پیار کا پہلا شہر مستنصر حسین تارڑ

پیار کا پہلا شہر از مستنصر حسین تارڑ

پیار کا پہلا شہر مستنصر حسین تارڑ کا ایک شاہکار ناول ہے۔ سن انی سو بہتر میں یہ ناول لکھا گیا اور اپنی پہلی اشاعت کے پچاس سال بعد بھی اسی آب و تاب سے شائع ہو رہا ہے۔ میں نے پیار کا پہلا شہر پڑھنے سے پہلے مستنصر حسین تارڑ کا ناول بہاؤ پڑھا تھا اور اپنی کم علمی پر افسوس ہوا کہ میں تارڑ کو محض ایک سفرنامہ نگار ہی سمجھتا رہا جبکہ وہ ایک شاندار ناول نگار بھی ہیں۔ بہاؤ پر میرا تبصرہ آپ اس لنک پر کلک کر کے پڑھ سکتے ہیں۔

پیار کا پہلا شہر مستنصر حسین تارڑ پچھترواں ایڈیشن

پیار کا پہلا شہر کی کہانی

مشتاق احمد یوسفی نے کرنل ضمیر جعفری سے ایک دفعہ کہا کہ جعفری صاحب آپ کے سفرناموں میں خواتین بہت ہوتی ہیں، کچھ کو آپ نکال کیوں نہیں دیتے؟ اس پر ضمیر جعفری بولے کہ یوسفی صاحب، میں کیا کروں، جس کو بھی نکالتا ہوں روتی بہت ہے۔ سو اگر آپ اردو سفرنامے پڑھ چکے ہیں، خصوصاََ مستنصر حسین تارڑ کے سفرنامے، تو آپ نے ان میں دلفریب و دلکش، الھڑ دوشیزاؤں کے تذکرے جابجا پڑھے ہوں گے لیکن ان کا تذکرہ عموماََ ایک دو صفحات اورجذبات کو برانگیختہ کر دینے والے چند جملوں تک محدود رہتا ہے۔ آپ یوں سمجھیے کہ مستنصر حسین تارڑ نے پیار کا پہلا شہر میں زوم ان کر کے ایک سیاح سنان کی ایک دوشیزہ پاسکل سے ایسے ہی ایک ٹاکرے کی داستان تفصیلاََ بیان کی ہے۔

پیار کا پہلا شہر کے کرداروں کا تعارف

سنان ایک پاکستانی سیاح ہے جو ماں باپ، دوستوں یاروں کے بار بار روکنے کے باوجود روٹین کی زندگی سے تنگ آ کر کچھ مہینوں کےلیے سفر پر نکل پڑتا ہے۔ فرانس کی طرف جاتے بحری جہاز میں اس کی ملاقات پاسکل سے ہوتی ہے اور سفر میں پہلی بار وہ کسی دوشیزہ کو دل دے بیٹھتا ہے۔ پیار کا پہلا شہر پاسکل اور سنان کے ملنے اور پھر باہمی پیار محبت کی کہانی ہے۔ لیکن یہ ایک سیدھی سادھی کہانی نہیں، اس میں کچھ موڑ بھی ہیں۔

پیار کا پہلا شہر یعنی پیرس میں سنان کو ملنے والی پاسکل بھی دنیا کی سیر کرنا چاہتی ہے مگر وہ اپاہج ہے اور اپنی اسی معذوری کی بنا پر شدید احساس کمتری کا شکار بھی ہے۔ دوسری طرف سنان پاسکل سے محبت کرنے کے باوجود یہ جانتا ہے کہ وہ ایک سیاح ہے، تاعمر وینس میں رہ نہیں سکتا۔ پاسکل کا یہ فقرہ تو بہت اہم ہے:
بد صورت لوگوں کو بھی محبت جیسے جذبے کی چاہت ہوتی ہے مگر ان کا دل اس بات کو نہیں مانتا کہ وہ صرف اس وجہ سے محبت سے محروم کردئیے جائیں۔

ایک طرف اپاہج پاسکل ہے، دوسری طرف جینی ہے جو مومارت جیسے بدنام علاقے میں جسم فروشی کرتی ہے مگر اس پیشے سے جان چھڑا کر ایک صاف ستھری زندگی گزارنا چاہتی ہے۔ اور ان دونوں کی توجہ کا مرکز سنان ہے جو جانتا ہے کہ وہ اس شہر میں زیادہ دن نہیں رہ سکتا اور وقت اتنا کم ہے کہ وہ پاسکل اور جینی دونوں کو وقت بھی نہیں دے سکتا۔ جینی، مصور پال، مومارت کا علاقہ، وہاں کے قحبہ خانے قاری کو پیار کا پہلا شہر یعنی پیرس جیسے روشن شہر کے تاریک پہلوؤں کا بھی نظارہ کرواتے ہیں۔ جینی اور اس کی کہانی کے بارے جان کر سنان پاسکل سے یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ معذوری صرف جسمانی نہیں ہوتی، دنیا میں اکثریت معذور لوگوں کی ہے، کچھ کو جسمانی معذوری ہوتی ہے اور کچھ کو بھوک معذور کر دیتی ہے۔

پیار کا پہلا شہر: کچھ تاثرات

مجھے ذاتی طور پر پیار کا پہلا شہر اس لیے بھی پسند آیا کہ مستنصر حسین تارڑ نے بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر نہیں لکھا۔ یہ ایک ایسی کہانی ہے جو فکشن ہونے کے باوجود حقیقت سے قریب تر ہے۔ جذبات نگاری میں تو چاچا جی مستنصر حسین تارڑ کو ویسے ہی کمال حاصل ہے، مگر پیرس میں مختلف مشہور مقامات کی سیر کے دوران سنان کے تاثرات حقیقت پسندانہ ہی تھے۔ میری طرح سنان کو بھی مونا لیزا کی تصویر اوور ریٹڈ لگی۔

نپولین کے مقبرے پر ان ممالک کے جھنڈے لگے تھے جو نپولین نے فتح کیے تھے تو سنان مرعوب ہونے کے بجائے یہ سوچتا ہے کہ ان جھنڈوں سے دوگنے جھنڈے نپولین روس کے ساتھ جنگ میں ہار آیا تھا۔ اور ناول پڑھتے ہوئے جب اس مقام کا تذکرہ آتا ہے جہاں گلوٹین گاڑ کر، انقلاب فرانس کے دنوں میں فرانسیسی بادشاہ لوئیس اور اس کی ملکہ سمیت ہزاروں امراء کو پھانسی دی گئی تھی، تو مجھے چارلس ڈکنز کے ناول دو شہروں کی کہانی کی یاد آئی۔

پیار کا پہلا شہر مجموعی طور پر ایک دلچسپ ناول ہے اور اس کا اختتام بھی سطحی اور روایتی نہیں ہے۔ مجھے ویسے ناول کے آخری باب نے بہت اداس کیا۔ شاید یہ اداسی جو پیار کا پہلا شہر میں چھائی ہوئی ہے، یہ قاری کے ساتھ کچھ دن تو رہتی ہے، اور شاید اسی اداسی کی وجہ سے ہی یہ ناول اب تک پچھتر دفعہ شائع ہو چکا ہے۔

دلچسپ اقتباسات اور ویڈیو تبصرے کےلیے آپ کتاب زندگی فیس بک پیج اور یو ٹیوب چینل کو فالو اور سبسکرائب کر سکتے ہیں۔

Related Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *