندر آنسوئوں سے بھر نہ جائے
تمہیں ہوتی ہے گر صحرا سے وحشت
تو کیا مجنوں بھی اپنے گھر نہ جائے

رہ جائے گی یہ ساری کہانی یہیں دھری
اک روز جب میں اپنے فسانے میں جائوں گا
یہ صبح و شام یوں ہی رہیں گے مرے چراغ
بس میں تجھے جلانے بجھانے میں جائوں گا
یونہی میں خود کو خواب دکھانے میں آ گیا
یونہی میں خود کو خواب دکھانے میں جائوں گا

کہیں کہیں انہوں نے مزاحمتی اشعار بھی لکھے ہیں

اگر یونہی دیے جلتے رہیں گے
ہوا اک روز ہو جائے گی پاگل

آدمی کوئی شہر بھی میں نہیں
اک خبر ہے کہ جو خبر میں نہیں
اُڑ رہا ہے بہت بلندی پر
اک پرندہ جو بال و پر میں نہیں

کچھ میری زمیں تھی یہاں دریاؤں سے پہلے
مجھ سے کہیں پہلے، مرے آقاؤں سے پہلے
آتی ہے بہت بعد میں زنجیر کی آواز
اب راہ الجھتی ہے مرے پاؤں سے پہلے
لگتا ہے کہ یہ بھی کسی وحشت کا اثر تھا
معلوم تھا سب کچھ ہمیں داناؤں سے پہلے
احساس بھی اتنا ہمیں شدت کا نہیں تھا
پھر دھوپ بھی کم تھی یہاں چھاؤں سے پہلے

متفرق اشعار

کیسے جائے خلل، فدا اس پر
دل نہیں تھا، دماغ تھا اپنا

یونہی دائم رہیں تری آنکھیں
یہ مرے آئنے بخیر رہیں
یار زندہ رہیں مرے معصومؔ
وہ بھی، جن کو ہے مجھ سے بَیر رہیں

کچھ بھروسا نہیں مسافر کا
چل پڑے کب یہ چھوڑ چھاڑ کے سب

اس میں مرنے کی سہولت ہے بہت
زندگی میں یہی آسانی ہے

تم پہ کھل جائیں گے جوہر مری یکتائی کے
یوں نہ دیکھو مجھے اوروں سے ملا کر دیکھو

دشتِ حیرت میں سنا ہے، کوئی دیوانہ ہے
آئینہ دیکھتا رہتا ہے، جو اندھا ہو کر

گر جاتا ہوں روز ہی میں اونچائی سے
آج ذرا یہ خواب سنبھل کر دیکھوں گا

ظرف ہے اور چیز، صبر ہے اور
بھرنے والا نہیں ہے جام مرا

درد نے دل کو ڈھونڈ لیا
پہنچا سانپ خزانے تک
وحشت ہو تو ایسی ہو
دشت آئے دیوانے تک

یہ تو بتا اے سندر لڑکی اور اک جیون ہے کہ نہیں
یہ جیون تو بیت چلا ہے، جینے کی تیاری میں

ظاہر ہے کہ ایک استاد شاعر کے کلام کے اچھے یا برے ہونے پر ایک قاری کی رائے مستند نہیں ہو سکتی، لیکن یہ تسلی رکھیے کہ یہ ایک دلچسپ کتاب ہے اور اگر آپ شعر سے شغف رکھتے ہیں تو کلام کی سادگی و پرکاری آپ کو مایوس نہیں کرے گی.

Click here to read more book reviews
Click here to WATCH book reviews

Related Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *